غیر مطلوبہ قربانی اور راہ اعتدال محمد سعیدالحق ندوی جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم،بنگلور

غیر مطلوبہ قربانی اور راہ اعتدال
محمد سعیدالحق ندوی
جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم،بنگلور
تقریباً گزشتہ ایک مہینہ سے چند لوگوں کی طرف سے غیرمطلوبہ قربانی کے خلاف مسلسل نہ صرف تحریک چلائی جارہی ہے، بلکہ اسے صریح لفظوں میں ناجائز بتایا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بہت سارے لوگوں کو یہ غلط فہمی ہورہی ہےکہ غیر مطلوبہ قربانی جائز ہی نہیں ہے. بہت کوشش کی کہ خاموشی اختیارکی جائے. لیکن روزبروز معاملہ کوشدت اختیارکرتے دیکھ کر مندرجہ ذیل تحریر لکھنے پر مجبورہونا پڑا۔
ان تحریروں کے پڑھنے کے بعد تحریک کی دو وجہیں سمجھ میں آئی.
1. کچھ لوگوں نے اس کو لوٹ کا ذریعہ بنالیا ہے، اور وہ چند جانوروں کی قربانی کرکے بقیہ لوگوں کی قربانی ہی نہیں کرتے. اور سارا مال ہڑپ لیتے ہیں.
یقیناً اس حرکت کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے. اور ایسے لوگ یقیناً مجرم ہیں. ان کے خلاف کاروائی ہونی ہی چاہیے اوراعتدال کےدائرے میں رہتے ہوئے امت کو ایسے لوگوں سے بچانے کی کوشش بھی کرناچاہئے اوریہ ایک بہت اچھا قدم ہے اورہمارا فریضہ بھی۔
2۔ دوسری وجہ جو ان تحریروں کے پڑھنے سے معلوم ہوئی کہ اتنی کم رقم میں قربانی نہیں ہوسکتی ۔کیونکہ یہاں بنگلور میں ایک ایک جانور 40 ،45 ہزارمیں ملتاہے ۔
اب ہمیں کیا کرنا چاہئے ،کیا ان لوگوں کی وجہ سے جنہوں نے اس کو لوٹ کا ذریعہ بنالیا ہے اورامت کو دھوکہ دے رہے ہیں ،کیا ہمیں پورے نظام غیرمطلوبہ قربانی کو ناجائز قرار دینا چاہئے ،جس کاہمیں شرعاً کوئی اختیارنہیں ۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے حلت وحرمت کا تعلق دلیل شرعی سے ہے، جس طرح ہم کسی حرام کو دلیل شرعی کے بغیر حلال قرار نہیں دے سکتے ،ٹھیک اسی طرح ہم کسی حلا ل چیزکو دلیل شرعی کے بغیر حرام بھی قرارنہیں دے سکتے۔ شریعت کی نظر میں جس طرح کسی حرام کو حلال قراردینا جرم ہے اوراگرہمیں معلوم ہوجائے کہ کوئی شخص کسی حرام کو حلال قراردے رہاہے تو ہم اسے برداشت نہیں کرتے اورکرنا بھی نہیں چاہئے،جیسے بعض لوگ سود کوحلال قراردینے کی ایک زمانے سے کوشش کررہے اور علماء سے اس لئے نالاں ہیں کہ انہوں نے اب تک ان کاساتھ نہیں دیا۔ ٹھیک اسی طرح کسی حلال وجائزکام کوحرام وناجائز قراردینا بھی جرم ہے۔جسے برداشت نہیں کیا جاسکتا۔