صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ __08/08/2020

صبح کی بات
فہیم اختر ندوی
السلام علیکم
جدید تعلیمی پالیسی سے متعلق باتیں اور رائیں سامنے آرہی ہیں۔۔ ملت کے تناظر میں اس پر متوازن انداز سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔۔۔
اس پالیسی کا مطالعہ دو رخ سے کیا جائے گا۔۔ ایک یہ کہ ملک کا تعلیمی ڈھانچہ اب کدھر جارہا ہے، اور وہ کہاں تک ملک کی مجموعی ترقی کےلئے مفید ہے۔۔ دوسرا رخ یہ ہوگا کہ ملت مسلمہ کےلئے اس پالیسی سے کیا امکانات اور خدشات وابستہ ہیں۔۔ دونوں رخ سے مطالعہ ہماری ذمہ داری اور ہماری حصہ داری ہے۔۔۔
یہاں ہماری بات دوسرے رخ سے زیادہ متعلق ہے، کہ اختصار کے موقع پر یہی ضروری ہے۔۔ مفید امکانات کے کچھ پہلو بیان کئے جاچکے ہیں۔۔ اب کچھ اشارے خدشات کی جانب۔۔۔
تاریخ کسی قوم کا سرمایہ ہوتی ہے، اور وہی مستقبل کےلئے مہمیز بھی کرتی ہے، اور وہی پست ہمت اور نابود بھی کردیتی ہے۔۔۔ ملک میں ہزار برس کی شاندار مسلم تاریخ نے ملک کو متحد، محفوظ، مضبوط، تمدنی ورثہ سے مالا مال اور سونے کی چڑیا بنایا۔۔ یہ پوری تاریخ اب غائب ہی نہیں کلنک کا داغ بنائی جائے گی۔۔۔ پراچین بھارت کے بعد صرف موجودہ بھارت ہے، درمیان کی تاریخ کا ذکر نہیں ہے۔۔۔ یورپ نے بھی یونانی عہد کے بعد نشات ثانیہ میں چھلانگ لگایا تھا اور علوم وافکار وتمدن کی منتقلی، ترقی اور ایجادات کے حیرت انگیز مسلم دور پر پردہ ڈال دیا تھا، تو موجودہ یورپ اور مغرب نیز جدید دنیا مسلم حصہ داری سے مجرمانہ اورتجاہلانہ غافل ہے۔۔۔ ملک کی بابت یہ خدشہ اس پالیسی سے منظم ہوکر سامنے آیا ہے۔۔۔
تعلیم انسان کو اقدار سے آراستہ کرتی ہے، اور بیشتر اقدار مذاہب کا مشترکہ سرمایہ ہوتے ہیں، کچھ اقدار مخصوص مذہبی رنگ رکھتی ہیں۔۔ اس پالیسی میں کھلے طور پر ان دونوں طرح کی اقدار کو زعفرانی رنگ دے دیا گیا ہے، مشترک اقدار کو بھی ایک مذہبی اصطلاح کا لباس پہنا دیا گیا ہے۔۔ مذہبی رنگ میں اصطلاحات کی کثرت تو کبھی قاری کو حیران بھی کردیتی ہے کہ یہ کسی تکثیری سماج کا منصوبہ کیسے ہوسکتا ہے۔۔ تو کھل کر اس کا اظہار بہت کچھ کھل کر بتا رہا ہے۔۔ افراد ملت کی عقائدی اور تہذیبی شناخت ان کے وجود کا جوہری عنصر ہے، اس کی بقاء سنجیدہ سوچ کی متقاضی ہے۔۔۔
یہ رنگ بچپن کی ابتدائی تربیت اور تعلیم کے رگ رگ میں بھرنے کی کوشش صاف طور پر پالیسی میں ہے۔۔ اعلی تعلیم میں اس رنگ کی ہر طرح ہمت افزائی کی جائے گی۔۔ سنسکرت، یوگا، مذہبی ثقافت اور پراچین بھارت کی عظمت تعلیم اور ریسرچ کے سنہرے موضوعات ہوں گے۔۔ تو افراد ملت کو ان میں اپنے سرمایہ سے وابستہ رہنے کی راہیں ڈھونڈنی ہوگی۔۔۔
تعلیم کو سستا بنانے کی بات تو کی گئی ہے، لیکن نجی اداروں کی حوصلہ افزائی اور بیرونی اداروں کی آمد نیز موجودہ سماج کی ذہنیت کو سامنے رکھتے ہوئے تعلیم کے مزید مہنگی ہونے کا قوی امکان ہے، جس سے غریب سماج کی تعلیم مزید دشوار ہوگی، اور تعلیم سے دوری تباہی پر مہر لگا دے گی۔۔ تو اس میں سب کی تعلیم اور اچھی تعلیم کا منصوبہ لانا ہوگا
اس پالیسی کے لحاظ سے تعلیم کے نظم و انتظام کو مرکزی کنٹرول میں دیا جارہا ہے، اور وہاں بھی فیصلہ اورقوت کا ارتکاز کیا جارہا ہے، تو مخفی اور کھلے عزائم شدت سے نافذ ہوں گے۔۔ مسلم زیر انتظام تعلیمی اداروں پر بھی نگرانی اور ان سے پابندی کرانے میں شدت پیدا کی جائے گی۔۔ تو وہ اپنے دستوری تحفظات اور اختیارات کس طرح استعمال کرسکیں گے، اس پر پیش بینی کی ضرورت ہوگی۔۔۔
اب دو باتیں ذہن میں تازہ رکھئے: پالیسی کی رخ بندی کافی واضح ہے، تو اس کے خدشات بلکہ نقصانات پر ملت کے افراد کو سنجیدہ اور متحدہ موقف طے کرنا چاہئے، اور پوری قوت کے ساتھ ہر ممکن کوشش کرنی چاہئے۔۔۔۔ دوسرے یہ کہ وقت کی رفتار کو بھانپتے ہوئے جہاں جہاں امکانات موجود ہیں، ان میں نئی راہیں نکالنے پر غور اور عمل کی بھی منصوبہ بندی کرنی چاہئے۔۔ اس کے کچھ اشارے سابق تحریر میں کئےگئے۔۔۔
تو آئیے! ہم اس موضوع کو اہمیت دیتے ہیں، فکر و بصیرت اور قوت عمل کے ساتھ آگے بڑھتے ہیں، اور قدم سے قدم ملاتے ہیں۔۔ اللہ ہماری مدد فرمائے۔
خدا حافظ
8 اگست 2020
17 ذو الحجہ 1441
Comments are closed.