پندرہ اگست سے پانچ اگست تک !

پندرہ اگست سے پانچ اگست تک

 

عمر فراھی

 

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ بابری مسجد کا مقدمہ ٹھیک سے لڑا نہیں گیا یا یوں بھی کہا جاتا ہے کہ ہماری قیادت نے ایک علاقائی مسئلے کو قومی مسئلہ بناکر ہندو تنظیموں کو اقتدار کی دہلیز پر پہنچنےکا موقع فراہم کر دیا ۔ہو سکتا ہے ایسا بھی ہو لیکن اس بات سے کیسے انکار کیا جاسکتا ہے کہ ہندو مہاسبھا ہو یا آرایس ایس ان کی تخلیق کا مقصد ہی اقتدار حاصلِ کرنا تھا اور اس نے اپنے اس مقصدکے لئے یکسوئی سے کام کیا ۔

بابری مسجد کا مسئلہ نہ ہوتا تو آرایس ایس کو جنم دینے والے اپنے مقصد کیلئے کوئی اور مسئلہ پیدا کر لیتے۔آرایس اپنی جگہ درست تھی ۔آرایس ایس کو جنم دینے والوں کو اپنا نصب العین پتہ تھا ۔انہوں نے اس راستے کیلئے زاد راہ کی منصوبہ بندی شروع کر دی تھی ۔ہندوؤں کا اشرافیہ آزادی سے پہلے ہی آزادی کی دو جنگ میں مصروف تھا ۔ایک گروہ کانگریس میں قومی یک جہتی کے نام پر مسلمانوں کے ساتھ مل کر انگریزوں سے آزادی میں مصروف رہا تو ہیڈ گوار ویر ساورکر اور گرو گلوالکر کے لوگ انگریزوں کے جانے کے بعد مسلمانوں پر ہندو بالادستی کی منصوبہ بندی میں مصروف تھے ۔

حالانکہ خیر امت کی حیثیت سے یہ مقصد ہمارا تھا ۔ اللہ نے قرآن میں ابلیس اور آدم کے قصے اور تکرارمیں ہی بتا دیا تھا کہ حق و باطل کی کشمکشِ کا اصل مقصد کیا ہے ۔دنیا میں انبیاء کی بعثت کا مقصد کیاانی جاعلی فی الارض خلیفہ کے سوا بھی تھا؟

آپ نماز میں مقتدی اقتداء مقتدرہ اور اقامتِ الصلاۃ کے مفہوم سے کیا مراد لیتے ہیں دعوت ؟

دعوت کا نصب العین بھی اقامت دین اور خلافت ارضی کے سوا اور کیا ہے ؟

سچ تو یہ ہے کہ آپ سب کچھ بھول گئے ہیں ۔آپ کو اذان یاد رہی نماز بھول گئے ۔آپ بھول گئے کہ آپ کے نبی نے نظام عالم کی تشکیل کیلئے آپ کے لئے تمام روئے زمین کو مسجد قرار دیا ہے ۔مگر آپ کو صرف اتنا سمجھ میں آتا ہے کہ ڈیڑھ اینٹ کی مسجد کیسے بنانا ہے۔اقبال نے ہماری اسی بھول پر طنز کیا ہے کہ

ملا کو جو مسجد میں ہے سجدے کی اجازت

ناداں یہ سمجھتا ہے کہ اسلام ہے آزاد

۔ٹھیک ہے بابری مسجد ایکشن کمیٹی نے آرایس ایس اور ہندو تنظیموں کو بابری مسجد رام جنم بھومی کو ہندوؤں کی انا کا مسئلہ بنانے کا موقع فراہم کیالیکن جمہوریت میں عدلیہ کی شفافیت اور انصاف کا عمل کیوں کر متاثر ہوا ؟

