مولانا مکین احمد رحمانی  کچھ یادیں کچھ باتیں

مولانا مکین احمد رحمانی

 

کچھ یادیں کچھ باتیں

 

مدرسہ چشمہ فیض ململ کے نائب مہتمم حضرت مولانا مکین احمد رحمانی بھی راہئ ملک بقا ہوئے اس طرح وہ دوسرا ستون بھی ڈھہ گیا جس نے اپنی پوری قوت و توانائی مدرسہ چشمہ فیض ململ کی بنیادوں کو مستحکم کرنے میں صرف کردی تھی . جس نے اپنی زندگی کے آرام و سکون کو اس گلشن کی تعمیر اور ترقی کے لئے تج دیا تھا .

حضرت مولانا مکین احمد رحمانی مدرسہ چشمہ فیض کے نائب مہتمم مولانا وصی احمد صدیقی کے رفیق خاص اور چشمہ فیض کی آبرو اور اس کا وقار تھے

مولانا وصی احمد صدیقی کے ساتھ ان کی رفاقت قران السعدین کا درجہ رکھتی تھی

وہ دونوں ایک جان دوقالب تھے

دونوں بزرگوں میں کامل ذہنی موافقت اور مکمل ہم آہنگی کی بنا پر مدرسہ کی فضا اور اس کا ماحول بہت خوشگوار رہتا تھا.

آج سے کم و بیش دس سال قبل سالانہ امتحان کے موقع پر نگراں ممتحن کی حیثیت سے میری حاضری چشمہ فیض ململ میں ہوئی تھی حضرت مولانا وصی احمد صدیقی صاحب غالباً کسی سفر پر تھے البتہ مولانا مکین احمد رحمانی مدرسہ میں موجود تھے .

کئی روز مدرسہ میں میرا قیام رہا اس موقعہ پر مولانا کو بہت قریب سے دیکھا ان کے اخلاق اور ان کے رنگ طبیعت کو پرکھا

مولانا بہت ہلکی پھلکی اور سادہ زندگی گزارتے تھے

لباس معمولی مگر صاف ستھرا قد درمیانہ ‘ رنگ سانولا ‘ مگر چہرہ پر بلا کی جاذبیت اور کشش کم بولتے تھے مگر بولتے تو محبت اور پیار کی پھلجھڑی برساتے .

میرے بزرگ دوست اور مدرسہ اسلامیہ کے قدیم ہونہار طالب علم مولانا فیاض احمد قاسمی سمستی پوری اس سفر میں اکثر میرے ساتھ ہواکرتے مولانا فیاض صاحب اور چشمہ فیض کے دیگر اساتذہ کو مولانا مکین احمد رحمانی کے تئیں میں نے بہت مؤدب پایا.

مجھے سب سے زیادہ مولانا کی سادگی اور منکسر المزاجی نے متاثر کیا مولانا سے پہلی ملاقات میں ہرگز کوئی یہ سمجھ نہیں پاتا کہ وہ کسی ادارے کے ذمہ دار ہیں ہٹو بچو کا ان کے یہاں گزر نہیں تھا میں نے کسی کو ڈانٹتے یا کسی طالب علم کی فہمائش کرتے ہوئے نہیں دیکھا لیکن اس کے باوجود جب وہ مدرسہ میں ہوتے تو ہر طرف متانت اور سنجیدگی کا ماحول رہتا.

مجھے افسوس ہے کہ ان سے بار بار ملاقات یا گفتگو کے مواقع میسر نہیں آئے مگر خوشی اور کسی قدر حیرت اس بات پر ہے کہ دس سال پہلے ان کو دیکھ کر جو تاثر میرے ذہن پر قائم ہوا تھا وہ ویسا ہی جیسے میں نے انہیں کل دیکھا ہو.

یہ کمال ہے ان کے حسن اخلاق ان کی سادگی اور ان کی منکسر المزاجی کا کہ جو کوئی ایک بار ان سے ملتا ان کا عاشق اور دیوانہ ہوجاتا.

مولانا بڑے عجیب انسان تھے مدرسہ کا چھوٹے سے چھوٹا کام ہوتا عہدے اور منصب کی پرواہ کئے بغیر بڑھ کر خود اس کو کرنے لگتے .

ایک دن دوپہر کے وقت کھانے کے بعد میں مہمان خانہ کی طرف بڑھ رہا تھا گرمی کا موسم قہر ڈھا رہا تھا مولانا کو دیکھا کہ نالے کی صفائی میں لگے ہوئے ہیں میں ٹھٹھک کر کھڑا ہوگیا جب نالے کی صفائی ہوگئی تو دیکھا کہ سیمینٹ سے اس کی تھوڑی مرمت کر رہے ہیں

پھر میں کسی خیال سے وہاں سے ہٹ گیا میں نے کتابوں میں علماء کرام اور صوفیاء عظام کی سادگی اور منکسر المزاجی کے جو واقعات پڑھے تھے وہ یکے بعد دیگرے نگاہ تصور میں پھرنے لگےمیں انہیں خیالات میں کھویا ہوا اپنے کمرے کی طرف چلاگیا میں نے بعد کی کسی ملاقات میں مولانا سے اس کا ذکر کیا مگر انہوں نے اس پر کسی رد عمل کا اظہار نہیں کیا.

