رام مندر کی تعمیر نو "ساور کر ” اور "گولکر ” کے خوابوں کی تعبیر کا آغاز نوراللہ نور

رام مندر کی تعمیر نو "ساور کر ” اور "گولکر ” کے خوابوں کی تعبیر کا آغاز
نوراللہ نور
یقینا ” پانچ اگست ” تاریخ کے اوراق میں سیاہ دن کے حیثیت سے درج ہوگا اور وقت کا مورخ نا انصافی ؛ انصاف کے پا بند سلاسل؛ اور عدل کے فروخت ہونے کی داستان کے بغیر اپنی تاریخ مکمل نہیں کرے گا ۔
یہ مسلمانوں کے لیے باعث اذیت ؛ رنج وغم اور ایک حادثہ سے کم نہیں ہے ان کا رنج و ملال حق بجانب ہے یہ سب اپنی جگہ مگر ہم اسے صرف بابری کا انہدام اور اس کا انجام نہیں کہ سکتے اور غم و غصہ کر کے ہفتہ دس دن بعد اس سانحہ کو فراموش نہیں کر سکتے بلکہ یہ اس نظریہ کی پہلی بنیادی اینٹ ہے جس کا خواب تنگ نظر احسان ؛ فراموش اسلام دشمن ؛ اور نفرت و عصبیت کے بانی و چیف نے دیکھا تھا اور اپنے افکار و نظریات کو مسلط کرنے والوں کے خوابوں کی پہلی تعبیر ہے
یوں تو زعفرانی قوتیں بٹوارے کے وقت سے ہی ہمارے جلا وطن کی تدبیر میں لگ گئے تھے اور ایک افکار و خیالات کے تسلط کی بیج برسوں پہلے بو دی گئی تھی اور صرف انہوں نے ارادہ نہیں کیا تھا بلکہ اقدامی پہلو اختیار کرتے ہوئے ایک سنگھی اور نفرت سے اٹی اور متعصب جوانوں سے پر ایک تنظیم تشکیل دی اور ہر طرف نفرت کی آگ پھیلا کر نشیمن کے خاکستر ہونے کا تماشہ دیکھنے لگے اور انہوں نے اس مقصد کی تکمیل میں مصروف عمل رہے اور نفرت کے اس شجر کے ثمر آور ہونے کا انتظار کرنے لگے اور ہند راشٹر کا جو ایک خواب دیکھا تھا اس کی تعبیر کے منتظر اپنی تحریک میں مصروف رہے
اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ اپنی تحریک میں کامیاب ہوئے اور ہر طرف مسلم کش فسادات اور دنگے بھڑ کار ہماری بربادی کا تماشا دیکھنے لگے اور حکومت کی دوغلی پالیسی اور خفیہ طریقے سے پشت پناہی نے ان کے نظریہ میں پختگی پیدا کردی اور پھر مسجد کی دلخراش شہادت ہوئی
اس کے بعد تو ان کے حو صلے مزید بڑھ گئے اور اپنے نظریے کی تبلیغ سر عام کرنے لگے اور اپنی اجارہ داری قائم کی اور وہ کم ظرف ملک کی گدی سے لیکر ایوان بالا کی نشستوں کو بھی اپنے دسترس میں لے لیا مزید برآں کہ غلط و صحیح کا فیصلہ عدالتوں میں نہیں شاہراہوں پر ہونے لگا کیونکہ عدلیہ سے لیکر بڑے بڑے ادارے ان کے ماتحت آگئے اور من چاہے فیصلہ صادر ہونے لگے
یقینا بابری کا اذیت ناک انہدام غیر منصفانہ فیصلہ اقلیتوں کے حقوق مسلوب کرنا اور ان کے تشخص پر انگلی اٹھانا اور عبادت گاہوں کو مقفل کردینا ؛ بے قصوروں کو قید و بند کے مراحل سے گزارنا اور قاتلوں کو رخصت و امہال ؛ اور غیر منصفانہ فیصلے سے مسجد کو مندر میں تبدیل کرنا اور عدلیہ کا فروخت ہو جانا یہ وہ آثار ہیں جو اس بات پر مشیر ہے کو ہند توا نظریے کا جو خواب ہے اس کی تکمیل کی اب اعلانیہ طور ہو رہی ہے
پردھان منتری کی ایودھیا میں تشریف آوری یہ باور کرا رہی ہے کہ ہندو توا کا جو خواب دیکھا گیا تھا یہ اس کا آغاز ہے اور شیلا نیاس کی تقریب میں شرکت کرنا یہ بتلا رہا ہے اب تم کو ہمارے رحم و کرم پر پلنا ہے اگر رہنا ہے تو ہمارے نظریات کی پیروی کرو نہیں تو پھر اپنے حقوقِ سے دستبردار ہو جاؤ..
یقینا ملک کے حالات اور ان واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ جن افکار و نظریات کے تسلط کی بیج بویا گیا تو اس کی آبیاری ہو رہی اور نفرت کی شاداب نظر آنے لگی ہے اور بابری کی مسماری یہ بتاتی ہے زعفرانی سوچ و فکر کا درخت اب پھل دار ہو چکا ھے اور "ساور کر” اور گولکر نے جو ہندو توا کا خواب دیکھا تھا یہ اس کی پہلی تعبیر ہے
ملک اب پورے طور پر ترنگے کے بجائے زعفرانی رنگ کے رنگ میں رنگ چکا ہے اور لوگ کور چشم ؛ بے بصیرت ہوکر اس زہر کو شوق سے نوش کر رہے ہیں اب وہ وقت گیا کہ رام اور رحیم ایک ہی صحن میں کھیلا کرتے تھے بلکہ اب رام بھکت چاہتے ہیں کہ پورا آنگن ان کا ہی رہے
اس لیے ہمیں اب یقضان و بیداری کا ثبوت دینا ہوگا بے حسی اور بے اعتنائی سے باہر آنا ہو گا قیادت کو مزید حرکت میں آنا ہوگا اور مصلحت کی رداء چاک کرنی ہے اور طیش و جنوں کے اقدام کے بجائے دانشمندانہ اقدام کے ذریعہ ان کے ہی انداز میں ان کو جواب دیں ورنہ ابھی صرف مسجد کے وجود سے کھلواڑ کیا اگر خوابیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو ہمارے لیے بھی ملک بدر کی پلا ننگ ہو رہی ہے
Comments are closed.