جمہوریت کی لاش پر عبادت گاہ کی تعمیر شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی

جمہوریت کی لاش پر عبادت گاہ کی تعمیر
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں کل پانچ اگست 2020/کو ہندوستان میں اسلامی ثقافت کے ساتھ ساتھ قومی رواداری کی علامت سمجھی جانے والی پانچ سو سالہ شاہی مسجد کو اکثریتی طاقت وقوت کے ذریعے مسمار کرکے فرقہ پرستی کی بنیادوں پر شیلا نیاس کردیا گیا اور اس عمل کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دے دیا گیا کہ اس ملک میں قومی رواداری کی کوئی اہمیت ہے نہ فکری آزادی کی کوئی حیثیت، اور جمہوری اقدار کا لحاظ ہے’نہ ہی مذہبی وسعت اور،نظریاتی حقوق
کا پاس ۔ اس سے پہلے بھی ظلم وجبر اور طاقت ہی کے زعم میں دو مرتبہ رام مندر کی بنیاد رکھ کر عدم ومساوات اور انصاف وجمہوریت کے مندر کو زیر وزبر کیا جا چکا ہے،
لیکن اس بار اس کا اہتمام ،طریقہ کار، اور اس کا طرز عمل الگ نوعیت کا ہے، پہلے حکومت پس پردہ اس محاذ پر کھڑی تھی اب علی الاعلان فرنٹ پر مرکزی حیثیت سے شامل ہے، پہلے میڈیا میں اس کی حمایت کے نعرے نہیں تھے اب اس کی پوری قوت شانہ بشانہ معاون ہے، قیامت یہ ہے کہ ایک تاریخی مسجد جسے ظلما شہید کیا گیا، جس کی حفاظت میں اقلیتوں کے بے شمار افراد موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے،سیکڑوں آبادیاں نذر آتش کردی گئیں، جو جمہوریت اور فرقہ پرستی کے درمیان حد فاصل کی حیثیت اور درجے پر قائم تھی، اس کے ناجائز انہدام پرحقائق پر پردہ ڈالنے والی تمام کوششوں کے باوجود عدالت کی بھی چاروناچار شہادت موجود تھی، جس کی تعمیر کے جواز اور اس میں چارسو برسوں تک عبادات کے تسلسل پر وقت کے ججوں نے بھی اعتراف کیا تھا،اس کے ملبے پر مندر کا سنگ بنیاد اس شخص کے ہاتھوں رکھا گیا ،جو ملک کے آئین کے مطابق پورے ملک کے ہرطبقے،ہر قوم، ہر مذہب کے ماننے والوں کا وزیراعظم ہے’
اس منصب کا تقاضا تھا کہ نصف صدی سے ظلم تعصب کا شکار ایک تاریخی اور شاہی مسجد کی جگہ پر ایک متنازع مندر کے سنگ بنیاد سے کم از کم کنارہ کش ہوتے،اور اس طرز عمل کے ذریعے ایک جمہوری ملک کے سیکولر فرمانروا کا ثبوت دے کر دنیا میں جمہوری نظام پر عمل پیرا ہونے کا ثبوت دیتے، مگر جہاں حکومتیں عوام کی خدمت کے لئے نہیں بلکہ اپنے خود ساختہ نظریات کو تھوپنے کے لئے حاصل کی جاتی ہیں، جہاں ملک کے تحفظ کے بجائے نسل پرستانہ اور فرقہ وارانہ طرز زندگی نصب العین بن جائے تو اخلاقی اقدار ملکی روایات اور جمہوری آئین کو حرف غلط کی طرح مٹا دیا جاتا ہے۔
ملک میں فرقہ پرستی کی کھلی علامت اور طاقت وقوت کی بیساکھیوں پر تعمیر کی جانے والی عمارت کے سنگ بنیاد کی تقریب میں علی الاعلان اور پورے جوش وخروش اور شاہانہ اہتمام کے ساتھ پی ایم کی شرکت یقینا یہ ثابت کرتی ہے کہ وہ ملک کے تمام طبقے کے حکمراں نہیں بلکہ صرف ایک مخصوص نظریات کے حامل افراد کے خادم ہیں، وہ جمہوری اقدار کے پاسبان نہیں بلکہ مذہبی شدت پسند طبقے کے ترجمان ہیں۔
اس طرز عمل سے ملک کے اقلیتی طبقے کے جذبات جہاں مجروح ہوئے ہیں، ملک کی ہزاروں سالہ رواداری کی تہذیب ملیا میٹ ہوئی ہے، اقلیتوں کے اعتماد کو ٹھیس پہنچی ہے، حاکمیت کے سیکولر ازم کی عمارت زمین بوس ہوئی ہے،
وہیں ملک کی سب سے بڑی وزارت کی توہین بھی ہوئی ہے، سب سے باوقار منصب کی ساری دنیا میں رسوائی بھی ہوئی ہے، جمہوریت بری طرح مجروح اور داغدار ہوئی ہے ۔
، یہ اور بات ہے’کہ گودی میڈیا نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی اس جشن فتح اور فرقہ وارانہ بالادستی کے اس تکلیف دہ منظر پر پوری قوت سے مسرتوں کا اظہار کیا ہے’،اس کے وسائل کی فراوانی کا ذکر کیا ہے’،اس کے حیرت انگیز اہتمام اور مذہبی داستانوں پر اپنی صلاحیتیں مرکوز کی ہیں،اور ان دیومالائی داستانوں میں مسجد کی حقیقت کو دانستہ نظر انداز کیا ہے’،اس کی تاریخی اہمیت سے آنکھیں بند کی ہیں، عدالت نے کس طرح کے فیصلے اس معاملے میں کئے ہیں،قانونی اعتبار سے بابری مسجد کے ساتھ عدلیہ نے کیسا انصاف کیا ہے’
