خطیب ذیشان حضرت مولاناسیدابوالکلام قاسمی دیوبندی  بہ قلم : مفتی محمدساجدکُھجناوری مدرس حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ

خطیب ذیشان حضرت مولاناسیدابوالکلام قاسمی دیوبندی

 

بہ قلم : مفتی محمدساجدکُھجناوری

مدرس حدیث جامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ

 

موت کا رقص صبح وشام اورلیل ونہار جاری ہے، دیکھتے ہی دیکھتے بے شمار افراد انسانی قافلے سے بچھڑکرزیرِزمین جابسے، ان بیش قیمت وفات پذیر شخصیات میں درجنوں اہل علم ومعرفت وہ ہیں جو حالیہ لاک ڈاؤن کے زمانہ میں زندگی کی جنگ ہارگئے ، ان خاصان خدا کی فہرست پر نظر ڈالیں تو کلیجہ منھ کو آتا ہے کہ لاکھوں سروں کے جھرمٹ میں بھی وہ اپنے علم وفضل کی جداگانہ شناخت رکھتے تھے ، ان میں کوئی شیخ الحدیث کے منصب کی لاج رکھنے والا تھا تو کوئی فقہ وفتاوی کا غواص ،کوئی درس نظامی کی تفہیم کا رازداں تھا تو کوئی سلوک واحسان کی جوت جگانے والا فردِ خوش نصیب ، کسی نے تحریر وانشا کا باب سنبھال رکھا تھا تو کوئی تقریر وخطابت کا روشن کردار ۔

ہمارے ممدوح حضرت مولاناسیدابوالکلام قاسمی یوں تو ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے لیکن یہ تقریر وخطابت ہی ان کی شناخت کا روشن حوالہ تھا وہ دارالعلوم دیوبند ،دارالعلوم وقف دیوبند دونوں جگہ اسی خدمت سے منسوب رہے اور دونوں ہی اداروں میں نیک نامی آپ کا نصیبہ قرار پائی مگر انسان بہر حال اپنے خالق ومالک کے عطافرمودہ فلسفۂ موت وحیات کا مکمل پابند ہے کوئی شخصیت کتنی ہی دلنواز کیوں نہ ہو ایک دن اسے بھی سفرِآخرت طے کرنا ہوتا ہے اسی ضابطۂ خداوندی کے تحت مولاناسیدابوالکلام قاسمی بھی اپنی حیات عزیز کی نوے سے زیادہ بہاریں دیکھ کر پانچ مئی دوہزاربیس (5/7/2020) کو مسافران آخرت میں شامل ہوگئے ۔ اناللہ واناالیہ راجعون ، غفراللہ لہ واسکنہ فسیح جناتہ والھم اھلہ وذویہ الصبروالسلوان ۔

