صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات

فہیم اختر ندوی

 

(نوٹ: آج ہماری بات ایک تبصرہ میں بدل گئی ہے، وہ ملک میں ملت کا اہم مسئلہ ہے، تو اسی کو صبح کی بات سمجھیں، اور پڑھیں)

 

"۔۔۔ اب آگے بڑھیں۔”

 

مکرم مولانا خورشید انور ندوی صاحب کی اس عنوان سے تحریر پر جو تائیدی اور تعریفی رائیں آئیں، ان سب سے اتفاق کرتے ہوئے چند اپنی باتیں رکھنا چاہتا ہوں۔۔

 

1- واٹس اپ اور سوشل میڈیا کے روزانہ میسجز کے ہجوم والےاس دور میں کوئی اہم تجویز بھی ایک دو دنوں میں نابود سی ہوجاتی ہے، اور ہم کسی نئے مسئلہ میں مصروف ہوجاتے ہیں، پھر بات وہیں رہ جاتی ہے۔۔۔ یہ روش کسی حل کی سمت ہمیں نہیں لے جاتی۔ ملت کے وجود وبقا والے مسائل میں ایسی تجاویز سے جڑے اور بات کرتے رہنا ہوگا، اور آگے بڑھتے رہنا ہوگا۔

 

2- اس مالا مال امت کی جن صلاحیتوں کی جانب اس تحریر میں اشارہ کیا گیا ہے، اور ان کی ناقدری کے جس مرض کی نشاندہی کی گئی ہے، وہ ہماری بگڑتی صورت حال کی ایک اہم وجہ ہے۔۔ اور ہم اپنے ہاتھوں اپنی بہتری سے محرومی کا ساماں کررہے ہیں۔ اسے کسی قیمت نہیں بھولنا ہوگا۔

 

3- ملت زبوں حالی ہی نہیں بلکہ یقینی بربادی کی جانب جس تیزی سے ہنکائی جارہی ہے، اس میں ہر گزرتا لمحہ انتہائی قیمتی اور تاریخ بنتا جارہا ہے، ایسی تاریخ جس کی تلافی کےلئے پھر برسوں درکار ہوتے ہیں۔ تو اہم اقدامات اور عمل کی طرف بڑھے بغیر چارہ نہیں ہے۔ اب وقت انتظار نہیں چاہتا۔

 

4- یہ ہمیں اچھی طرح یاد ہے، اور یاد رکھنی ہے کہ۔۔ ہمارا کام اس وقت امت کو بچانا اور اٹھانا ہے، ملت کے ادارے اور افراد ہمارا سرمایہ ہیں، اور ان کی اچھی تاریخ ہمارا سامان فخر۔۔ تو ہم اصلاح اور تبدیلی لائیں گے، غلطیوں پر روک لگائیں گے، غلط کرنے والوں کی راہ بند کریں گے۔۔۔ لیکن اپنے اداروں کو بے اہمیت اور بے کردار نہیں ہونے دیں گے، اور غنیمت شخصیات کو بے حیثیت نہ بننے دیں گے۔۔ یہی تو دشمن چاہتا ہے، اور یہی اس کی کامیابی ہے کہ ہمارے ادارے اور معتبر شخصیات خود قوم کی نظر میں ذلیل ہوجائیں۔۔ افراد اور ذمہ داریوں کی تبدیلی سے اس کا تعلق نہیں ہے، وہ تبدیلی لازما ہونی چاہئے، اور ممکنہ مثبت راہوں سے ہونی چاہئے۔

 

5- اداروں، مدارس اور تنظیموں میں مناصب اور قیادت کے انتخاب یا درست لفظوں میں تقرری کا ہمارا فرسودہ طریقہ تجربہ سے بھی نامفید ثابت ہوچکا ہے۔۔ محترم خورشید ندوی صاحب کی تجویز ہی یہاں قابل اعتبار اور مفید ہے، اور اسی سے احتساب اور تازہ کاری ہوتی ہے۔۔ اور اسی میں اداروں کی قوت اور ان کا تحفظ بھی ہے۔۔ تو اس کو سنجیدگی سے لینے اور مثبت اقدام کرنے کی تمام راہیں سونچنی ہوں گی۔

 

