صحافت کا سورج بے نور۔۔۔۔۔

صحافت کا سورج بے نور۔۔۔۔۔
مولانا عبدالقیوم قاسمی
مدیر اذان ہند سورت گجرات
مولانا عبد القادر شمس رح سے عظیم شاعر اسلام علامہ طارق بن ثاقب نے تعارف کرایا تھا اور ان کے اڈریس پر اذان ہند بھیجنے کا حکم فرمایا تھا ۔ایک دن طارق صاحب نے کہا مولوی عبد القیوم شمس صاحب کو فون لگاو کہ اذان ہند دستیاب ہورہا ہے یا نہیں میں نے فون لگایا اور طارق صاحب کو دیا مگر یہ سن کر ہندوستانی ڈاک کی ناکارہ پنی پر سخت صدمہ پہنچا کہ راجدھانی دہلی میں بھی رسالہ مرسل الیہ تک نہیں پہنچ رہا ہے۔مگر شمس صاحب نے ماہنامہ اذان ہند کے جاری ہونے پرخوب مبارکبادی پیش کی اوراتنی ہمت افزائی اور خوشی کا اظہار کیا کہ بے حد وحساب۔ فرمایا گجرات سے اردو رسالہ نکالنا جوءے شیر لانے کے مترادف ہے میں نے. کہا یہ الگ بات ہے کہ گجرات سے اردو رسالے کم نکلتے ہیں مگر یہاں کے علماء نہ یہ کہ صرف رسالے کو پڑھتے ہیں بلکہ اڈیٹر کی خوب ہمت افزائی اورقدر کرتے ہیں بڑے خوش ہوئے ۔اور فرمایا محترم اج کا دور جہاد فی القلم کا ہے لگے رہیں انشاء الله کامیابی قدم چومے گی میں بھی مضمون بھیجونگا مگر کس کو پتہ تھا کہ یہ بے ر حم بیماری ہمارے ایسے محسن اور ہمت کو مہمیز دینے والے قاسمی صحافی کو جلد ہی الوداع کہلوا دے گا میں نے طارق صاحب کو اپنے غم کو غلط کرنے فون کیا تو وہ ہم سے زیادہ غمگین اور رنجیدہ تھے۔فرمانے لگے ہمارا ارریہ شہر ایک در نایاب اور انتہاءی قیمتی آدمی سے محروم ہوگیا وہ ایک علمی آدمی تھے اور عموماً ارریہ اور سیمانچل کے علاقے میں علمی پروگرام کرواتے رہتے تھے یہ کہہ کر طارق صاحب نڈھال ہوگئے کہ نہ جانے یہ مہلک مرض اور کتنے قیمتیں انسانوں سے ہم کو محروم کر دے گا اور بار بار فرماتے جارہے تھے مولوی عبد القیوم شمس صاحب کے لیے دعاءے مغفرت کرو اللہ تعالیٰ انھیں جنت الفردوس میں اعلی سے اعلی مقام نصیب کرے اور ان کی لغزشیات کو معاف فرمایے اور اہل خانہ کو صبر جمیل عطا فرمائے اور امت کو اس کا نعم البدل عطا فرمائے کہ بہت چھوٹی سی عمر (48 سال)میں کارہاءے نمایا انجام دیکر چل بسےواقعۃ شمس صاحب نسل نو کے لیے صحافت کی دنیا میں ایک قبلہ نماء تھے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور حضرت فقیہ ملت قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمی رح اور رہبر ملت حضرت مولانا اسرار الحق قاسمی رح کے سکریٹری رہنے کی وجہ سے ان بزرگوں کے نقش قدم پر چل کر ان کے کاموں اور خوابوں کو شرمندءہ تعبیر کرنے کے لءے پرعزم ۔رحمۃ اللہ علیہ رحمۃ واسعہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Comments are closed.