مسجد و مندر کا تنازعہ یا توحید و شرک کی نظریاتی جنگ؟

/دسمبر 1992ء کو بابری مسجد غیرقانونی طریقے سے شہید کی گئی تھی؛ اس لیے ایک سال قبل 1991ء میں بنائے گئے عبادت گاہوں کے تحفظ قانون کے مطابق بابری مسجد کی جدید تعمیر مسلمانوں کا حق اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔ 

مسجد و مندر کا تنازعہ یا توحید و شرک کی نظریاتی جنگ؟

 

تحریر: مفتی محمد اشرف قاسمی

(مہدپور، اجین، ایم پی)

[email protected]

 

17 ستمبر 2019ء کو حضرت مولانا سید محمد رابع ندوی صاحب دامت برکاتہم (صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ) کی خدمت میں ہماری طرف سے ایک مکتوب ارسال گیا تھا۔ جس کا ایک جزؤ اس طرح ہے:

"قضیہ بابری مسجد کے تعلق سے فریق مخالف اپنے دعوے پر ثبوت وشواہد کے بجائے محض عقیدہ وآستھا کو پیش کر رہا ہے، جسے پورا ملک بلکہ تمام عالم دیکھ اور سن رہا ہے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ بے شمار مساجد کی طرح بابری مسجد کو بھی صنم خانہ بنادینے میں اس کے لیے کوئی مانع نہیں ہے؛ لیکن بت پرستی کی فکری بالادستی کے لئے قضیہ بابری مسجد کو طول دے کر اسے "بت پرستی بنام توحید” کی شکل دے دی گئی ہے۔ اور یہ حقیقت ہے کہ عام انسانوں کو چند افراد کا غلام بنانے کا سب سے قوی اور بڑا ذریعہ بت برستی ہے، جب کہ عقیدۂ توحید انسان کو انسان کی غلامی سے نکال کر خدائے واحد کا پرستار بناتا ہے؛ لہذا ہمارے لیے مناسب یہ ہے کہ ہم اس مقدمہ کو "توحید بنام بت پرستی” کی بنیاد پر پیش کرنا شروع کر دیں، ایسی صورت میں اگر بالفرض ہمارے حق میں فیصلہ نہ بھی آئے تو بھی لوگوں کے سامنے بت پرستی کی غیر معقولیت آجائے گی، اور قضیہ بابری مسجد بطور اتمام حجت باشندگانِ وطن کے سامنے توحید کے اثبات کا قوی ذریعہ ثابت ہوگی، جو کہ ہماری بڑی فتح ہوگی۔”

 

اس خط کے جواب میں 8/صفر1441ھ مطابق8/اکتوبر 2019ء کو حضرت مولانا محمد رابع حسنی ندوی دامت برکاتہم کی جانب سے جو جواب موصول ہوا اس کا ایک حصہ ذیل میں نقل کیا جاتا ہے:

"آپ کی رائے بہت لائق قدر ہے، بابری مسجد کے سلسلے میں اصلا توحید و شرک کا مقابلہ ہے، اور اسی جذبے سے بورڈ وغیرہ فکر و توجہ سے کام لے رہے ہیں، البتہ یہ کوشش اب عدالت میں ہے تو اس کی اصطلاحات کو حسبِ ضرورت استعمال کرنا ہوتا ہے، ان شاء اللہ اللہ کی مدد ہوگی۔”

چند دنوں کے بعد مسجد اور مظلوموں و مسلمانوں کے حق میں ثبوت و شواہد بتا کر مظلوموں اور مسلمانوں کے خلاف جارحیت پسندوں کے حق میں سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنایا۔

6/دسمبر 1992ء کو بابری مسجد غیرقانونی طریقے سے شہید کی گئی تھی؛ اس لیے ایک سال قبل 1991ء میں بنائے گئے عبادت گاہوں کے تحفظ قانون کے مطابق بابری مسجد کی جدید تعمیر مسلمانوں کا حق اور حکومت کی ذمہ داری ہے۔

اس کے باوجود قضیہ بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلے کے اہم نکات حسب ذیل ہیں:

1. اس مسجد سے قبل وہاں کسی مندر کا ثبوت نہیں ہے۔

2. مسلمانوں نے کسی مندر کو توڑ کر بابری مسجد نہیں بنائی تھی۔

3. پندرہ سو اٹھائیس (1528ء) سے وہاں بابری مسجد موجود ہے۔

4. وہاں 1949ء تک نماز ہوتی رہی ہے۔

5. وہاں دسمبر میں غیر قانونی طریقے سے مورتی رکھی گئی۔ رام پرکٹ (خود بخودظاہر) نہیں ہوئے تھے۔ (جیسا کہ دوسرا فریق عوام میں توہم پھیلا رہا تھا کہ مسجد کے ممبر پر رام خود بخودظاہر ہوئے تھے۔ عدالت نے اس کی نفی کر دی۔)