6- اس سلسلہ میں یہ مناسب ہوگا کہ محترم خورشید ندوی صاحب کی اس تحریر کو اپنے اپنے حلقوں میں عام کیا جائے۔۔ بالخصوص متعلقہ اداروں کے حلقوں میں ۔۔ اس سے آہ اور کراہ اٹھے گی، لیکن یہ جرات ماجور ہوگی۔۔ یہ تحریر متوازن اور مثبت ہے، جس میں درد بھی ہے، شرافت بھی ہے اور مرض کی بے لاگ تشخیص بھی، اور پھر پوری جرات رندانہ کے ساتھ علاج بھی۔۔ یہ علاج ہی بڑھتی بیماری کو تھامے گا، اور انشاء اللہ شفاء بھی لائے گا۔

 

اخیر میں عرض ہے کہ امت اور ملت بہت ٹوٹی اور بکھری ہے، اس پر بہت زخم لگ چکے ہیں، یہ بدحالی کی مصیبتوں کی ماری ہے، اس کو دشمنوں نے تاک لیا ہےاور گھیرنے کے لاؤ لشکر تیار ہوگئے ہیں۔۔۔ لیکن اس ملت کے اندر ایمان اور حوصلہ کی بھرپور طاقت ہے، نئی نسل اور کنارے لگے افراد میں صلاحیت اور جذبہ کا امنڈتا سیلاب ہے، اس کے پاس زبان، جرات، قربانی اور بے لوثی بھری ہے، اور اس ملت کے پاس اب بھی اپنی تاریخ کی مضبوط بنیاد ہے۔۔ اس ملت کی نوجوان بچیوں اور بچوں نے ابھی سی اے اے کے خلاف اور پھر لاک ڈاؤن میں انسانیت کی خدمت کرکے اس کا نمونہ دکھایا بھی ہے۔۔ اور ایسے بے شمار نمونے یہاں وہاں ہر کھلی آنکھ دیکھ رہی ہے۔۔ تو ۔۔ پوری ہوشمندی کے ساتھ، پوری بیدار مغزی کے ساتھ، زبان کی شرافت اور جرات کی قوت کے ساتھ ہم اپنے حلقوں میں مسائل اٹھائیں، ذہن بنائیں اور۔۔۔

 

۔۔۔ اب آگے بڑھیں۔

 

10 اگست 2020

19 ذو الحجہ 1441

 

 

سابق تبصرہ ذیل کی تحریر پر یے

 

تحریر :خورشید انور ندوی

10 اگست 2020

… اب آگے بڑھیں.