( لم تحرم مااحل اللہ لک) اب ان لوگوں سے ادبا یہ گزارش ہے کہ جنہوں نے ایسی تحریریں لکھی کہ غیرمطلوبہ قربانی درست نہیں ،جائز نہیں ۔کیا ان کے پاس کوئی دلیل ہے جس کی بنیاد پرعلی الاطلاق وہ یہ کہ سکیں کہ غیرمطلوبہ قربانی شرعاًدرست نہیں ،اگر ہے تو براہ کرم وہ دلائل کے امت کے سامنے لائیں۔ تاکہ جومعتبرصحیح ادارےاورمعتبروصحیح لوگ بھی (بقول ان لوگوں کے) اس جرم میں ملوث ہورہے ہیں جیسے مولانا سجاد صاحب نعمانی دامت برکاتہم وغیرہ، وہ اس سے رک جائیں ،ورنہ خدارا وہ علی الاطلاق اس طرح کی تحریروں سے رکیں اورصحیح کام کرنے والوں کی دل شکنی کا ذریعہ نہ بنیں۔ جہاں غلط کام کرنے والوں کوروکنا چاہئے وہیں ہمیں ہرایسی حرکت کے ارتکاب سے بچنا چاہئے جو صحیح کام کرنے والوں کی دل شکنی ودل آزاری کا سبب بنے۔
نمبر دو اس قربانی کے غلط اورناجائز ہونے کی دوسری دلیل یہ دی جارہی ہے کہ اتنی کم قیمت میں یہ قربانی نہیں ہوسکتی ، تواحقر کا خیال ہے کہ ،یہ ان حضرات کی غلط فہمی اورہندوستان کے مختلف علاقوں میں بعض چیزوں کی قیمتوں میں حددرجہ تفاوت سے ناواقفیت کی دلیل ہے۔
اگر بہار ،بنگال،یوپی کا موازنہ بنگلور جیسے مہنگے شہر سے کریں گے تو یقینا ہم سے یہ غلطی ہوگی ۔ اگر ہم بنگلور کی بات کریں تو بڑے جانور تو دور ، ایک صحت مند بکرے میں بھی 1500 میں ایک حصہ لینا مشکل ہے۔ دورمت جائیے شہربنگلورسے باہر نکلئے اضلاع کا اندازہ لگائیے ہمارے ایک مؤقرمدرس نے شیموگہ سے ایک بڑے جانور کی تصویر دکھائی ،جس کی قیمت 12 یا 13 ہزار تھی ۔ تو جب یہاں بنگلور سے باہر نکلنے کے بعد کرناٹک کے ہی دیگراضلاع سے بنگلور کا اتنا تفاوت ہوسکتا ہے، تو پھر وہاں اس قدر تفاوت کا ہونا کوئی بعید بات نہیں ۔ بلکہ احقر پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ بات کہنے کے لئے تیارہے کہ بہارکے دیہی علاقوں میں 1500سے 2000 تک میں بآسانی قربانی دی جاسکتی ہے ۔ محض قیمت کے کم ہونے سے ہم اس کو ناجائز اورناممکن نہیں کہ سکتے۔
ہر چیز میں ہمیں مثبت ومنفی دونوں پہلو دیکھنا چاہئے ۔ لاک ڈاؤن کے اس تنگی کے زمانے میں جہاں اکثر لوگ معاشی طورپر پریشان ہیں اوران کے اوپر قربانی واجب ہے بالخصوص ان کے گھر کی مستورات کے اوپر ، ایسے میں وہ پریشان ہیں تذبذب کاشکار ہیں کہ قربانی کا یہ فریضہ ہم اداکریں یا نہ کریں۔ چونکہ شریعت نے اس بات کی اجازت دی ہے کہ ہم کہیں بھی قربانی کریں ،ادا ہوجاتی ہے ایسے موقع پر معتبر لوگوں کے ذریعے چلایاجانے والا یہ نظام رحمت ہے،آسانی کا ذریعہ ہے، جس سے فائدہ اٹھانے میں نہ شرعا کوئی قباحت ہے نہ ہی عقلا۔ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند
