اشکوں سے بھرا دامن

مولانا بدر القاسمی

نائب صدر فقہ اکیڈمی انڈیا و سابق مدیر ماہنامہ الداعی دارالعلوم دیوبند
ان العین لتدمع وان القلب لیحزن ولا نقول الا ما یرضی ربنا وانا لفراقکم لمحزونون
دل زخموں سے بھرا ہو تو آنکھوں کا آنسو بہانا طبعی ھے چنانچہ شریعت نے غم کے ان آنسوؤں پر پابندی نھیں لگائی اور ننھے ابراھیم ع کی وفات پر رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی غم آگیں مبارک آنکھیں غم کے آنسو بہائے بغیر نہیں رہ سکیں اور یہ جملے آپ ‌‍نے اسی موقع پر ارشاد فر مائے تھے
میری شریک حیات ھو یاجواں سال بیٹوں اور بیٹی کی ماں اچانک چلے جانے کا غم تو سبھوں کو طبعی ہے اور انمیں سے کسی کی آنکھیں موتی برسانے لگیں تو معذور ھی سمجھا جائیگا کہ اتنے بڑے حادثے میں دل کی کیفیت ہمیشہ یکساں نھیں رھتی اور زخموں سے بھرا سینہ دامن کو بھی اشکوں سے بھرنے لگ جائے تو اس پر تعجب نہیں کیا جاسکتا
میرے لئے تو قدرت نے بلکہ ھر غمزدہ انسان کیلئے صبر اور نماز کا نسخہ تجویز کیا ھے تاکہ غم ہلکا ہو کہ یہی تیر بہدف نسخۂ ہے اور ربانی علاج ہے اور اسی میں روحانی شفا ہے
استعینوابالصبر والصلاہ کا یہی وہ قدرتی شفا خانہ ھے جہاں دکھ درد کے مریضوں کا خصوصی علاج ہوتاہے اور معالج خود رب کائنات کی پاکیزہ ذات ہے اور نسخۂ قرآن میں مذکور ہے
طاعت پر صبر اسی طرح معصیت کے ارتکاب سے باز رہنا یہ بھی صبر ہے اور پھر پیش آنیوالی مصیبتوں پر صبر ایک مکمل تربیت گاہ ہے جس میں دکھ دینے اور درد لینے کا کام ہوتا ہے لیکن جب غم ہی جانگداز ہو تو اسکی شدت تو محسوس ہونا یقینی ہے تا آنکہ رب کائنات اپنے لطف خاص سے نہ نوازے اور اپنی آغوش رحمت میں نہ لیلے
نماز ایک کامل اور خاص شان کی عبادت ہے آدمی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے لگے تو خدا اسے اپنی حفاظت میں لیےلیتا ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں حدیث میں ہے کہ کان اذا حزبہ امرفزع الی الصلاة
کہ جب بھی آپکو کوئی پریشان کن معاملہ پیش آتا آپ نماز کی طرف تیزی سے لپک کر جاتے
نعمتوں کے ساتھ کبھی قدرت کی طرف سے آزمائشوں اور مصائب کا رشتہ جڑا ہوتا ہے اور اسکا تحمل صبر کے بغیر نہیں ہو سکتا آدمی کبھی نعمتوں پر اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور کبھی پیش آنے والی مشقتوں پر صبر کرتا ہے اور اسکی زندگی صبر و شکر کے درمیان ہی گزرتی ہے صبر آسان نہیں ہوتا لیکن اللہ تعالی کی طرف سے اس پر بڑے اجر کا وعدہ ہے
نماز تو سر تا پا مناجات اور سرگوشی ہی ہے نماز میں ہی انسان اللہ سے زیادہ قریب ہوتا ہے اللہ کی ہیبت اور اسکے جلال کا بھی احساس نماز میں ہی زیادہ ہوتا ہے اس لئے نفس کے اطمینان اپنے کرب اور بیچینی کے اظہار اور ہر طرح کے غم و الم کے اظہار اور اسکے دور کرنے کیلئے فریاد کی سب سے اچھی جگہ نماز ہے راز و نیاز بھی وہیں ہے اور کامل عبودیت کے اظہار کے ساتھ عاجزی سے مانگنے کی جگہ بھی نماز ہی ہے
اسی لئے صبر و نماز ہی کو ہر درد کے مداوا اور ہر پریشانی کے علاج کے طور پر تجویز کیا گیا ہے اللہ رب العزت صبر کرنے والوں کی مدد کرتا ہے انکی فریاد سنتا ہے انکے کرب کو دور کرتا ہے
انفرادی کام ہو یا اجتماعی انکی انجام دہی صبر کے بغیر ممکن نہیں
صبر کا پہلا تقاضا قضاء و قدر پر ایمان مصیبت پر اللہ کی طرف سے اجر کی امید اور زبان پر (انا للہ واناالیہ راجعون )کا زبان سے ورد ہے
پھر اللہ تعالی کی طرف سے بے حساب اجر کی امید اور رحمت ومغفرت کا ملنا قرآن کے وعدہ کے مطابق یقینی ہو جاتا ہے نفس کو سکینت بھی اسی حالت میں حاصل ہوتی ہے ورنہ سوائے کرب و بلا اور مایوسی و اضطراب کے کچھ ہاتھ نہیں آتا
قضا وقدر پر ایمان اور اللہ کے حاکم مطلق ہونے کے ساتھ اس کے حکیم ہونے پر ایمان ہر طرح کے وسوسے سے انسان کو نجات دیتا ہے  اور اللہ کے ہر فعل میں اسکی حکمت کی کار فرمائی اسے مایوسی
کے دلدل میں پھنسنے نہیں دیتی
فا للہ خیر حافظا وھو ارحم الراحمین

Comments are closed.