سیکولر آئین میں آستھا اور ضمیر کی بنیاد پر فیصلے کا کیا مطلب ؟

جس ملک میں ایوان سیاست سے لیکر عدلیہ اور پریس نے ایک قوم کے خلاف من ہی بنا لیا ہو اس ملک میں پسماندہ قوموں کے رہنما مخلص اور ایماندار ہی کیوں نہ ہوں انہیں ان کی قوم کے ہلکے لوگوں کے ذریعے بھی ذلیل کروا دیا جاتا ہے ۔آج جس طرح آیا صوفیا کے معاملے میں کچھ نام نہاد مسلمانوں کی طرف سے اردگان پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے سیاسی مفاد کیلئے آیا صوفیا کے نام پر مذہبی کارڈ کھیل رہے ہیں کل یہی الزام مرحوم سید شہاب الدین پر بھی لگائے گئے تھے ۔ آج مولانا آزاد زندہ ہوتے تو یہ الزامات ان پر بھی عائد ہوتے ۔جبکہ سچائی یہ ہے کہ سرسید ہوں کہ آزاد یا سید شہاب الدین اور آج کے ولی رحمانی یا کوئی اور یہ سب جمہوری فریب کے شکار ہو چکے ہیں ۔مجھے سید شہاب الدین کی بے بسی تو یاد ہے جب انہیں مسلمانوں کے ساتھ مسلسل ہو رہی ناانصافی کے خلاف یوم جمہوریہ کے بائیکاٹ کا اعلان کرنا پڑا ۔آج پرسنل لاء بورڈ نے بابری مسجد کے تعلق سے دیئے گئےسخت بیان کو اپنے ٹوئیٹر سےڈلیٹ تو کردیا ہے لیکن انہیں اگر یہ بیان دینا پڑا تو اس کی بھی کوئی وجہ ضرور رہی ہوگی ۔مولانا آزاد نے اپنی کتاب کی کچھ باتوں کے انکشاف کیلئے تیس سال بعد کی وصیت کی تو اس کی بھی کوئی وجہ ضرور تھی ۔مولانا آزاد کی بے بسی تو میں نے اٹھائیس سال پہلے ان کی کتاب انڈیا ونس دی فریڈم میں پڑھی تھی مگر جنھوں نے ان کی بے بسی کو آنکھوں سے دیکھا ہے ان کی زبانی بھی سن لیں ۔

مولانا نسیم صدیقی صاحب اس وقت نوے سال کے ہیں ان کا تعلق چندوارہ بہار شریف سے ہے ۔ان کے والد مولانا مکارم صدیقی صاحب مولانا ابوالکلام آزاد صاحب اور اس وقت کے بہت سارے علماء دین کے ساتھیوں میں سے تھے ۔یہ تمام لوگ تحریک آزادی میں مولانا کے ساتھ تھے ۔مولانا نسیم صدیقی صاحب سے میری بالمشافہ ملاقات تو نہیں ہے لیکن کچھ تین چار سال پہلے ان سے اس وقت رابطہ ہوا جب انہوں نے بہار کے اردو اخبارات میں میرے کئی مضامین پڑھے اور پھر میری خوش قسمتی کہیں کہ انہوں نے مجھے ڈھیر ساری دعاؤں سے نوازہ اور حوصلہ افزائی کی ۔ابھی کل کئی مہینوں کے بعد ان سے پھر بات ہوئی۔ملک کے حالات دیکھ کر بہت رنجیدہ رہتے ہیں ۔کہتے ہیں ہمارے پرکھوں نے کیسی کیسی قربانیاں نہیں دی ۔انہوں نے کیا خواب دیکھے تھے مگر ان کی قربانیوں کا ہمیں کوئی صلہ ملتا ہوا نظر نہیں آتا ۔آج جب میں نے دی وائر کی خاتون جرنلسٹ عارفہ خانم شیروانی کی ایک پوسٹ دیکھا کہ

"کیا یہ وہی دیس ہے جس کے لئے ہمارے پرکھوں نے سنگھرش کیا ,جانیں دیں ۔بہت مشکل ہو رہا ہے اپنے ہی دیس کو پہچان پانا ”