مذہب اسلام ایک معتدل مذہب ہے اوراپنے ماننے والوں سے اس کا مطالبہ کرتاہےکہ وہ راہ اعتدال اختیارکریں ،ہم علماء چونکہ اسلام کے ترجمان شمارکئے جاتے ہیں ،اس لئے اس صفت اعتدال سے ،سب سےزیادہ ہمیں متصف ہونے کی ضرورت ہے۔ ایسےموقع پر کرنا یہ چاہیے تھا کہ جو لوگ اس طرح کی حرکتوں میں ملوث ہیں،اوران کے خلاف شواہد بھی موجود ہیں ان کے خلاف ہمارے ملی اداروں کے ذریعہ موثر اور سخت کارروائی کرتے، تو زیادہ بہتر ہوتا،اس سے ہمارامقصد یعنی امت کو ایسے لوگوں سے بچانا وہ حاصل ہوجاتا۔اورعلماء اورمدارس بدنام ہونے سے بچ بھی جاتے ،آپ مانیں یا نہ مانیں ، یہ ہیں تو علماء یا علماء نما اوراہل مدارس ہی ۔ہم سمجھیں یا نہ سمجھیں عوام تو یہی سمجھتی ہے،وہ زیدبکر میں فرق کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی ۔اوراس کی زد میں آنے سے وہ مدارس بھی بچ جاتے جو دوردراز علاقوں دین کی مخلصانہ خدمت کررہے ہیں اور ان مدارس کی اس نظام کے ذریعہ مدد ہوجارہی ہے ،ان کے تعاون کا یہ سلسلہ جاری رہتا۔ اس کے بجائے ہم ایسا کام کر رہے ہیں جس سے پورا نظام ہی مشکوک ہوجاتا ہے اور اچھے اور معتبر ادارے بھی اس کی زد میں آجاتے ہیں. پھر عوام اس میں تفریق نہیں کر پائی گی کہ کون صحیح ہے اور کون غلط.مثلا حضرت مولانا سجاد صاحب نعمانی دامت برکاتہم کے ادارہ کے ذریعہ اس پروگرام کو علی الاعلان بڑے پیمانے پر چلایا گیا ،کیا اس مطلق تحریک کی وجہ سے لوگوں کو غلط فہمی نہیں ہوگی ؟اورلوگوں کے دلوں میں حضرت مولانا کے تعلق سے یہ بات پیدانہیں ہوگی کہ اگریہ غلط ہے تو پھر اتنے بڑے مولانا کیوں کررہے ہیں ؟ یا پھر یہ مان لیا جائے نعوذباللہ کہ حضرت مولانا سجاد صاحب جیسی اللہ والی شخصیت بھی اس میں شامل ہے؟ اس علی الاطلاق تحریک کا اثر یہ ہواکہ جس نے بھی اس کام کوکرنے کا ارادہ کیا۔ اس کے پیچھے پڑگئے قطع نظر اس سے کہ وہ غلط ہے یا صحیح ۔مثلا حضرت مولانا طلحہ صاحب نقشبندی دامت برکاتہم کے ذریعہ چلنے والا ادارہ دارالاحسان ہے ،اس نے اس نظام کے مطابق کام کرنے کا ارادہ کیا تو کچھ لوگوں نے ان کے ساتھیوں کو کال کرکے صاف لفظوں میں کہاکہ آپ لوگ حرام کھارہے ہیں ،جس کی آڈیو وائرل ہوئی ،جبکہ ہم میں سے سب حضرت مولانا طلحہ صاحب نقشبندی دامت برکاتہم سے اچھی طرح واقف ہیں اوراسی طرح بنگلورکے جو ذمہ دارہیں۔ وہ بھی کوئی غیرمعروف اور غیرمعتبر نہیں ہیں۔
