دیا جلانے کی رسم اور اسلامی تعلیمات یاسر ندیم الواجدی! @mufti_yasir

دیا جلانے کی رسم اور اسلامی تعلیمات
یاسر ندیم الواجدی
گزشتہ چند دنوں سے ملک کی ایک موقر تنظیم کے قابل احترام رکن سوشل میڈیا پر تنازعہ کا شکار رہے ہیں۔ یہ تنازعہ تین وجوہات سے سوشل میڈیا پر کئی دنوں سے چھایا رہا۔ پہلی وجہ کویتی وکیل مجبل الشریکہ کو ان کا تیز وتند جواب تھا، جس پر بعض احباب نے اپنے تحفظات کا اظہار کیا، لیکن وقت نے ثابت کردیا کہ مجبل الشریکہ خواہ کتنے ہی مؤثر ہوں لیکن وہ سنجیدہ شخصیت نہیں ہیں، اس لیے مجھے لگتا ہے کہ اگرچہ ان کو مزید بہتر انداز سے جواب دیا جاسکتا تھا، لیکن جو جواب دیا گیا وہ بھی درست تھا۔
تنازعہ کی دوسری وجہ ٹویٹ تھی۔ اس موضوع پر بہت کچھ کہا اور لکھا جا چکا ہے، اس پر مزید کہنا تنازعہ کو غیر ضروری طور پر طول دینا ہوگا۔ ہمیں صرف اتنا یاد رکھنا چاہیے کہ بڑی تنظیموں میں جہاں مختلف الخیال اور مختلف الفکر افراد ہوں، وہاں ان افراد کی آراء کا احترام کرنا پڑتا ہے۔ اگر ذمہ داران اپنے موقف میں ہلکی سی لچک بھی نہ دکھائیں تو تنظیموں کا وجود خطرے میں پڑ جائے۔ مسلمانوں کی اکثریت کو ٹویٹ ڈیلیٹ کیے جانے کا اگرچہ افسوس ہوا اور اس کا اظہار بھی کیا گیا، لیکن ملت کا مفاد اسی میں ہے کہ اجتماعیت برقرار رہے اور ہماری قابل فخر تنظیم کا سر ہمیشہ اونچا رہے۔
تنازعہ کی تیسری وجہ ایک تصویر ہے، جو اسی موقع سے وائرل ہوئی اور اس کی بنیاد پر یہ اعتراض کیا گیا کہ مورتی کے سامنے دیا وغیرہ جلانا ایک شرکیہ عمل ہے، اگر اس طرح کے افعال مسلمانوں کی صف اول کی شخصیات سے عوامی سطح پر سرزد ہوں تو معاملہ مزید سنگین ہوجاتا ہے۔ بعض احباب نے زیر گفتگو شخصیت سے رجوع کرکے وضاحت چاہی تو انھوں نے اپنے عمل کا یہ کہہ کر دفاع کیا کہ انھوں نے اس بابت مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ سے دریافت کیا تھا اور حضرت نے شمع روشن کرنے کی اجازت دی تھی۔ موصوف کے بقول، حضرت رحمہ اللہ نے نمستے کرنے اور جے رام کہنے کو بھی درست ٹھہرایا تھا۔ یہ آڈیو ہم تک پہنچی تو ہم نے مناسب سمجھا کہ اس مسئلہ کی تنقیح ہونی چاہیے، حالانکہ چند ماہ پہلے جب وزیراعظم مودی نے کورونا سے لڑنے کے لیے دیا جلانے کا سہارا لیا، تو ایک موقر عالم دین نے باوجودیکہ وہ مادر علمی دارالعلوم دیوبند میں محاضر ہیں، ٹی وی ڈبیٹ میں اس شرکیہ عمل کو قرآن سے درست ثابت کردیا تھا، وہی عالم دین دوبارہ اپنے عجیب وغریب دلائل کے ساتھ زیر گفتگو شخصیت کے عمل کی حمایت میں بھی سامنے آئے ہیں، جس پر ہم حیرت زدہ ہیں کہ جو کام انھیں کرنا چاہیے تھا وہ چھوٹوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔ ہم نے اُس موقع پر بھی لکھا تھا اور آج پھر اس مسئلہ کو خالصتا لوجہ اللہ واضح کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔ اس تحریر کا مقصد زیر گفتگو شخصیت کے وقار کو مجروح کرنا نہیں ہے، بلکہ ایک منکر عمل پر نکیر کرنا ہے، تاکہ دیگر افراد بھی اس سے محفوظ رہیں۔ نیز اگر تحریر میں اختیار کردہ موقف غلط ہو تو مفتیان کرام اس کو بھی واضح کردیں، کیوں کہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عام لوگ تو کجا بعض مرتبہ علماء بھی اس طرح کی صورتحال کا شکار ہوجاتے ہیں۔ لہذا اگر اس تحریر سے اہل علم کو اتفاق ہے، تو ایسی مشکل صورت حال کے شکار لوگوں کے سامنے واضح نظریہ آچکا ہوگا۔
