مر جائے انسان بس جمہوریت داغدار نہ ہو نوراللہ نور

مر جائے انسان بس جمہوریت داغدار نہ ہو
نوراللہ نور
ہم آزادی ہند کے بعد سے پرفریب؛ خدع و مکر سے پر جمہوریت کے سحر میں مبتلا ہیں اس کے عارضی فوائد سے آس لگائے بیٹھے ہیں جانیں تلف ہوگئیں ؛ حقوق مسلوب ہوتے رہے مساجد و مدارس اور عبادت گاہوں کو مسمار کیا گیا اور قفل آویزاں کیا گیا مگر ہم اس مکر کے پلندہ پر تکیہ لگائے ہوئے ہیں انسانیت کے منافی عمل بدستور جاری ہیں مگر ہم اب تک اس کی پرستش میں لگے ہیں اور اس قدر سحر زدہ کہوں یا خوف زدہ کہ ہم اپنے شعایر کو بر ملا کہنے سے بھی گریزاں ہے مطلب یہ کہ جان چلی جائے مگر جمہوریت داغدار نہ ہو
ویسے ہم اگر اس جمہوری نظام کے خامیوں اور خوبیوں کی غایرانہ جانچ پڑتال کریں تو نقص و کمی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آیے گیا اس لیے ہم صرف ایک سر سری نگاہ اس کی مضرت و منفعت پر ڈالتے ہیں تو ایں جا بھی یکساں است آزادی ہند کے بعد جنہوں نے ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کے لئے اپنوں میں فرقت پیدا کردی ان کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا اور جنہوں نے جمہوریت پر تکیہ لگایا تقسیم وطن سے ہی ان کے ساتھ دوہرا معیار روا رکھا گیا اور اس جمہوری نظام کے ساے میں ایک طبقے کے افکار و نظریات کو مسلط کرنے کی داغ بیل ڈالی گئی اور زہر آلود تنظیم کا وجود ظہور پذیر ہوا مگر ایوانوں میں بیٹھے عہدیداروں نے اس کے زہر کا علاج نہیں کیا بلکہ مصلحت کا لبادہ اوڑھے اور اخوت و محبت کا راگ الاپتے اسے پروان چڑھنے دیا گیا اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ ایک تناور درخت کی شکل اختیار کر گیا اور یہ نظام اگر اتنا ہی کارگر اور مفید و قوی تھا تو اس کی بیخ کنی کیوں نہیں کی گئی ؟
ویسے یہ تو ابتدا تھی لیکن اس کے بعد اس نے اپنے رنگ و روپ دکھانا شروع کیا اس کے بعد بابری شہید ہوئی گجرات ؛ میرٹھ؛ ملیانہ ؛ مالیگاؤں ہمارے لہو سے سرخ ہوا اور اس کے بعد دو قدم آگے بڑھ کر ساور کر اور گولکر کی اولادیں ہماری وطنیت پر انگشت نمائی ہی نہیں بلکہ ملک بدر کرنے کی پلاننگ بھی کی مگر ہم نے کیا کیا ؟ سیکولرزم کے بہکاوے میں آتے رہے بابری مسمار ہوئی اور بہت آسانی سے عدلیہ پر اعتماد کرتے ہوئے کافروں کے ہاتھ اسے فروخت کردی اور مصلحت کے نام اس سے دستبردار ہوگئے ہم نے جمہوریت کی بقا اور شبیہ کے لئے اپنا سب کچھ داؤ پر لگادیا اور اس نے ہمیں مذلت و خوارگی کے تحفے عنایت کیے
پتہ ہے ہم جس سیکولرازم کو معتمد گردانتے ہیں اور جس جمہوریت کے لیے ہم سب کچھ لٹا چکے ہیں وہ اس قدر ناقص اور کمزور ہے کہ ایک انسان سڑک پر ہجوم کے غصہ کے نظر ہو جاتا ہے مگر جمہوریت اور مساوات کی بات کرنے والے ان کاکچھ بال بیکا بھی نہیں کرسکتے بلکہ وہ ان سے خایف ان کی پشت پناہی کرتے ہیں پتہ ہے جس سیکولر ازم نظام کی تم بات کرتے ہو وہ اس قدر بے مطلب و مقصود ہے کہ قاتل اس نظام میں آزادی سے گھومتا ہے اور ڈاکٹر قید و بند میں ہوتا ہے آخر ہم اس لچر اور غیر منصفانہ نظام کے سایے میں کب تک رہیں گے ؟
اس میں سب مساوات کی رٹ لگاتے ہیں اور اخوت و محبت کی گن گاتے ہیں مگر عملی جامہ سواے چند ذی شعور لوگوں کے کسی نے نہیں پہنایا سب کہتے ہیں کہ تہواروں کا سنگم ہندوستان کی ریتی رواج کی ایک حسین و دلکش کڑی ہے مگر جب بقرعید پر نماز پر پابندی لگی کسی نے ایک لفظ نہیں بولا دیکھ لو جمہوریت پر تکیہ لگانے والوں کس قدر بھید بھاؤ کیا جاتا ہے رکھشا بندھن میں تو کھلی چھوٹ مگر عید اور بقرعید پابندی یہ ہے جھوٹی ڈیموکریٹک اور جمہوری نظام کی کارستانیاں جس پر ہم ایک صدی سے لب ببند چشم بند بیٹھے ہیں
غلطی اس میں ان کی نہیں ہماری ہے اور ہماری ناقص اور نام نہاد قیادت کی ہے جس نے ذاتی مفاد کے لیے صرف سمجوتا کیا ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے ہمیشہ ہم کو ہی امن و امان صلاح دی ہے کبھی ہمارے مظالم پر ان سے باز پرس نہیں کی پہلو مرگیا اخلاق کی ہتھیا ہوگی ؛ اور حال فی الحال میں لقمان تشدد کا نشانہ بن گیا مگر ان کی مصلحت رٹ ہنوز جاری ہے عید پر پابندی نماز پر پابندی مگر وہ کبھی ان سے کھل کر بات نہیں کر سکے ان کی من مانی پر لوگوں سے چلنے پر بے غیرتی سے عمل کی تلقین کرتے رہے اگر کسی کو تکلیف ہے میرے ان الفاظ سے تو معذرت ہے کہ ایسی قیادت پر جو ظلم پر خاموش تماشائی بنی رہے میں اعتبار نہیں کرتا ہے ان کا کہنا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے انسان مر جائے مگر جمہوریت کا وقار مجروح نہ ہوں اور سیکولرازم داغدار نہ ہوں
مگر معاف کیجئے ہمیں نفرت ہے ایسی جمہوریت سے اور گھن ہے ایسی دوغلی پالیسی ہے اور تکلیف ہے ایسی قیادت سے خوشی کا موقع ہے خوشیاں بانٹنی چاہیے یہ وقت ان باتوں کا نہیں مگر کس بات کی خوشی میرے لیے مسجد بند ہے اور برادران وطن کے لیے پورا بازا کھلا ہے اس کی بات کی خوشی ؟ ہمارے بے قصور نوجوان سلاخوں میں ناحق قید اور ہم سوی اور شیر قورمہ کھایں ؟ لعنت ہے ایسے صاحب اقتدار پر ؛ لعنت ہے ایسے خستہ و ناقص نظام پر اور تف ہے ایسی قیادت پر ۔۔۔
Comments are closed.