زہر کی کھیتی، خوشی اور خوشحالی کی تمنّا

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
حقیقت پر مبنی معروضی و مثبت رپورٹنگ کی وجہ سے عوامی مقبولیت حاصل کرنے والے پرائیویٹ نیوز چینل، سماج میں جھوٹ اور فرقہ وارانہ نفرت کا زہر پھیلانے کا ذریعہ بن گئے ہیں ۔ سیاست نے اسے اور خطرناک و تباہ کن بنا دیا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں لوگوں نے انسانیت سے ہی ناتا ٹوڑ لیا ہے ۔ سماجی نفرت ہی موب لنچنگ یا فرقہ وارانہ تصادم کا سبب بن رہی ہے ۔ جب سے نیوز روم کو وار روم کہا جانے لگا ہے، تب سے ٹی وی چینل کے ڈبیٹ جنگ کا میدان بن گئے ہیں ۔ ان کے نشانہ پر اکثر مسلمان، دلت، پسماندہ و کمزور قبائل ہوتے ہیں لیکن نفرت میں شدت پیدا کرنے اور مزاک اڑانے کے لئے مسلمانوں یا اپوزیشن کو ٹارگیٹ کیا جاتا ہے ۔ لائیو ڈبیٹ میں اخلاقی حدود سے تجاویز، بد تہذیبی، بد کلامی، گالی گلوچ اور مارپیٹ عام ہو گئی ہے ۔ کردار کشی اور دل آزاری اب جان لینے لگی ہے ۔ کانگریس کے ترجمان راجیو تیاگی کی موت اس کی مثال ہے ۔ آج تک کے لائیو ڈبیٹ کے بعد انہوں نے اپنی اہلیہ سے یہ کہا تھا کہ "ان لوگوں نے مجھے مار ڈالا” وہ یہ کہہ کر گر گئے اور ان کی موت ہو گئی ۔
سماج کو بانٹنے، مسلمانوں کے خلاف جھوٹ و نفرت پھیلانے اور اپوزیشن کی آواز دبانے میں گودی میڈیا ہی نہیں فیس بُک بھی پیش پیش ہے ۔ وال اسٹریٹ جرنل نے اپنی14 اگست 2020 کی رپورٹ میں جو انکشافات کئے ہیں وہ چونکانے والے ہیں ۔ رپورٹ میں فیس بُک پر اپوزیشن کی آواز دبانے، برسراقتدار جماعت کے ترجمان کے طور پر کام کرنے، نفرت پھیلانے کے ایجنڈے کو آگے بڑھا کر سیاسی فائدہ پہنچانے جیسے سنگین الزامات لگائے گئے ہیں ۔ نفرت پھیلانے کے معاملے میں فیس بک کے سی ای او مارک زکر برگ امریکی سینیٹ سے کئی بار معافی مانگ چکے ہیں ۔ امریکی سینیٹ میں روہنگیا مسلمانوں کے قتل عام میں فیس بُک کے کردار پر بھی سوال اٹھ چکا ہے ۔ کپل مشرا کے بیان کو خود زکر برگ نے نفرت انگریزی کی علامت بتا کر بلاک کرنے کی بات کہی تھی لیکن مشرا کا بیان ان کے فیس بُک پیج پر کافی دنوں تک لائیو رہا ۔ واضح رہے کہ اس نفرت آمیز بیان کے بعد ہی دہلی میں فسادات پھوٹ پڑے تھے ۔
اتنا ہی نہیں اننت ہیگڑے اور حیدرآباد سے بی جے پی کے ایم ایل اے ٹی راجا سنگھ کے سماج میں فرقہ وارانہ زہر کھولنے والے بیانات کے خلاف نفرت پھیلانے والے ضابطوں کے تحت کی جانے والی کارروائی سے فیس بُک کی انڈیا ہیڈ انکھی داس نے تحفظ کیا تھا ۔ بی جے پی کارکنان کی نفرت آمیز تقریریں و بیانات بلاک نہ کرنے کے پیچھے ان کی دلیل ہے کہ ایسا کرنے سے ان کے کاروباری مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ بھارت میں فیس بُک استعمال کرنے والوں کی تعداد 28 کروڑ بتائی جاتی ہے جبکہ امریکہ میں فیس بُک کے صارفین صرف 19 کروڑ ہیں ۔ مگر بی جے پی لیڈران کی نفرت انگیز تقریروں کو فیس بُک پر بلاک نہ کرنے کی وجہ سے اس کی معتبریت اور غیر جانبداری پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔ انکھی داس کے بی جے پی سے رشتے نبھانے کے سبب ہی فیس بُک کی فضیحت ہوئی ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ ان کی بی جے پی سے قربت 2014 میں اس وقت بڑھی جب پارٹی انتخابات کی تیاری کر رہی تھی ۔ فیک نیوز پھیلانے کے معاملہ میں واٹس ایپ فیس بُک سے بھی آگے ہے ۔ موب لنچنگ یا فرقہ وارانہ تشدد بھڑکانے میں واٹس ایپ کی کار کردگی اب کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے ۔ دہلی میں فساد بھڑکانے کے لئے بھی واٹس ایپ کا استعمال کیا گیا تھا ۔ سوشل میڈیا کے منفی استعمال کو دیکھتے ہوئے ہی کانگریس کے سینئر لیڈر راہل گاندھی نے کہا کہ "بی جے پی اور آر ایس ایس بھارت میں فیس بُک اور واٹس ایپ کو کنٹرول کرتے ہیں وہ ان کے ذریعہ فرضی خبریں اور نفرت پھیلاتے ہیں، ان کا استعمال ووٹروں کو متاثر کرنے کے لئے کرتے ہیں”۔
حقوق باشندگان (سٹیزن رائٹس) کے لئے کام کرنے والی مشی چودھری کا تجزیہ ہے کہ فیس بُک اور واٹس ایپ جھوٹ و نفرت کے ذریعہ عوام کی رائے بدلنے کا کام کرتا ہے ۔ فیس بُک یا واٹس ایپ میں شیئر کی گئی فیک نیوز پر بلا تصدیق کئے لوگ یقین کر لیتے ہیں ۔ ان کمپنیوں کے ذریعہ خبروں کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے یا فرضی خبروں کو پوسٹ کرنے کی وجہ سے بھارت فیک نیوز کا گڑھ بن گیا ہے ۔ برٹین میں فیک نیوز پر چل رہی سنوائی کے دوران 2018 میں کیمبرج اینالٹیکا کے پرانے ملازم کرسٹوفر وائلی نے خلاصہ کیا تھا کہ کیمبرج اینالٹیکا ٹرمپ کے علاوہ کانگریس اور بی جے پی کی بھی الیکشن میں مدد کر چکی ہے ۔ یہ ان رائے دہندگان کو اپنی کلائنٹ پارٹی کے لئے ہموار کرتی ہے جو کسی بھی پارٹی کے ووٹر نہیں ہوتے ۔ حق پوسٹ کے ایڈیٹر انچیف امن سیٹھی کے مطابق 2019 الیکشن کے مدنظر بھگوا جماعت نے انتخابی ماحول کو اپنے حق میں ہموار کرنے کے لئے بی جے پی نے ایسوسی ایشن بلین مائنڈ (اے بی ایم) کے نام سے تنظیم کھڑی کی تھی ۔ اس کی نگرانی سیدھے امت شاہ کر رہے تھے یا یہ کہئیے کہ اے بی ایم شاہ کی نجی صلاح کار اکائی کے طور پر کام کر رہی تھی ۔ بی جے پی کے کارکنان سے بھی اسے مخفی رکھا گیا تھا ۔
حق پوسٹ کی رپورٹ کے مطابق اے بی ایم سوشل میڈیا پر جھوٹ پھیلانے، چرچا کرانے کا کام کرتی تھی ۔ یہ فیس بُک پر الگ الگ ناموں سے پیج چلاتے تھے ۔ جن میں جھوٹی خبریں شیئر کی جاتی تھیں ۔ ان خبروں کو دوسرے لوگ آگے شیئر کرتے تھے ۔ کئی خبریں اخبار میں چھپوا کر اس کی کٹنگ پوسٹ کی جاتی تھی ۔ اے بی ایم کی ٹیم میں 160 ملازم شامل تھے ۔ اس کا فارمیٹ ایسا رکھا گیا تھا کہ سوشل میڈیا سے جڑے لوگوں کو لگے کہ یہ نریندر مودی کو چاہنے والے کسی شخص کی پوسٹ ہے ۔ یہ تنظیم "میں بھی چوکیدار، بھارت پازیٹو، بھارت کے من کی بات، نیشن ود نمو” جیسی مہم کی روپ ریکھا تیار کرتی، اس کے لئے مواد فراہم کرتی، میڈیا اور سوشل میڈیا میں پر اسے پھیلانے کی کوشش کرتی تھی ۔ اس کا مقصد نریندر مودی کو ہمیشہ فوکس میں رکھنا تھا ۔ کرناٹک الیکشن سے پہلے فیس بُک پر کئی پیج رجسٹرڈ کئے گئے جن کے نام میڈیا ہاوس سے ملتے جلتے تھے جیسے بنگلورو مرر، بنگلورو ٹائمز وغیرہ ۔ تاکہ ان پر پوسٹ کی گئی خبروں پر لوگ آسانی سے بھروسہ کر لیں ۔