22/دسمبر 1949کو کس طرح اس آباد مسجد میں رات کے سناٹوں میں تالا توڑ کر محراب کے سامنے شرپسندوں نے مورتی رکھ کر فرقہ وارانہ کشیدگی قائم کی تھی، کس طریقے سے ظالمانہ انداز میں 1992میں اس تاریخی مسجد کو اکثریتی بھیڑ نے منظم طریقے سے منہدم کیا ہے’، اور سپریم کورٹ نے 9/نومبر 2019/کو کس بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ طور پر اس بات کے اعتراف کے باوجود کہ مسجد کی تعمیر کسی مندر کی بنیاد پر نہیں بلکہ جائز زمین پر ہوئی ہے’،مسجد کو شرپسندوں کی بھیڑ نے ظلما شہید کیا ہے’،اور 1949/تک اس میں نماز ادا ہوتی رہی ہے،اس کی بنیاد میں کسی مندر کا ثبوت فراہم نہیں ہوسکا ہے’، صرف اکثریتی طبقے کے جذبات کا لحاظ کرتے ہوئے فیصلہ مندر کے حق میں دیا ہے’، ان تمام حقائق اور تاریخی نشیب وفراز سے جان بوجھ کر صرف نظر کیا ہے’،
بہرحال پانچ اگست کو طاقت کے زور پر ،عدالت کو خرید کر، انصاف کا سودا کرکے، مساوات اور جمہوریت کے مندر کو مسمار کرکے خود ساختہ اور غیر مستند رام مندر کی تعمیر کی اینٹ حکومت کی سرپرستی میں رکھ دی گئی، ہر بار کی طرح اس مرحلے میں بھی مسلمانوں نے صبر وتحمل کا ثبوت دیا ہے’، جس قدر ملت اسلامیہ ہند کے اندر قوت تھی،دم خم تھا ،اور جس قدر ان کے پاس سیاسی،اقتصادی اور شعوری طاقت تھی اس کے تحفظ میں صرف کی،لیکن اس مادہ پرست دنیا میں اور فرقہ پرست ملک میں ان کی کوششیں باربآور نہ ہوسکیں،تاہم مایوسیوں کی اس فضا میں بھی مسلمانوں کو ناامید نہیں ہونا چاہیے، انسان اپنی طاقت کے بقدر ہی مکلف ہے’،اس کے بعد مرحلہ رب الارباب کا ہے’، اور اس قادر مطلق کا ہے’جس کی مشیت کے بغیر کائنات کا ایک پرزہ بھی حرکت نہیں کرسکتا ہے’، بابری مسجد
خدا کا گھر ہے’، وہ پہلے بھی مسجد تھی،آج بھی ہے’اور کل بھی رہے گی، وقت بدلتا رہتا ہے’،زمانے ہر آن حرکت میں ہیں،لمحے اپنی ذات میں ہی متغیر ہیں، کیا عجب کل خدا تعالیٰ انہیں دشمنان اسلام کے دلوں میں اسلام کی شمع جلا دے، عبد المطلب نے ابرہہ کے کعبہ مقدسہ کے انہدام کے ارادے کو دیکھ کربرجستہ یہ کہا تھا کہ مجھے میرا اونٹ واپس کردو،کعبہ جس کا گھر ہے وہ خود اس کی حفاظت کرے گا،پھر دنیا نے اس کا عبرتناک انجام کھلی آنکھوں دیکھا، اسپین میں بے شمار مساجد کو چرچ میں بدل ڈالا گیا اور اسلام کو وہاں سے نکالنے کے لیے پوری طاقت صرف کردی گئی مگر اس کے باوجود وہ اس مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکے کہ اسلام کے نام لیوا آج خاصی تعداد میں وہاں موجود ہیں، رشیا میں کمیونسٹ قوت کی بربریت سے کون ناواقف ہے’ ؟ مگر ایک عرصہ کے بعد سورج کی طرح وہاں اسلام کی روشنی پھیلی،اور یکایک مساجد اذانوں کے زمزموں سے ایک بار پھر گونج اٹھیں،
ہاں یہ بات ضرور ہے’کہ اب انتہاپسندوں کے حوصلے آسمانوں پرہیں، مذھبی جنونیت کی بالادستی کا سورج نصف النہار پر ہے’، ہندو راشٹر کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کو ایک منزل مل چکی ہے’، اس لیے اپنے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے وہ دوسری مساجد پر بے بنیاد دعؤوں کے ساتھ ساتھ اسلام کے دیگر قوانین پر حملے کی تیاری میں ہیں،ایسے وقت میں ملت اسلامیہ ہند کو بصیرت سے کام لینا ہوگا، مصلحت پسندانہ عمل اور فکر کو ایک طرف رکھنا ہوگا، اتحاد واتفاق کے علاوہ سیاسی لحاظ سے مضبوط لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا ، اس میں تعلیمی لحاظ سے خود کو بلند کرنا ہوگا، سیاسی قوت کے حصول کےساتھ ساتھ مضبوط قیادت کو دریافت کرنا ہوگا، اگر مستقبل میں یہ منصوبہ بندی نہیں ہوسکی، اور مسلمان خواب غفلت میں اسی طرح رہے،تو ہر آنے والا دن نئے مصائب کے ساتھ نمودار ہوگا، جس میں فسطائیت کا عفریت ہوگا، ظلم وبربریت کی داستان ہوگی، فرقہ پرستی کا عروج ہوگا،اور اقلیتوں کی غلامی کی بدترین تصویریں ہوں گی۔
شرف الدین عظیم قاسمی الاعظمی
امام وخطیب مسجد انوار گوونڈی ممبئی
Comments are closed.