حضرت مولاناابوالکلام قاسمی بڑے مرنجاں مرنج اور ظرافتوں سے کھیلنے والے وضع دار آدمی تھے ،عالمانہ رکھ رکھاؤ ، شخصی خدوخال اور جسمانی وجاہت نے ان کے ظاہری حسن کو دوآتشہ کررکھاتھا ،لیکن اصل خوبی اور متعدی صفت جو کسی انسان کا مطلوبہ معیار ہوسکتا ہے وہ مولانا کا ستھرا کردار تھا ، ان میں خوش اخلاقی ، خوش مزاجی ، غریب پروری ، خوردنوازی ، اپنوں اور غیروں کے ساتھ ہمدردی جیسے کمالات متعارف تھے ، ان کی صحبتوں کے فیض یافتہ اور قدرشناس ادیب زمن مولانانسیم اختر شاہ قیصر استاذدارالعلوم وقف دیوبند کی شہادت ہے کہ مولانا ابوالکلام ایسی پرکشش اورمہتابی شخصیت کے حامل تھے جہاں اخلاق کی روشنی اور کردار کی بلندی کا جلوہ تھا وہ اپنے چھوٹوں کو آگے بڑھانے ، شکستہ دلوں کو جوڑنے اور مردہ مجلسوں کو زعفران زار بنانے کا ہنر رکھتے تھے ، ان کی محبوبیت کے بہت سے عناصر ہوسکتے ہیں جن سے وہ اپنی ذات میں انجمن ٹھہرانے کے بالکل روادار ہیں لیکن راقم الحروف کے مرکزی خیال میں اس کی دو وجہیں ہوسکتی ہیں ایک تو وہ کمالات جو انھیں گھر کے مربیانہ ماحول سے عطا ہوئے دوسری وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ انہوں نے علم نبوت جن اساتذہ ومشائخ دارالعلوم دیوبند سے حاصل کیاتھا مولانا مرحوم ان کی عقیدت ومحبت سے سرشار رہتے تھے ۔ انہوں نے بخاری شریف شیخ الاسلام حضرت مولاناحسین احمدمدنی سے پڑھی تھی جن کی توجہات نے یقیناً مولانا کے اندرون پر خوش گوار اثر چھوڑا ہوگا جبکہ حکیم الاسلام مولاناقاری محمدطیب قاسمی رحمہ اللہ تعالی تو ان کے قلب وجگر میں رچے بسے تھے ، قاسمی خانوادہ سے اس اٹوٹ چاہت کو حضرت قاری صاحب ممنون نگاہوں سے پرکھتے تھے اسی لئے انہوں نے بھی اپنے اس مخلص عقیدت کیش کو محروم نہ رکھا اور فراغت کے کچھ عرصہ بعد دارالعلوم کے دروبام ان کیلئے کھول دیے جہاں شعبۂ دعوت وتبلیغ میں مولاناکی خدمات حاصل کرلی گئیں اس طرح حضرت مولاناابوالکلام قاسمی کی صلاحیتوں کو نکھرنے کا سامان مل گیا اور وہ اپنے بزرگوں سے مربوط ہوکر اشاعت دین کیلئے سرگرم ہوگئے ۔ مصدرفیاض نے زبان وبیان کے زیور سے انھیں خوب سنوارا تھا وہ اسٹیج کے بلند آہنگ خطیب تھے ، جب بولتے تو گھنٹوں بے تکان بولتے چلے جاتے ، زبان سلیس اور رواں تھی ، صاف اور غیر مبہم گفتگو ان کی پہچان تھی ، اس کا ذاتی مشاہدہ اور تجربہ اس وقت ہوا جب وہ دیوبند کے مضافاتی گاؤں نونابڑی میں واقع مدرسہ انوریہ قاسم العلوم کے سالانہ جلسے میں تشریف لائے جہاں یہ خاکسار برادرگرامی الحاج حافظ عبدالسبحان بانی ومہتمم مدرسہ کی دعوت پر پہلے سے موجود تھا ، جلسہ میں دارالعلوم کے دوسرے مہمان مقررین چہک رہے تھے کہ کچھ دیر کے بعد مائک سے مولانا کے صدارتی خطاب کا اعلان ہوا ، مولانا کے نام اور کام سے ابھی تک اگرچہ کان ناآشنا تھے لیکن ناظم جلسہ نے مولانا کے تعارف کا قافیہ کچھ اس انداز سے باندھا کہ انھیں سننے اور دیکھنے کا اشتیاق اپنی عزلت پسندطبیعت پر غالب آگیا۔

