صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات
فہیم اختر ندوی
السلام علیکم
ہم طاقت کی پوجا نہیں کرتے، طاقت بنتے اور اپناتے ہیں۔۔ طاقت بناتے اور بڑھاتے ہیں، اور طاقت کے وسائل اختیار کرتے ہیں۔۔ جی ہاں۔۔ ضعیفی جرم ہوتی ہے، اور جرم سزا لاتا ہے۔۔ طاقت کی سنی اور مانی جاتی ہے، طاقت کی پسند اور زبان اپنائی جاتی ہے، اور طاقت اپنی حصہ داری مانگتی نہیں، بانٹتی ہے۔۔۔
یہی دستور دنیا ہے، یہی حکم دین ہے، یہی لوگ مانتے ہیں، اور یہی زبان سمجھتے ہیں۔۔ تاریخ یہی بتاتی ہے، زمانہ یہی دوہراتا ہے، اور آج بھی یہی مشاہدہ اور واقعہ ہے۔۔۔
ہاں۔۔ طاقت کا چہرہ بدلتا رہتا ہے، کبھی قوت بازو طاقت تھی، آج بھی ہے۔۔ ذہانت اور ڈپلومیسی طاقت تھی، آج بھی ہے۔۔ لیکن اب ٹکنالوجی طاقت ہے، صنعت اور مہارت طاقت ہے، پیشکش کا انداز اور وقت کا مزاج طاقت ہے۔۔ اور سب سے بڑی طاقت سیاسی تدبر اور وزن ہے۔۔۔
سیاسی قلم ہی قانون لکھتا ہے، پالیسی بناتا ہے، ادارے قائم کرتا اور افراد مقرر کرتا ہے۔۔ یہی فیصلے کرتا اور نظام سنبھالتا ہے۔۔ اور اپنی پسند تھوپتا اور منصوبے نافذ کرتا ہے۔۔ یہ ہمیشہ ہوا، آج بھی ہو رہا ہے۔۔۔۔ تو اس پر آنسو تو بہائے جاسکتے ہیں، ماتم نہیں ہوسکتے۔۔ حسرت تو کی جاسکتی ہے، نفرت نہیں پالی جاسکتی ہے۔۔۔۔ اور سیاسی قوت سے محروم قوم ان کو درخواست پیش کرتی اور میمورنڈم دیتی ہے، ضرورت کی بھیک مانگتی اور انصاف کےلئے دامن پھیلاتی ہے۔۔ پھر اسے ہی کامیابی اور عزت سمجھ لیتی ہے۔۔۔
سیاسی طاقت تدبر اور اتحاد سے آتی ہے، سب کو جوڑنے اور قیادت سنبھالنے سے ملتی ہے۔۔ اور عوامی پکڑ اور خدمت سے مضبوط ہوتی ہے۔۔ کنارہ کشی اور ناواقفیت اسے کمزور کرتی ہے، بھکراؤ اور چھوٹے مفاد میں یہ ناپید ہوجاتی ہے۔۔۔
نبی مکرم ﷺ نے مدینہ میں سیاسی استحکام بنایا، اور سب کو جوڑ کر قیادت سنبھالا تھا۔۔ سیاسی تدبر برتا اور وقت کے وسائل اپنایا تھا۔۔ یہی کام خلفائے راشدین نے بھی کیا تھا۔۔ تب ہی ان کا قانون چلا، ادارہ بنا، نظام چھایا اور منصوبہ نافذ ہوا تھا۔۔ تب امن وامان آیا، اور انسانیت کا پیغام پہنچا تھا۔۔۔
آج تو سب چھوٹتے اور یکے بعد دیگرے ٹوٹتے جارہے ہیں۔۔ کہ سیاست کی قوت سے ہم نے دوری بنالی، اور دین کے کام سے اس کی وابستگی ہٹالی۔۔ تو ضعیفی مقدر بنی اور محرومی بڑھتی گئی۔۔۔ تو اب ہم بساط سیاست پر کمزور ہیں، جہاں دوسروں کی پسند پر زندگی، اور ان کے مقاصد کی خدمت مطلوب ہے۔۔۔
سیاسی سوجھ، عوامی اتحاد و شعور، ملی مفاد کی برتری اور اپنی قیادت کی مضبوطی طاقت پیدا کرے گی۔۔ اور یہی طاقت سنی اور مانی جائے گی۔۔ تو اسے بھی دین کا حصہ سمجھئے، اس کی باتیں کیجئے اور بتائیے، اس کے افراد بنائیے اور اس پر محنت لگائیے۔۔ یہ محنت نتیجے لائے گی۔
خدا حافظ
28 اگست 2020
8 محرم 1442
Comments are closed.