بہت سے مسائل کے درمیان مسلمانان ہند کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ وہ شرکیہ مظاہر پر مبنی بھارتی سنسکرتی کا مشاہدہ کرتے ہوئے پلے بڑھے ہیں۔ اس اختلاط کا نتیجہ یہ نکلا کہ بہت سے شرکیہ اعمال عام مسلمانوں کو مباح نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کتنے ہی مسلمان وندے ماترم کا چاپ کرتے ہوے ملیں گے اور اس کو وطن سے محبت کی علامت قرار دیں گے۔ دنیا نے دیکھا کہ مسلمانوں کے ایک طبقے نے کورونا کو بھگانے کے لیے خوب تھالیاں بجائیں، گھروں میں چراغ روشن کیے اور اس لایعنی عمل پر نکیر کرنے والوں کو متشدد قرار دیا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارا ایمان ہمارے امتیازی تشخص سے باقی ہے، اگر یہ امتیاز ختم ہوجائے تو ہمارا ملی وجود بھی ختم ہو جائے گا۔ حضرت حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحمہ اللہ نے کیا ہی خوبصورت انداز میں اس حقیقت کا واضح کیا ہے، وہ فرماتے ہیں کہ: "اگر اس مادی عالم کے اجزاء میں ایسی تلبیس راہ پا جائے کہ جس کے ذریعہ موجودات میں کوئی تفریق و امتیاز اور معرفت باقی نہ رہے، تو یقینا عالَم بے معنی اور لغو ثابت ہو جاتا ہے، پس روشن ہوگیا کہ التباس واختلاط ہی وہ چیز ہے جو کائنات کے وجود کو باطل کرتی ہے، اس کے بالمقابل امتیاز وفصل ہی وہ دولت ہے کہ ہر چیز کے وجود کو ثابت اور نمایاں کرتی ہے” (مسئلہ تشبہ، از حکیم الاسلام قاری طیب صاحب)
اب آئیے جانتے ہیں کہ محفلوں میں دیپ جلانے کے عمل کی کیا حیثیت ہے۔ برٹانیکا میں لکھا ہے کہ: "مورتی یا تصویر کے سامنے دیا جلانا ہندوازم اور جین مذہب کی روایت ہے، بھارت میں دیا جلانے کا عمل ہندو گھرانوں میں بہت عام ہے، اسی طرح مختلف تقریبات کے آغاز میں بھی دیا جلایا جاتا ہے”۔
ہندوجاگرتی نامی ویب سائٹ پر دیا جلانے کے بعد جو اشلوک پڑھے جاتے ہیں ان کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ مثلا: "اے روشنی کی کرن! تو ہم پر رحم، کرم، خیر، صحت اور دولت کی بارش کر، تو جہالت کے دشمنوں کو تباہ کردے، میں تیری بندگی کرتا ہوں”۔
جی وینکٹیش کے مطابق: "ہماری ہندو ثقافت میں چراغ جلانے سے تاریکی کو دور کرنے کا اشارہ ملتا ہے، کہا جاتا ہے کہ راج راجیشوری نامی دیوی چراغ میں رہتی ہے اور وہ درگا، لکشمی اور سرسوتی کی مشترکہ نمائندگی کرتی ہے”۔