اس پوسٹ پر انہیں بھی خوب گالیاں دی گئیں۔

ان کی پوسٹ سے مجھے نسیم صدیقی صاحب کی مولا آزاد صاحب کے تعلق سے ایک بات یاد آئی۔

وہ کہتے ہیں کہ میں اس وقت بارہ سال کا تھا جب بہار میں فساد پھوٹ پڑا اور میرے اپنے گاؤں چندوارہ کے بیس لوگ شہید ہو گئے اور فسادیوں نے پورے گاؤں کو آگ لگا دی ۔اسی سلسلے میں جب گاندھی اور آزاد صاحب پٹنہ آئے تو یہ لوگ وہاں سرکٹ ہاؤس میں ٹھہرے تھے ۔ہمارے والد مکارم صدیقی صاحب جو ان کے ساتھیوں میں سے تھے جب ان سے ملنے گئے تو ان کے ساتھ میں بھی ہو لیا ۔ملک کے حالات پر گفتگو کے دوران انہوں نے والد صاحب سے صرف اتنا کہا کہ مکارم پہلے ہم انگریزوں کے غلام تھے اب نہرو کے غلام ہو چکے ہیں ۔یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں بھر آئیں ۔ساتھ میں سبھاش چندر بوس کے ساتھ کام کر چکے کرنل محبوب صاحب بھی تھے ۔انہوں نے مولانا کی بھیگی ہوئی آنکھوں کو دیکھ کر والد صاحب سے کہا کہ آپ کو نہیں لگتا کہ ایک فوج کا کرنل ہاری ہوئی جنگ کو بہت ہی بے بسی کے ساتھ جیتنے کی جدوجہد کر رہا ہو ۔میں نے مولانا نسیم صدیقی صاحب سے کہا کہ حضرت اتنی عمر میں بھی آپ کی یادداشت صحیح سلامت ہے کیوں نہ آپ اکابرین سے اپنی ملاقات اور گفتگو کے تعلق سے اپنی یاداشت رقم کر ڈالیں ۔کہنے لگے عمر صاحب یادداشت تو ماشاء اللہ قوی ہے لیکن ایک آنکھ کی روشنی جاچکی ہے ۔ایک آنکھ سے کسی طرح اخبارات کا مطالعہ کرتا ہوں ۔جہاں تک لکھنے کی بات ہے دونوں ہاتھ میں اتنی کپکپی ہے کہ قلم سنبھالنا مشکل ہے اب تو بس قبر میں ۔۔۔۔ ۔یہ بات کہتے ہوئے ان کی آواز خود بھاری ہو گئی۔اس گفتگو کے بعد آپ کہہ سکتے ہیں ک آزادی کے وقت کی جو قیادت اپنی قوم کے وجود کا مقدمہ نہیں جیت سکی ان کی اولادیں ایک مسجد کا مقدمہ کیسے جیت سکتی ہیں ؟لیکن وہ نااہل نہیں تھے اور نہ ہی ان کے خلوص میں کمی تھی ۔ان کا قصور یہ تھا کہ وہ شاطر اور بے ایمان نہیں تھے ۔وہ اپنی ایمانداری اور بھولے پن میں یہ سمجھ ہی نہیں سکے کہ وہ تو صرف انگریزوں کے خلاف لڑ رہے ہیں جبکہ ان کے کانگریسی ہندو ساتھی بیک وقت آزادی کی دو جنگ لڑرہے تھے ۔ان کے دماغوں میں انگریزوں سے نپٹنے کے بعد مسلمانوں کو ٹھیک کرنے کی بات بھی چل رہی تھی جس کے تئیں انہوں نے اس وقت تک تقیہ اختیار کئے رکھا جب تک کہ انگریزوں نے انہیں اقتدار منتقل نہیں کر دیا ۔جب تک مسلمانوں کی حمایت اور جیلوں میں جانے کی بات تھی آزاد کو کانگریس کا صدر بنائے رکھا گیا ۔جب انگریزوں سے اقتدار منتقل کر دینے کا وقت آیا تو صدر کو تبدیل کرنے کی آواز اٹھنے لگی ۔غیرت مند مولانا نے خود ہی صدارت سے استعفی دے دیا ۔ٹھیک ہے مولانا ہندوستان کے پہلے وزیراعظم بنائے جانے کے لائق نہیں تھے انہیں صدر تو بنایا ہی جاسکتا تھا ۔وزیر داخلہ تو بنایا ہی جاسکتا تھا ۔اگر مولانا وزیر داخلہ ہوتے تو پولیس بے لگام نہ ہوتی اور تقسیم کے دوران فسادات میں اتنا قتل عام نہ ہوتا مگر کانگریسیوں کا منصوبہ تو کچھ اور تھا ۔انہوں نے ان دو اہم عہدوں کو کسی مسلمان کو دینے کی بجائے کٹر ہندوؤں کو دے دیا ۔آگے حیدرآباد اور کہاں کیا کیا ہوا سب منصوبہ بند تھا ۔بابری مسجد میں رام للا مولانا کے سامنے ہی برکٹ ہو گئے تھے ۔اگر اس وقت کوئی مسلمان وزیر داخلہ ہوتا تو کیا رام للا کی مورتی مسجد میں پڑی رہتی ۔کیا مسجد میں تالا لگتا ۔پندرہ اگست سے پانچ اگست تک سب کچھ طئے شدہ منصوبے کے تحت ہے۔

Comments are closed.