صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات

فہیم اختر ندوی

 

السلام علیکم

 

نئی تعلیمی پالیسی 2020 کی چند باتیں بہت نمایاں ہیں۔۔۔۔

 

اس کو تیار کرنے والی سرکار کے عزائم واضح ہیں۔۔ آر ایس ایس کی ساٹھ فیصد تجاویز شامل کرلی گئی ہیں۔۔ اس پالیسی کو منظوری کےلئے مباحثہ میں نہیں پیش کیاگیا۔۔ اس کا اصل منظور کردہ مسودہ سامنے لانے کے بجائے ایک مختصر مسودہ لوگوں میں ڈال دیاگیا ہے کہ اسی میں سب الجھے رہیں۔۔۔

 

پالیسی میں درج ہے کہ اس کا مقصد پراچین بھارت کی سنسکرتی، طور طریقے، تعلیم، شخصیات، اور کارنامے نئی نسل کو پڑھانا ہے۔۔ تو آنگن واڑی کے مرحلہ میں ہی چھ ماہ/ایک سال کی خصوصی تربیت والے اساتذہ کے ذریعہ کچی عمر کے بچوں کو اس رخ اور راہ پر ڈالنا ہے، اس میں رضاکاروں سے بھی تعاون لیا جائے گا یعنی ان کے کارندے یہاں قانونی دخل انداز ہوں گے۔۔ ابتدا سے اعلی تعلیم اور ریسرچ تک اسی طرح کے مضامین کی ہمت افزائی ہوگی، اور کچھ مضامین لازمی بنیں گے۔۔۔

 

سرکار کا اندازِ کار بزور اور بہ دھوکہ اپنے منصوبے نافذ کرنا رہا ہے، اور اپنی تائید کےلئے افراد خریدے ڈرائے اور لبھائے جاتے رہے ہیں۔۔ تو وہ سب اس پالیسی پر عمل کرانے میں ہوگا۔۔۔

 

نجی اداروں اور بیرونی اداروں کےلئے آسانیاں پیدا کی گئی ہیں، تو ان کے یہاں تعلیم مہنگی رہی ہے اور رہے گی، اور معاشی کمزور تعلیم سے محروم ہوں گے۔۔ ملک کی بڑھتی تعلیمی ضرورت سرکار نہیں پوری کرے گی، بلکہ نجی ادارے کریں گے تو جس ملک اور قوم میں تعلیمی پسماندگی ہے وہاں ناخواندگی بے تحاشا بڑھے گی۔۔۔

 

تعلیمی اداروں کی منظوری اور نگرانی پر مرکز کی گرفت سخت کی گئی ہے اور وہ وزیر اعظم کے تحت لائی گئی ہے، تو اس منشا کو پورا کرنے والے ہی تعلیمی ادارے چلاسکیں گے۔۔۔

 

پالیسی میں دعوے بلند بانگ کئے گئے ہیں کہ صرف انہی الفاظ کو سننے والے خوش ہوجائیں۔۔ ساتھ میں وہ باتیں بھی لکھ دی گئی ہیں جو اوپر مذکور ہوئیں۔۔ بہت سی جگہوں پر ابہام اور الجھاؤ چھوڑ دیاگیا ہے جہاں مزید خدشات اٹھتے ہیں۔۔ تصورات میں تضادات کی صورت ہے، اور پراچین بھارت اور ایک مذہب کی اصطلاحات کثرت سے لائی گئی ہیں۔۔۔

 

اب ان باتوں کے بعد ہم ملت مسلمہ کے سامنے چند قابل فکر باتیں ہیں ۔۔۔

 

یہ صورت حال غیر متوقع نہیں ہے، ہماری نسل کے باحوصلہ مرد وخواتین اس کےلئے بیدار اور ذہنی طور پر تیار ہیں۔۔ تاریخ ایسے ہی بنتی ہے، اور محنت وحوصلہ اور متحدہ کوشش کامیابی لاتی ہی ہے۔۔ تو ہم مایوس نہیں پرعزم ہیں ۔۔

 

ہمارے سامنے تعلیم کے تین میدان ہیں: دینی مدارس کی تعلیم، مسلم زیر انتظام اداروں میں تعلیم، اور عام نجی وسرکاری اداروں میں تعلیم۔۔ ان تینوں میدانوں کےلئے منصوبہ بندی کچھ سابق تجربہ اور کچھ موجودہ امکانات کی روشنی میں کرنی ہے۔۔ یہ راستے بند نہیں ہیں، اور اچھی منصوبہ بندی کے امکانات موجود ہیں۔۔

 

دستوری قانونی حقوق کے تحت ہمیں ملک میں سب کی تعلیم اور اچھی تعلیم کے نعرہ کے ساتھ کچھ مطالبات کرنے ہوں گے، اور مضبوط ومتحدہ موقف پر اصرار کرنا ہوگا۔۔ یہ دو طرح کے ہوں گے: سب کےلئے سستی اور اعلی تعلیم پرمبنی مطالبات۔۔ اور اقلیتوں کو اپنی پسند کی مذہبی ولسانی تعلیم پر مبنی مطالبات۔۔

 

اور سب سے اہم۔۔

موجودہ امکانات کے تحت کثرت سے اور ہر سطح کے تعلیمی اداروں کا قیام۔۔ اس کےلئے افراد، وسائل، سوچ، اور جذبہ سب موجود ہیں۔۔ ان کو یکجا کرنے کا وقت آیا ہوا ہے۔۔

 

ہم یاد رکھیں کہ۔۔ اب وقت بدلا ہوا ہے، دنیا ہی بدلی ہوئی ہے، پہلے بھی وقت بدلا کیا ہے، یہی قانون قدرت بھی ہے۔۔ تو ۔۔ ذہن کے دروازے زیادہ کھول لیں، قدیم کی عظمت واحترام کے ساتھ نیا جلد اپنالیں، دینی روح اور شرعی اصولوں کی بنیاد پر نیا نظام، نصاب، نہج طے کرلیں۔۔

 

بات لمبی ہوگئی۔۔ اور چارہ بھی نہ تھا۔۔ اپنے منصوبوں پر باتیں آئندہ۔

 

خدا حافظ

9 اگست 2020

18 ذو الحجہ 1441

Comments are closed.