6. جس وقت بابری مسجد کی تعمیر جس زمین پر ہوئی تھی اس زمین کے اندر بابری مسجد کی تعمیر سے تین چار سو سال قبل کا کوئی پتھر ملاہے۔ جس پر اسلامی آثار نہیں ہیں اور نہ کسی مندر کی کوئی خاص علامت ہے؛ لیکن چونکہ اس طرح سے مسجد کے لیے اسلامی آثار کا ثبوت نہیں ملتا ہے؛ اس لیے سپریم کورٹ نے مسجد سے مسلمانوں کو بے دخل کر کے دوسری جگہ مسجد تعمیر کے لیے کچھ زمین دیے جانے کا فصلہ سنایا۔

یاد رہے کہ فریق مخالف عدالت میں اس پتھر کے علاوہ اپنی ملکیت کے لیے کوئی ثبوت نہیں پیش کر سکا، پھر بھی مندر کے حق میں فیصلہ دے دیا گیا۔ ع

صاحبِ انصاف نے قاتل کو قاتل کہہ دیا

اور پھر مقتول کو فرمانِ پھانسی دے دیا

 

اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسری جگہ مسلمان مسجد بنائیں اور وہاں زمین کے نیچے کوئی پتھر نکل آئے تو مسجد پر مندر کا دعوی قابل قبول ہوگا۔

سوال یہ ہے کہ بابری مسجد میں نماز کے تسلسل کو قبول کرنے کے باوجود ہمیں مسجد سے بے دخل کر دیا گیا تو دوسرے فریق کے لئے بابری مسجد کی تعمیر سے تین چار سو سال قبل کے نامعلوم پتھر کی بنیاد پر مندر بنانے کا حق کیسے حاصل ہو گیا؟

جب مسجد اور زمین پر مسلمانوں کی ملکیت ثابت نہیں ہوسکی تو پھر مسجد کے لیے دوسری جگہ زمین کیوں دی جارہی ہے؟

6 دسمبر 1992ء کو مسجد منہدم کرنا جرم تھا، اگر مسجد شہید کرنے کا خلاف قانون جرم نہ ہوا ہوتا اور آج مسجد موجود ہوتی تو کیا عدالت مندر کے حق میں فیصلہ دے کر اس جرم کا ارتکاب حکومت کے ذریعے کراتی؟

یہی منوواد ہے کہ ذات، فرقہ، نسل، مذہب کی بنیاد پر انصاف کو شرمندہ کیاجائے،

مظلوموں کو زیادہ سے زیادہ محرومی کا احساس کراتے ہوئے ظالموں کے خلاف ثبوت و شواہد کے باوجود ظالموں کے حق میں ہی فیصلے دیے جائیں۔

اس پوری عدالتی، سیاسی اور،میڈیائی کارروائی سے یہ بات نکل کر سامنے آگئی ہے کہ یہ مسجد مندر کی نہیں؛ بلکہ منوواد بنام امن، عدل و انصاف کی لڑائی ہے ۔

آج منوواد بظاہر دندنا رہا ہے؛ لیکن ہمیں مایوس ہونے کے بجائے ملک کی چھ ہزار سات سو تینتالیس (6743) قوموں کو منوواد کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے اسلام کے پیغام کو ہندی، انگریزی، مراٹھی، گجراتی، ملیالم، پنجابی، بنگالی، کنڑ وغیرہ زبانوں میں پھیلانا شروع کر دینا چاہیے۔ کچھ مستبعد نہیں ہے کہ قضیہ بابری مسجد کے تعلق سے کھلی نا انصافی کو دیکھنے کے بعد ملک کی اکثریت اسلام کو سمجھ کر امن و،انصاف کے لیے اسلام کی چھاؤں میں آجائے۔

دعا ہے کہ اللہ تعالی ہم سب کو دعوت اسلام کی توفیق عطا فرمائے اور ملک میں اسلام کی ہوا،چلائے، اور پورا ملک نغمہ توحید سے معمور ہو۔ اور جن لوگوں نے مسجد کو بت کدے میں تبدیل کرنے کی مذموم کوششیں کی ہیں، انہیں بھی دولتِ ایمان عطا فرمائے۔ آمین۔

Comments are closed.