‌جو ہونا تھا ہوگیا.. اچھا یا برا اب آگے بڑھیں.. یہ رویہ بھی بظاہر سنجیدہ لیکن لاپرواہی پر مبنی ہے.. جو ہوا اس کو قبول کرلینا چاہئے.. اسی کو حقیقت پسندی کہتے ہیں.. لیکن کیا ہوا.. کیسے ہوا.. ہماری کوتاہیاں کیا رہیں.. صورت حال سے نمٹنے میں لائحہ عمل کیسا رہا.. ان سوالوں کا جواب ڈھونڈنا خود احتسابی کہلاتی ہے، جو ہر صاحب عقل کے لئے ضروری ہے اور اہل ایمان کے لئے زیادہ ضروری ہے.. کیوں کہ ان کو محض اپنے لوگوں کو جواب نہیں دینا اللہ کو بھی جواب دینا ہے.. اگر کوئی ان سوالوں کے جواب آپ کے سامنے رکھے تو یہ نری تنقید نہیں بلکہ اس کو تجزیہ سمجھا جانا چاہئے.. جس میں غلطی کا امکان بھی رہتا ہے، اور اٹھائے گئے نکات پر وضاحت سے غلطی کی اصلاح یا غلط فہمی کا ازالہ ممکن ہے.. لیکن "اکابر” کی رٹ اور” بڑوں” کا الاپ ایک عجیب طرح کی غلامی ہے، جس میں سوائے ہمارے کوئی مبتلا نہیں.. پہلے تو ہمارے یہاں "اکابر” بنتے نہیں، جن کو بننے میں زندگیاں صرف ہوتی ہیں، مشقتیں ریاضتیں، تنگ دستی، ایثار اور پھر بے نفسی ہوا کرتی ہے، بلکہ” اکابر "بنے بنائے پیدا ہوتے ہیں اور غلاموں کی قسمت ان کے ہاتھوں پر بیعت ہوکر اپنی گردنوں پر ان کے پائے نخوت رکھواکر دنیا کی سرفرازی اور آخرت کی کامیابی حاصل کرنا ہے.. اس وقت جتنے اکابر ہیں.. ان سب کے باپ، چچا، تایا اورماموں بھی اکابر تھے.. خصوصاً طبقہ علماء اور اہل مدارس میں.. تنظیموں، بورڈوں میں بھی یہی حال ہے، دو چار محنتی اور کارآمد لوگوں کو بھی لے لیا جاتا ہے، تاکہ کاروبار قیادت چلتا رہے.. اور ان کو قیادت کے بجائے منشی گیری میں لگایا جاتا ہے، اس میں یہ خیال رکھا جاتا ہے کہ غیر اکابر زادہ کم ازکم ایک پشت پہلے سے خادم ہو یعنی کوئی آزمودہ وفادار کا زادہ ہو یا اپنے ہی کسی ملازم کی آل اولاد ہو تاکہ سرتابی کی جرأت کا امکان نہ ہو.. کہیں کوئی تازگی نہیں ملتی.. مسلمان تنظیموں اور بورڈوں کی ممبری تقریباً تاحیات ہے، اور وفات سے پہلے جگہ چھوڑنے یا چھڑانے کا تصور نہیں.. عموماً بیٹا اسی منصب کے لئے اہل امیدوار ہوتا جس پر اس کا پدر کبیر براجمان تھا… اس سلسلے میں از راہ رواداری بھی باپ کے علم کی ازبری از بس ضروری نہیں سمجھی جاتی .. ظفریاب جیلانی سے بڑا وکیل مسلمانوں میں پچھلے پچاس سال سے پیدا نہیں ہوا، جو مسلم پرسنل لا کی خدمت کرے.. اب کوئی نہیں ہوا تو کیا جا سکتا ہے.. طالع آزماؤں نے بہت بڑوں کو اس لئے بٹھا رکھا ہے کہ ان کو کھل کھیلنے میں مزاحمت کا امکان نہ رہے… میرے ایک مخلص دوست نے کہا کہ کوئی اور ہوتا تو کیا کرلیتا، میں نے کہا جب یہی ہونا تھا تو یہی لوگ کیوں؟ کچھ گناہ دوسروں کے سر بھی جانے دو اور سبک سر رہو.. صاحبزادگان کی من مانیاں عروج پر ہیں.. باہمی رابطہ، باہمی مشورہ کی کوئی ضرورت نہیں سمجھی جاتی.. ہر ایک کے کئے پر دوسرا صاد کرنے پر مجبور ہے،، کیوں کہ کچھ کہنے پر پرانی نسبتیں آڑے آتی ہیں.. اور کچھ صاحبزادگان سے تو "اکابر” لرزاں ہیں، کیوں کہ ان کی بدگوئی اور دریدہ دہنی مشہور ومشہود ہے.. وہ عام پروٹوکول کا لحاظ نہیں فرماتے… بورڈ ہمارا ہے، اس کے بڑے ذمہ دار ہمارے ہیں.. جب سے آنکھ کھولی بورڈ کا لب ولہجہ جانتے پہچانتے ہیں.. شوریدہ سری ،اور بلند بانگی بورڈ کا مزاج نہیں ہے.. اگر بڑوں سے مشورے کے بعد بیان جاری ہوتا تو.. اول تو ہوتا ہی نہیں، ہوتا تو واپس نہ لینا پڑتا.. مسلمانوں کے سب سے بڑے نمایندہ ادارے کی، پڑھے لکھے لوگوں میں، سخت بے وقاری ہوئی.. لیکن آپ کبھی جان نہیں پائیں گے کہ ایسا کیوں ہوا.. خانقاہ چلانا.. اور بیس بائیس کروڑ مسلمانوں کی قیادت یکساں کام نہیں… مجھے تو حیرت ہے کہ.. علماء صلحاء دانشوروں سے امت اٹی ہے، کام کیوں نہیں بانٹا جاتا… وہی چہرے خانقاہ میں، وہی تعلیم گاہ ہیں، وہی ضرورت ہو تو سیاست کی پائیگاہ میں.. آج دنیا کی کوئی اقلیت، ہندوستان کی مسلمان اقلیت سے زیادہ خوف زدہ نہیں.. موب لنچنگ، مقدمات کی بھرمار، پولیس کی بربریت، مسلم علاقوں کی بار بار ناکہ بندی، بابری مسجد کی مندر میں تبدیلی،، اور تمام ہندو ہم وطنوں کی مندر کے معاملے میں یکجائی نے مسلمانوں میں کم حوصلگی پیدا کی ہے.. وہ خود کو تنہا محسوس کرتے ہیں،،.. ان شاء اللہ آیندہ کچھ تجاویز پیش کی جائیں گی..

Comments are closed.