ہماری اس تحریک سے ہمت پاکر ایک غیر عالم کو بھی علی الاعلان یہ لکھنے کی ہمت ہوئی کہ غیرمطلوبہ قربانی کا اعتبارنہیں،جب کہ یہ مسئلہ مکمل طوراہل علم سے متعلق ہے ۔ اورہم صرف اس لئے خوش ہورہے ہیں اوروائرل کررہے ہیں کہ چلو ہمارے مطابق ایک بات لکھ دی۔
ذرا غورتو کیجئے!اس وقت دین کا کون سا شعبہ ایسا ہے جہاں برے لوگ داخل ہوکر، اس شعبے کی بدنامی کا ذریعہ نہیں بن رہے ہیں، تو کیا ہم ایسے لوگوں سے اس شعبہ کی حفاظت کرنے کی کوشش کریں گے یاپھر اس شعبہ کو ہی کالعدم قراردیدیں گے۔ ہم جس حد تک تحقیق کرسکتے ہیں،کریں گے پھرمعاملہ کریں گے اورعوام کو بھی اسی احتیاط کی دعوت دی جائے ،پھر بھی معاملہ غلط ہوجائے تواللہ کے حوالے،ہماری قربانی توادا ہوجائے گی ،اس کی غلط کاری کا وبال اس کے سر آئے گاجیسا کہ فتاویٰ دارالعلوم دیوبند اورفتاوی قاسمیہ کے ایک فتویٰ سے یہ بات معلوم ہورہی ہےاورہمارا کام یہ ہونا چاہئے کہ جہاں ہمیں غلط نظرآئے اور اس کی تحقیق ہوجائے ،مؤثرطریقے سے اس کو روکنے کی کوشش کی جائے اورلوگوں کو آگاہ کیا جائے کہ آپ حضرات سوچ سمجھ کر معاملہ کریں۔ کل احقر نے شہر بنگلور کی دو مؤقرشخصیات کابیان سنا ۔پہلے حضرت مولانا مفتی محمد شعیب اللہ خان صاحب مفتاحی دامت برکاتہم،بانی ومہتمم جامعہ اسلامیہ مسیح العلوم،بنگلور کا ، جس میں حضرت والا سے سائل نے یہ پوچھا ہے کہ غیرمطلوبہ قربانی کا کیا حکم ہے؟ تو حضرت والا نے بڑاہی عمدہ جواب دیا کہ چونکہ اس کا نظام عموما اہل مدارس اورعلماء سنبھالتے ہیں ۔اس لئے کرسکتے ہیں ۔ دوسرابیان حضرت مولانا مفتی افتخار صاحب قاسمی دامت برکاتہم ، صدرجمعیت علماء ہند کرناٹک کا ، جس میں حضرت والا سے سائل نے یہ پوچھا ہے کہ اس لاک ڈاؤن کی مندی میں ایک گھر کے پانچ پانچ افراد پر قربانی واجب ہے اورشہر بنگلورمیں اس مرتبہ مشترکہ قربانی کا نظم نہیں ہے اور ہر ہر فرد موجودہ وقت میں بکرہ نہیں خرید سکتا،ایسی صورت میں کیا کرنا چاہئے تو حضرت مفتی صاحب نے کہا اپنے رشتہ داروں اورمعتبر لوگوں کے ذریعے جہاں قیمت کم ہوں ،وہاں حصہ لے کر اس فریضہ کی ادائیگی کریں۔ نہ تو حضرت مفتی شعیب اللہ خان صاحب دامت برکاتہم نے علی الاطلاق غیر مطلوبہ قربانی کو ناجائز قراردیا اورنہ ہی حضرت مفتی افتخار صاحب دامت برکاتہم نے۔
خلاصہ کلام:
اس تحریر کا مقصد ہرگز ہرگز نہ تو کسی غلط کام کرنے والے کا دفاع ہے نہ ہی کسی کی دل شکنی مقصود ہے بلکہ صحیح لوگوں کو اس کی زد میں آنے سے بچانا ہے،اورایک شرعی حلال مسئلہ کو لوگوں کےنزدیک حرام ہونے سے بچانا ہے۔
ان ارید الاصلاح مااستطعت وماتوفیقی الاباللہ
Comments are closed.