ہماری حکومت اور اولاد کا درد

ہماری حکومت اور اولاد کا درد
ـــــــــــ
از ـ محمود احمد خاں دریابادی
پتہ نہیں ہماری حکومت انسانی جان کے سلسلے میں اتنی ظالم اور بے حس کیوں ہے ـ اُسے عام لوگوں کی پریشانی کا بالکل خیال نہیں ہے، حکومت کا یہ بے رحم چہرہ ہمیں نوٹ بندی میں نظر آیا تھا، آگے جی ایس ٹی اور سی اے اے کے موقع پر بھی اور اچانک لاک ڈاون کا شکار لاکھوں مہاجر مزدوروں کی بے چارگی کے وقت میں بھی ، آج کل بہار الکشن اور بچوں کے امتحانات کے سلسلے میں بھی حکومت لاکھوں انسانوں کی جان سے کھیلنے کا من بنا چکی ہے ـ
بہار الیکشن کو وہاں کی ساری اپوزیشن پارٹیاں آگے بڑھانے کا مطالبہ کررہی ہیں، حکومت میں شامل ” ماہر موسمیات ” پاسوان بھی یہی بات کہہ رہے ہیں مگر حکومت ہے کہ الیکشن کرانے پر مصر ہے ـ
ہندوستان میں کرونا کا پہلا مریض جنوری میں دریافت ہوا تھا اُس کے بعد مریضوں کی تعداد اسی ہزار تک پہونچنے میں پانچ مہینے لگے تھے، آج کل ایک دن میں کرونا کے تقریبا اسی ہزار مریض سامنے آرہے ہیں، آج یا کل میں ہندوستان مریضوں کی تعداد میں دوسرے نمبر پر ہوجائے گا، اموات کے سلسلے میں بھی ابھی ہم تیسرے نمبر پر ہیں آگے اللہ مالک ہے ـ
ایسے ہولناک حالات میں حکومت محض اپنی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے تقریبا پچیس لاکھ طلباء کی جان خطرے میں ڈالنے جارہی ہے ـ
ایسے میں اُن بچوں کے والدین جنھیں امتحان میں شرکت پر مجبور کیاجارہا ہے عجیب کشمکش میں مبتلا ہیں اگر بچہ امتحان میں شرکت کرے تو جان خطرے میں پڑتی ہے اور نہ کرے تو بچے کا نہ صرف سال برباد ہوگا بلکہ بچے کے پچھلے سالہا سال کےتعلیمی ریکارڈ بھی داغ دار ہوجائیں گے ـ
کئی ماہرین تعلیم متبادل تجاویز پیش کررہے ہیں، خود بچوں نے بھی کئی تجویزیں حکومت کے سامنے پیش کی ہیں، مگر وہی مرغے کی ایک ٹانگ ……… !
امتحان ملتوی نہ کرنے کے سلسلے میں حکومت کا سب سے بڑا بہانہ یہ ہے کہ اگر اس سال امتحان نہ ہوئے تو آئندہ سال بچوں کی تعداد دوگنی ہوجائے گی، اتنے بچوں کے امتحانات کا نظم اور ڈگری ملنے کے بعد اچانک دوگنی نوجوانوں کی تعداد کے روز گار یا آئندہ تعلیم جاری رکھنے والے بچوں جن بھی تعداد دوگنی ہوگی کے لئے بنیادی سہولیات، اسکول، کلاس روم، سائنس لیب، ٹیچرز وغیرہ کہاں سے آئیں گے ـ
حکومت سے پوچھنا چاہیئے کہ کرونا صرف ہندوستان میں نہیں ہے دوسرے ممالک بھی بڑے پیمانے پر اس کا شکار ہیں ـ ………..ہماری حکومت آجکل امریکہ سے شدید متاثر ہے مگر طلبا کے سلسلے میں امریکہ نے جو اقدام کیا ہے پتہ نہیں کیوں حکومت اُس کو نہیں اپنارہی ہے ؟ …………. سب جانتے ہیں کہ یہ تعلیمی سال آدھہ تو کرونا نے ضایع کردیا ہے اگر بچوں کی تعلیم خطرے میں ڈال کر اس مہینے سے تعلیم سلسلہ آگے شروع بھی کردیا جائے تو بھی بقیہ چند مہینوں میں پورے سال کی تعلیم دینا مشکل ہے ـ ……… اسی کے پیش نظر امریکہ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ موجودہ تعلیمی سال کو ” زیرو ائر ” قرار دیدیا جائے ـ مطلب یہ کہ اس سال اسکولوں میں کوئی تعلیم نہیں ہوگی، جو بچہ جس درجے میں ہے آئندہ سال بھی اسی درجے میں رہے گا، مثلا جو نویں میں ہے وہ آئندہ بھی نویں میں رہے گا، جو بارہویں میں ہے اس کی تعلیم و امتحانات نہیں ہونگے وہ آئندہ بارہویں میں ہی رہے گا،جو گریجویش کے فائنل میں ہے وہ بھی اسی میں رہے گا ـ ……….. نئے سال میں تعلمیی سلسلہ وہیں سے شروع ہوگا جہاں پہلے ختم ہواتھا ـ اس طرح اگلی بار فارغین کی بھی تعداد دوگنی نہیں ہوگی اور تعلیم بھی جلد بازی کے بجائے پوری محنت اور اطمینان سے ہوسکےگی ـ
حکومت کو اگر بچوں سے ہمدردی ہوتی تو اور بھی کئی قابل عمل تجاویز سامنے آئی ہیں ان پر غور کرسکتی تھی ……….. مگر کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ …………… !
اولاد والے ہی اولاد کا درد سمجھ سکتے ہیں ـ
Comments are closed.