صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات
فہیم اختر ندوی
السلام علیکم
سیاست کی بات آتی ہے تو انتشار کی تصویر بھی آجاتی ہے۔۔ اور عین وقت پر زیادہ پیدا ہوجاتی ہے۔۔ اور اس کے نتائج ملت کے مستقبل پر اثرانداز ہوتے چلے جاتے ہیں۔۔ ادھر یہ رفتار تیز ہے، اور ملت کی زبوں حالی تشویشناک ہے۔۔۔
تو کیا انتشار صرف ملت میں ہے، اور مضبوط ہونے والے متحد ہیں؟ ایسا تو نہیں ہے، اور نہ ممکن ہوسکتا ہے، کیونکہ اختلاف کی باتیں وہاں زیادہ ہیں۔۔ دراصل اتحاد بنانا ایک فن ہے، اور وہ مشترکہ مفاد پر ہوتا ہے، اختلافی باتوں کو سمجھ لیا اور چھوڑدیا جاتا ہے۔۔ اور متعین فائدوں پر اتفاق کرلیا جاتا ہے۔۔ پھر وہ شعوری طور پر آگے بڑھتے ہیں، اور کسی بہکاوے اور بہلاوے میں نہیں پھنستے ہیں۔۔۔
تو یہی سیاسی تدبر ہے۔۔ قرآن نے اس اصول کو سراہا ہے، اختلاف میں سچائی بتادی، اور کہا کہ اختلاف کا فیصلہ اگلی زندگی میں ہوگا، اور مشترک باتوں یعنی کلمہ سواء پر مل جل کر کام کیاجائے۔۔ رسول عربی ﷺ کی صلحیں مشترکہ باتوں پر اتفاق ہی تھا، مکہ کے مشرکوں، مدینہ کے یہودیوں اور اطراف کے قبیلوں کے ساتھ متفقہ باتوں پر ہی تو معاہدے ہوئے تھے۔۔۔
پھر اسی اتفاق سے کام کا ماحول سازگار ہوتا ہے، طاقت مضبوط ہوتی ہے، اپنی خوبی سامنے آتی ہے، اور دعوت دین انجام پاتی ہے۔۔۔ تو اسی سے دنیا خوشگوار ہوتی ہے، اور دین کی بات عام ہوتی ہے۔۔۔ نہیں تو زندگی دفاع میں گذرتی ہے، طاقت کمزور ہوتی رہتی ہے، اور شور والزام میں اصل انسانی پیغام بدنام کردیا جاتا ہے۔۔۔
تو یہی ابھی ہورہا ہے، یہی کرکے ملت کو کمزور بنایا گیا، اسی ماحول میں اسلام کی حسین تصویر چھپائی اور زندگی دشوار بنائی جاتی رہی، کہ اصل خوف پیغام اسلام کی خوبی عام ہونے سے ہے، اور اس کی طرف لوگوں کو جانے سے روکنے کی فکر ہے۔۔۔
تو وقت سے پہلے کا شعور وقت پر عمل میں نظر آنا ہے، تب ہی عزت کی زندگی مل سکتی اور خوبی اسلام کا اظہار ہوسکتا ہے۔۔ لیکن سیاسی قوت کے فیصلہ کے وقت انتشار عروج پر ہوتا ہے، اور دلائل مضبوط پیش کئے جاتے ہیں۔۔ پر وہ دلائل کیا جو اپنی قوت کمزور اور اپنی حالت تشویشناک بناتے جائیں ۔۔ یہی تو بہلاوے اور بہکاوے ہیں، یہی تو ہر ایسے موقع پر پیش آتے رہے اور آرہے ہیں۔۔۔
تو اتفاق بنانے کا فن اپنانا ہوگا، مشترکہ مفاد پر جمنا ہوگا، ملی وجود کو ترجیح دینا ہوگا، اختلاف کی باتوں کو سمجھ کر آگے بڑھنا ہوگا۔۔ یاد رکھنا ہوگا کہ ہمارے کن اقدامات نے خود کو کمزور اور دوسروں کو مضبوط بنایا، اور آج ملت بدحالی میں اور دوسرے بلندیوں پر ہیں۔۔۔
سیاسی تدبر سے سیاسی قوت ملے گی، اور یہی قوت دنیا کو بہتر اور فریضہ دعوت کی ادائیگی ممکن بنائے گی۔۔۔ تو اس موقع کو چھوٹے مفاد پر قربان مت کیجئے، بہکاوے اور بہلاوے کو پہچان لیجئے۔۔ ہماری طاقت ہی ہماری طاقت ہے، بقیہ صرف سوال اور درخواست ہے، اور وہ اپنی کمزوری اور غیروں کی مضبوطی ہے۔
خدا حافظ
29 اگست 2020
9 محرم 1442
Comments are closed.