اکابر علماء پر تنقید کا بڑھتاہوا رجحان تحریر:محمداطہرالقاسمی

اکابر علماء پر تنقید کا بڑھتاہوا رجحان
تحریر:محمداطہرالقاسمی
8/اگست 2020
______________________
طلاق ثلاثہ قانون ہو یا دفعہ 370 کی منسوخی،یا سی اے اے،این پی آر،این آرسی کا معاملہ ہو یا بابری مسجد کا مقدمہ،یا دیگر یک طرفہ حالیہ فیصلے؛حکومت وقت کے ذریعے یہ اقدامات اور ملک کے موجودہ حالات نے ملک کے پچیس کروڑ مسلمانوں کو سخت ترین صدمے اور اضطرابی کیفیت سے دوچار کررکھاہے۔
اس مضطرب جماعت مسلمین کے کاندھے پر ایک اور آفت یہ آن پڑی ہے کہ کورونا وائرس اور حالیہ لاک ڈاؤن کے درمیان پےدرپے اکابرین ملت اسلامیہ ہند رحلت فرمارہےہیں۔جس نے مزید ہندی مسلمانوں کو شکستہ دل بناکر رکھ دیا ہے۔
گویا ہرطرف سے ملت اسلامیہ تنہائی کا شکار ہوتی چلی جا رہی ہے اور الکفر ملۃ واحدۃ کا عملی مظاہرہ اپنے شباب پر آچکا ہے۔اور اس سے مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ اس ملک کا مستقبل حالیہ ناگفتہ بہ حالات سے زیادہ تاریک اور پر خطر محسوس ہورہاہے۔
ایسے حالات میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
ستر سالہ ماضی کی تاریخ کو پلٹیں یا اس سے پہلے آزادی وطن کی خاطر مجاہدانہ کردار ادا کرنے والے اپنے بزرگوں پر نظر دوڑائیں؟یا پھر مکمل پیچھے چلے جائیں اور معیار حق حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور ہم سب کے آقا و مولا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی مکی و مدنی زندگی کا مطالعہ کرکے ان سے سبق حاصل کریں؟
الحاصل انتہائی انصاف پسندی،تحمل اور سنجیدگی کے ساتھ غور کریں کہ آخر ملک کے مسلمانوں کے موجودہ مسائل کا حل کیا ہے؟
آپ اپنے کلیجے پر ہاتھ رکھ کر بتائیے کہ کیا ان پیش آمدہ حالات وواقعات کا آسان ترین حل یہی ہے کہ سارا زور صرف اور صرف سوشل میڈیا پر صرف کیاجائے؟اور اکابر علماء کو ہی ان حالات وواقعات کا ذمے دار ٹھہرایا جائے؟یااتنی صلاحیت نہیں تو کم از کم ایسی جو بھی منفی تحریریں ملیں فوراً سے پیشتر انہیں گروپوں اور فیس بک پر شیرکیاجائے؟آپ ہی بتائیے کہ اس وقت جو گفتگو چل رہی ہے کیا آپ اس سے اتفاق کریں گے؟
جب سے انڈرائیڈ فون ہمارے ہاتھوں میں آیا ہےکیا اس کا سب سے خطرناک پہلو یہ سامنے نہیں آیا ہے کہ اپنے اساتذہ،بزرگوں اور اکابرین کی عظمت کے جنازے نکل گئے ہیں؟ملت اسلامیہ پر حالات پہلے بھی تو آئے ہیں اور آتے رہے ہیں مگر کیا ہماری موجودہ نسل کی طرح پچھلے لوگوں کا اپنے بزرگوں کے ساتھ یہی رویہ رہاہے؟کیا مخالفتوں کے بغیر اختلافات نہیں کئے جاسکتے؟اختلافات کرنے اور اپنا نظریہ اور خیالات رکھنے میں کیا حدودِ کی رعایت سے باتوں کا وزن کم ہوجاتا ہے؟
بلامبالغہ کہاجاسکتا ہے کہ آج پچہتر 75/فیصد اس موضوع کی تحریریں اورمضامیں اس طرف ہیں کہ ملک کے 25/کروڑ مسلمانوں پر یہ برے دن اکابر علماء کرام،جمعیت علماء ہند،مسلم پرسنل لاء بورڈ یا ان جیسی قومی وملی جماعتوں کی موجودہ قیادت کی نااہلی کی وجہ سے آئے ہیں!