زیر گفتگو شخصیت نے اپنی وائرل آڈیو میں یہی نقطہ نظر اختیار کیا ہے کہ روشنی تو علم کی علامت ہے، یہ اس لیے جلائی جاتی ہے تاکہ جہالت کا اندھیرا دور ہو۔ مجھے یقین ہے کہ موصوف کی یہی نیت ہوگی، لیکن مذکورہ بالا سطور سے یہ ثابت ہوگیا ہے کہ سیمیناروں اور کانفرنسز کے موقع پر دیپ جلانا ایک مذہبی عمل ہے اور دوسرے مذہب کے عمل کو کسی بھی نیت سے اختیار کیا جائے تو وہ باطل ہی ہوتا ہے۔ راقم نے مزید اطمینان کے لیے ایک پنڈت جی سے بھی رابطہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ پہلے مختلف تقریبات کے آغاز میں "ہون کی رسم” ادا کی جاتی تھی، لیکن یہ عمل طویل ہے، اس لیے اس کی جگہ دیپ جلانے کے عمل نے لے لی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان اس شرکیہ عمل میں بغیر کسی تعظیم وتقدیس کے شرکت کرے تو اس کا کیا حکم ہے؟ حضرت حکیم الاسلام قاری طیب صاحب رحمہ اللہ نے اس مسئلہ کی تمام تفصیلات ذکر فرمائی ہیں۔ وہ قرآن وسنت کی نصوص اور فقہی آراء ذکر کرنے کے بعد (جن کے یہاں ذکر کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جس کو تفصیل درکار ہو، وہ حضرت کی کتاب کا مطالعہ کرسکتا ہے) لکھتے ہیں: "بہر حال مسئلہ تشبہ کا تعلق اضطراری وتکوینی امور سے کچھ نہیں ہے، البتہ قسری امور سے ہے۔ قسری امور وہ ہیں جو کسی دلی جذبہ کے تحت ظاہر ہوں مگر ان کا ظہور بیرونی آثار یا خارجی تعلیمات کا رہین منت ہو۔ ان کی پھر دو قسمیں ہیں: تعبدی اور تعوّدی۔ یعنی وہ اعمال یا تو دین کی قسم سے ہوں گے یا عادات ومعاشرت کی۔
صورت اولی میں تشبہ بالغیر حرام ہے، جیسے صلیب لٹکا لینا، زنار باندھ لینا یا پیشانی پر قشقہ لگا لینا۔ (واضح رہے کہ مخصوص مواقع پر دیپ جلانا تعبدی امور سے تعلق رکھتا ہے)
اور اگر معاشرتی امور ہوں، تو پھر ان کی دو صورتیں ہیں:
یا تو وہ امور قبیح بالذات ہوں گے، تو ان میں بھی تشبہ حرام ہے جیسے مکفّف بالحریر کوٹ پہننا، یا کسی قوم کی ایسی حرکت جس میں ان کے معبودان باطلہ کی کوئی عظمت ظاہر کی جاتی ہو۔ (لہذا اگر کوئی یہ ثابت کردے کہ دیپ جلانا تعبدی امر نہیں ہے، تو لا محالہ اِس قسم میں داخل ماننا پڑے گا).
اور اگر وہ مباح بالذات ہیں تویا تو وہ کسی قوم کا امتیازی شعار ہیں تو بھی ان میں تشبہ قریب بہ حرام ہے الخ۔۔۔”
(مسئلہ تشبہ، قاری طیب صاحب رحمہ اللہ)
یہ مختصر تحریر حضرت رحمہ اللہ کے طویل اقتباس کی متحمل نہیں ہے، لیکن اس مختصر حوالے اور مندرجہ بالا تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ سیمناروں کے آغاز میں دیا جلانا، پھر سامنے اگر کسی معبود کی تصویر بھی ہو ایک مذہبی اور شرکیہ عمل ہے، جس سے احتراز ضروری ہے۔ زیر گفتگو شخصیت کیوں کہ عالم دین نہیں ہیں، اس لیے انھوں نے اپنی معلومات کے مطابق اس رسم میں شرکت کی، جب ان کی طرف سے وضاحت آئی کہ وہ مفکر اسلام حضرت مولانا علی میاں ندوی رحمہ اللہ سے پوچھ چکے ہیں تو ہم نے بھی اپنی مختصر فیس بک پوسٹ ڈیلیٹ کردی، جس سے ان کی شخصیت متاثر ہورہی تھی، لیکن ہم نے یہ مناسب جانا کہ مسئلہ کی باحوالہ وضاحت کردی جائے، اگر وہ اپنے موقف سے رجوع کرلیتے ہیں تو کیا ہی اچھا ہو، بصورت دیگر منکر پر نکیر کی ہماری ذمے داری پوری ہوئی۔
Comments are closed.