بہرکیف مولانا اسٹیج پر قدم رنجہ ہوئے تو وہاں تشریف فرما دوسرے علما ازراہِ احترام کھڑے ہوگئے رسمی علیک سلیک کے بعد سب نے اپنی اپنی جگہ لے لی اور حضرت مولانا کا سحرانگیز بیان شروع ہوا ، یہ آج سے تقریبا بیس سال پہلے کا قصہ ہے اس لئے نفس مضمون تو یاد نہیں آرہا لیکن مولانا کا انداز گفتگو ، مؤثرتعبیرات ، الفاظ کا زیروبم ،واقعات وقصص کا تسلسل اور کہیں کہیں مطلب خیز چٹکلوں کی آمیزش سے بھرپور ان کا جادوئی بیان دلوں کو اپیل کررہا تھا ، ہرشخص ہمہ تن گوش اور ہرسامع ان کے بیان کا اسیر لگ رہاتھا ، یہی پہلا موقعہ تھا جب براہ راست مولانا سے استفادہ ہوا اور ان کی عظمت کا نقش دل پر قائم ہوا ۔ بعدازاں دیوبند میں انھیں سننے کا اتفاق ہوا ، یوں تو دارالعلوم دیوبند سے انہوں نے وابستگی اختیار کی تھی اس دورانیے میں پورے ملک کے اندران کے دعوتی دورے ہوئے ۔ دارالعلوم کے مشن کو لے کر قریب وبعید کے مشقت بھرے اسفار کرتے ، احقاق حق اور ابطال باطل کا فریضہ حیدری شان سے نبھاتے اور دین بیزار بندوں کو حکیمانہ اسلوب میں گھرواپسی کی دعوت دیتے ۔ حضرت مولانا کا تعلق چونکہ قاسمی گھرانے سے گہرا تھا لھذا حضرت حکیم الأسلام کی دارالعلوم سے علیحدگی ہوئی تو مولانا ابوالکلام صاحب بھی حق وفاداری اداکرتے ہوئے دارالعلوم سے چلے آئے اور اس برطرف جماعت کے ساتھ دارالعلوم وقف کی آبیاری میں لگ گئے ،یہاں بھی مولانا دعوتی شعبہ سے جڑے رہے بلکہ نگران اعلی قرارپائے اور حسب ضرورت ملک بھر میں صدائے حق بلند کرتے رہے ۔ آپ کی نگرانی میں دعاۃ ومبلغین کی کئی نسلیں تیار ہوئیں جنہوں نے زبان وبیان کا اسلوب مولانا سے سیکھا اور ان کے تجربات سے فائدہ اُٹھایا جو ان شااللہ مرحوم کیلئے صدقۂ جاریہ ثابت ہوگا ۔

حضرت مولانابڑی محبوبیت والے ایک اچھے انسان تھے ،انھیں اپنے معاصرین سے بھی تعلق خاطر تھا جسے زندہ اور توانارکھنے کی گویاان کے پاس چھڑی تھی ، نرم دم گفتگو گرم دم جستجو کے مالک مولاناقاسمی تکلفات سے دور صاف ستھری شبیہ رکھنے والے علم دوست آدمی تھے ۔ ان کے بعض خطوط جو انہوں نے اپنے تکلف دوست اورجامعہ اشرف العلوم رشیدی گنگوہ کے بانی مدیر حضرت مولاناقاری شریف احمدگنگوہی کے نام لکھے ہیں بندہ کی نظر سے گزرے ہیں ، ان مکتوبات سے جہاں طرفین کی باہمی محبت ، للہ فی اللہ تعلق اور بے تکلفی کےساتھ توقیر واحترام کا عرفان ہوتا ہے وہیں مرسل اور مرسل الیہ کا دین وملت کیلئے سوزِدروں اورفکرمندی کا بھی اظہار ہوتا ہے ۔ وہ ظرافتوں کی ایسی کہکشاں آبادکرتے ہیں کہ مرزافرحت اللہ بیگ اور مجتبی حسین بھی قہقہے لگانے پر مجبور ہوجائیں ، اللہ نے کیسی شاداب طبیعت بخشی تھی انھیں اور کتنا صاف دل دیا تھا کہ سینہ تمام کدورتوں سے پاک ، نہ کسی سے شکوہ نہ شکایت ، آنے والے کیلئے سراپا استقبال اور ہرابھرا دسترخوان فورا حاضر ذرا تصور کیجئے ایسا مونس وغم خوار اور فرشتہ صفت آدمی انسانوں کی انجمن سے بچھڑجائے تو ایک عالم اشکبار ہوتا ہے ۔ مولانا بھی اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ہرکسی کو ان کے جانے کا احساس ہوا اب تو بس ان کی یادیں ہی باقی رہ گئیں ہیں ۔ غم کے ماحول میں تسکین قلب کا پہلو یہ ہے کہ انھیں یادوں اور باتوں کی بزم آراستہ کرنے کیلئے حضرت کے پسران خوش اثر محترم ڈاکٹر ایس اے عزیز اور مولاناعبدالقادر قاسمی صاحبان تازہ دم ہیں ۔ یقیناً مولاناکی شخصیت اس کی مستحق ہے ان کے نقوش ِحیات تحریر کے قالب میں سامنے لائے جائیں ،تاکہ پسِ آئندگاں اپنے سفرحیات میں ان رہنما خطوط سے ترقی کے زینے طے کرکے دنیاوآخرت میں ظفریاب ہوسکیں ۔

Comments are closed.