مولانا کو مدرسہ چشمہ فیض سے جو والہانہ لگاؤ تھا اس کو لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے اور دیگر رفقاء کے مفاد پر ہمیشہ ادارے کے مفاد کو ترجیح دی جس کی بنا پر یہ ادارہ پھلتا پھولتا اور ترقی کرتا رہا .

مولانا وصی احمد صدیقی سے ان کی ذہنی اور قلبی وابستگی اور کاموں میں ان کا مکمل تعاون تو جگ ظاہر تھا لیکن میں نے ململ کے قیام کے دوران خاص طور پر اس بات کو محسوس کیا کہ وہ مولانا وصی احمد صدیقی کے صاحبزادے مولانا فاتح اقبال ندوی سے بھی اپنی حقیقی اولادوں کی طرح محبت کرتے تھے مدرسہ کا ہر چھوٹا بڑا کام باہمی مشورے سے کرتے کہیں جانا ہوتا تو مولانا کو ساتھ لئے رہتے کچھ کرنا ہوتا تو مولانا کو یاد فرماتے اس لئے آنے والوں کو مولانا وصی احمد صدیقی کے غائبانہ میں بھی کمی کا احساس نہیں ہوپاتا.

چشمہ فیض سے لوٹنے کے بعد مولانا از راہ محبت کبھی کبھی فون پر مجھے یاد فرماتے میں ہر بار اپنی کوتاہی پر شرمندہ ہوتا البتہ کوئی حکم ہوتا تو فورا اس کی تعمیل کی کوشش کرتا. چشمہ فیض کے قیام کے دوران انہوں نے اس ناچیز کا بہت خیال رکھا وہ اپنی بزرگانہ شفقت اور محبت کی بنا پر میری راحت اور آرام کا خیال رکھتے اور میں اس خورد نوازی پر شرمندہ ہوتا . عمدہ سے عمدہ کھانا میرے لئے گھر سے منگواتے

وہ آم کا موسم تھا اس لئے کئی طرح کا آم بھی دسترخوان پر موجود ہوتا مولانا آموں کی اقسام اور ان کے خواص سے بھی متعارف کراتے لیکن مجھے چوں کہ اس کا ذوق کم ہے اس لئے ایک دو آم کو چھوڑ کر باقی میں ترش اور میٹھے کا ہی فرق کرپاتا ہوں.

چند روز کے قیام بعد میں نے واپسی کی اجازت چاہی حالاں کہ ابھی امتحانات مکمل نہیں ہوئے تھے لیکن مولانا نے بخوشی اجازت مرحمت فرمائی .

میں چشمہ فیض سے لوٹا لیکن مولانا کی طبیعت کا بھولاپن ان کی معصومانہ سادگی بزرگانہ شفقت اور بے ریا محبت کا گہرا اثر مدتوں میرے دل و دماغ پر چھایا رہا

وہ اس شعر کا مصداق تھے

 

نگاہ سرخ نہیں چہرہ آفتاب نہیں

وہ آدمی ہے مگر دیکھنے کی تاب نہیں

جب کبھی کسی شخص سے ان کا ذکرِ خیر سنتا ہوں ان کا وہ سراپا نظروں میں گھومنے لگتا ہے اور ان کی محبت دل میں کروٹیں لینے لگتی ہے.

مولانا وصی احمد صدیقی اور مولانا مکین احمد رحمانی کی رفاقت اور ان کی مشترکہ کوششوں نے مدرسہ چشمہ فیض ململ کو بڑی عزت اور بڑا وقار بخشا بے شمار تشنگان علوم نبوت نے اس چشمہ صافی سے اپنی پیاس بجھائی جو طلب صادق لے کر آئے انہوں نے اپنے دامن مراد کو بھرا اب یہ دونوں بندے جن کے دم سے یہ بزم آراستہ تھی یہ چراغ روشن تھا خدا کے حضور پہونچ چکے ہیں امید ہے کہ بارگاہ رب العزت سے انہیں اس کی شان کریمی کے مطابق اجر ملے گا

سفر حیات کی منزلوں میں جو ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر چلتے رہے وہ حیات دائمی میں بھی ایک دوسرے کے ہم جلیس اور ہم صحبت ہوں گے

إخوانا على سرر متقابلين لايمسهم فيها نصب و ماهم منها بمخرجين

مولانا مکین احمد رحمانی مولانا وصی احمد صدیقی کے انتقال کے صرف ایک ہفتہ بعد اس دار فانی کو بزبان حال یہ کہتے ہوئے الوداع کہ گئے

 

قیس جنگل میں اکیلا ہے مجھے جانے دو

خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے دیوانے دو

ان کے درمیان محبت اور الفت کا جو رشتہ قائم تھا غالباً اس کی بنا پر وہ زیادہ دن جدا نہیں رہ سکے

چاہت کا جب مزہ ہے کہ دونوں ہوں بےقرار

دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی

ان دونوں بزرگوں کی وفات سے مدرسہ چشمہ فیض کے ایک بہت حسین دور کا اختتام ہوگیا

 

کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی

کہ لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے

خدا کرے کہ چشمہ فیض کا فیض آئندہ بھی جاری و ساری رہے علم و معرفت کے سوتے یہاں کبھی خشک نہ ہوں اور تشنگان علوم نبوت یہاں سے کبھی محروم نہ لوٹیں

 

دبیر احمد قاسمی

مدرسہ اسلامیہ شکرپور بھروارہ

دربھنگہ بہار

Comments are closed.