بہرحال بھارت کثیر لسانی، کثیر تہذیبی اور کثیر عقائد والا ملک ہے ۔ اس کے مزاج میں یکجہتی، رواداری ہمدردی اور ایک دوسرے کے لئے مان سمان پایا جاتا ہے ۔ ملک کے آئین میں بھی سب کو برابری کا درجہ دیا گیا ہے ۔ مگر یہاں سماجی و اقتصادی نابرابری اپنی انتہا پر ہے، کمزور طبقات کو با حیثیت لوگ انسان تک سمجھنا گوارہ نہیں کرتے ۔ وسائل کی تقسیم کے معاملہ میں حالات اور خراب ہیں ۔ ریلائنس کے مکیش امبانی کی یومیہ آمدنی 4.5 ملین ڈالر ہے مگر عام آدمی کو روزانہ450 روپے بھی نہیں مل پاتے ہیں ۔ ملک کی اسی فیصد دولت پر بیس فیصد کا قبضہ ہے ۔ اس کے نتیجہ میں تیس فیصد سے زیادہ آبادی سطح افلاس سے نیچے زندگی گزار رہی ہے ۔ نابرابری، ناانصافی، بے ایمانی، روزگار، تعلیم، صحت، مہنگائی، معاشی بدحالی اور کارپوریٹ کی اجتماعی لوٹ پر سوالوں سے بچنے کے لئے، سیاست دانوں نے جان بوجھ کر عوام کو زبان، ذات، ریزرویشن، علاقہ اور مذہب میں الجھایا ۔ مگر یہ سلسلہ یہاں نہیں رکا بلکہ عام آدمی کو سوال کرنے سے روکنے کے لئے نقلی راشٹرواد کا مفروضہ گڑھا گیا ۔ جس میں ہندوتوا کی بالادستی، مسلمان اور دلتوں سے نفرت شامل تھی ۔
اس صورتحال نے مسلمانوں کو اقتدار کی اڑتی چڑیا کو پکڑنے کا چارا بنا دیا ۔ کوئی ان کی جھوٹی ہمدردی کے سہارے اقتدار کی سیڑھی چڑھنا چاہتا ہے ۔ تو کوئی انہیں غدار، ملک کی تقسیم کا ذمہ دار، دہشت گرد، گائے کا قاتل، زیادہ بچے پیدا کرنے والا بتا کر، ان کے خلاف نفرت پھیلا کر اقتدار میں بنا رہنا چاہتا ہے ۔ جبکہ سچائی بالکل مختلف ہے، گاندھی، نہرو، پٹیل کی برٹش حکومت کے درمیان ہوئی خطو کتابت، میٹنگوں کی روداد اور سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ کی کتاب سے واضح ہوتا ہے کہ تقسیم کے لئے مسلمان نہیں بلکہ یہ حضرات ذمہ دار تھے ۔ مسلمانوں نے ملک کی حفاظت کے لئے ہمیشہ قربانیاں دی ہیں کبھی کسی بھی مسلمان پر غداری کا الزام نہیں لگا ۔ فرقہ وارانہ نفرت کی وجہ سے دنیا میں ملک کی ساکھ کو دھکا لگا ہے ۔ سیاست دانوں کے نفرتی ایجنڈہ نے بزرگوں کی کمائی ہوئی عزت کو خاک میں ملا دیا ہے ۔ بزرگوں نے اس ملک میں یکجہتی، رواداری، ہمدردی اور اپنائیت کو فروغ دیا تھا ۔ اس کے سبب ہی انیکتا میں ایکتا کے لئے دنیا بھر میں بھارت کی مثال دی جاتی تھی ۔ اب دنیا میں بھارت کی جو تصویر ابھر رہی ہے وہ اس سے مختلف ہے ۔ گودی میڈیا بغیر یہ سوچے کہ اس کا آنے والی نسل پر کیا اثر ہوگا نفرت پھیلانے کے کاروبار میں لگا ہے ۔ جس میں برسراقتدار جماعت کی سرپرستی میں روزافزوں اضافہ ہو رہا ہے ۔ سماج میں نفرت کا زہر گھول کر خوشی اور خوشحالی لانے کا دعویٰ نعرہ تو ہو سکتا ہے حقیقت نہیں ۔
Comments are closed.