ذرا تصور کیجئے کہ بشری تقاضوں کے تحت چند ایک کمیوں کو درکنار کرکے ان کی زندگی کے جہد مسلسل،بےلوث قربانیاں،بے پناہ کوششیں اور لگاتار خدمات کو خاطر میں نہ لانا کیا انصاف پسندی کا رجحان ہے یا مزید خستہ حالی کو دعوت دینے کے مترادف؟
ذرا غور کیجئے کہ آپ کے پاس پچیس کروڑ مسلمانوں میں سے کوئی کروڑ یا لاکھ ذمےدار علماء تو ایسے نہیں ہیں نا کہ ان سبھوں نے مل کر کچھ نہیں کیا؟
کوئی ہزار وغیرہ کی ایک گنی چنی جماعت جو خود ہمیشہ سے اپنی ہی قوم کی نظروں میں مطعون رہتی ہو اور ان کی مسلسل تنقیدوں اورتبصروں کی مارجھیلتی رہی ہو؛آخر ان موجودہ حالات کی ذمے داریاں ان کے سر کیوں کر منڈھی جاسکتی ہیں؟
پھر دوسری بات یہ کہ موجودہ اداروں سے فارغ ہونے والے ہم جیسے موجودہ افراد ان جیسوں کی جگہوں کو پر کرنے سے جب عاجز و قاصر ثابت ہورہے ہیں سوائے معدودے چند کے تو کیا یہ خود اپنے آپ میں ایک بحران سے کم نہیں ہے؟
ایک اور بات کہ مانا کہ ان اکابرین علماء میں کمیاں ہیں،خامیاں ہیں اور کوتاہیاں بھی؛چلئے ان کو درمیان سے نکال دیا جائے تو کیا خیال ہے کہ ملک کے موجودہ حالات سدھر جائیں گے؟
نہیں ہرگزنہیں ایسا نہیں ہوسکتا!!!
دیش کے یہ حالات اچانک نہیں بن گئے ہیں؟ 80/90 کروڑ کی آبادی پر مشتمل غیروں کی جماعت میں سے لاکھوں اور کروڑوں کی مضبوط جماعت کے اجتماعی خفیہ منصوبے،پلاننگ اور مسلسل کوششوں سے یہ حالات بنے ہیں۔
جس کا تنہا مقابلہ موجودہ وقت میں کوئی ادارہ یا تنظیم یا جماعت ہرگزنہیں کرسکتی۔
البتہ ان سب کی اجتماعی کوششوں اور متحدہ نظریوں کے ساتھ ہم اور آپ کی مخلصانہ حمایت سے بہت کچھ ممکن ہے۔تاریخ اسی سے مرتب ہوتی رہی ہے۔
الحاصل بات ختم کرتے ہوئے اتنا سا عرض ہے کہ قیادتوں سے مل کر،مسائل کے موافق باہمی گفت و شنید کرکے آپسی ادب واحترام کے دائرے میں رہتے ہوئے ہی حالات حاضرہ کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔
بات بات پر اکابر اکابر،علماء علماء،اور جمعیت و جماعت پر تنقیدوں اور تبصروں سے نہ صرف یہ کہ کچھ نہیں ہونےوالا بلکہ حالات مزید خراب ہوں گے اور اس طرح فسطائ طاقتوں اور فرقہ پرست قوتوں کی تقویت کا سامان فراہم ہوگا۔
جان کی امان چاہتے ہوئے عرض کروں گا کہ آج ہم مسلسل لکھ رہے ہیں کہ آرایس ایس میں کتنی اجتماعیت ہے؟ اور ان کی تنظیموں میں کتنا اتحاد ہے؟
آپ یہ بھی تو بتائیں کہ ان کی قیادتوں پر ان کروڑوں لوگوں کا کتنا اٹوٹ وشواس اور ناقابلِ یقین اعتماد و بھروسہ بھی تو ہے!!!
الحمدللہ ہم صحابہ والے لوگ ہیں اور نبی والے انسان ہیں؛ہمارے لئے یہی نمونہ اور آئیڈیل ہیں۔ان کی زندگی ہمارے لئے مشعلِ راہ ہے۔لاکھ اندھیرا ہو یا ظلمت و ضلالت؛ہمیں ان ہی راستوں پر سے گذرکر منزل ملے گی اور اب چونکہ وہ ہمارے درمیان رہے نہیں اس لئے ان کے وارثین کی بافیض جماعت علماء و اکابرین کی معیت و صحبت سے ہی موجودہ حالات میں بھی دیر یا سویر کامیابی کی منزلیں مل کر رہیں گی ان شاءاللہ۔
الحاصل گفتار کے ساتھ کردار کے غازی اور سوشل میڈیا کے ساتھ زمینی و عملی جد و جہد کے ساتھ جینے،حالات کا مقابلہ کرنے،زخم کھاکرآگے بڑھنے اور طوفان کا رخ موڑنے کا عزم لے کر ہمیں اپنے اکابر علماء کی سرپرستی کے ساتھ حالات حاضرہ کا مقابلہ کرنا ہے اور کامیابی کی منزل تلاش کرنی ہے ان شاءاللہ۔
_______________
جنرل سکریٹری جمعیت علماءارریہ
Comments are closed.