شہادت ہے مومن کی شان!

شہادت ہے مومن کی شان

اسلامی کیلنڈر کا پہلا مہینہ محرم الحرام ہے، اسی ماہ سے ہجری سال کا آغاز ہوتا ہے، دنیا کے تمام اہل ایمان عربی مہینے کے اعتبار سے ہی اپنے دینی و ملی فرائض یعنی حج، روزہ، زکوة، عیدالفطر، عیدالاضحٰی اور قربانی وغیرہ کی ادائیگی کا اہتمام کرکے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کمانے اور دونوں جہان میں کامیابی و کامرانی حاصل کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں
جب بھی محرم الحرام کا مبارک مہینہ آتا ہے تو اس میں واقع ہونے والے تمام واقعات و حادثات کی یادیں تازہ ہو جاتی ہیں، مسجدوں کے محراب اور محفلوں کے وعظ میں بھی انہیں کا تذکرہ ہوتا ہے
اس ماہ مبارک میں رونما ہونے والے اہم ترین واقعات میں سے ایک بہت ہی اہم واقعہ، نواسہ رسول، خاتون جنت حضرت فاطمة الزهراء رضی اللہ تعالٰی عنہا کے پھول، علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے لخت جگر و نورنظر اور اھل جنت کے سردار سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت بھی ہے
سنہ ٦١ ہجری دس محرم الحرام کو میدان کربلا میں حق و باطل کے مابین ایک عظیم معرکہ آرائی ہوئی جس میں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ، بے سرو سامانی کے عالم میں جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر دین اسلام کی بقا اور حفاظت کی خاطر وقت کے ظالموں کے خلاف مقابلہ آرائی کرتے ہوئے جام شہادت نوش فرمایا اور ہمیشہ کیلئے زندہ و جاوید ہوگئے لہذا جب بھی محرم کا مہینہ اور اس کی دسویں تاریخ آتی ہے تو آپ کی عظیم شہادت کا واقعہ ہر ایمان والے کے قلب و جگر میں تروتازہ ہوجاتا ہے
بقول شاعر۔جو بھی شہید حق ہیں وہ مرتے نہیں کبھی میراکہانہیں ہے یہ رب کا کلام ہے
دین اسلام میں مقام شہادت کو غیر معمولی اہمیت اور بہت ہی اعلٰی مقام حاصل ہے
اللہ سبحانہ تعالٰی کا ارشاد ہے "ائے ایمان والوں! نماز اور صبر کے ذریعہ مدد طلب کرو بیشک اللہ تعالٰی صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں قتل(شہید) کئے گئے انہیں مردہ مت کہو بلکہ وہ زندہ ہیں لیکن تم نہیں سمجھتے” البقرة،153،154
سورہ آل عمران میں شہداء کرام کے متعلق اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ” جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کئے گئے انہیں ہرگز مردہ مت سمجھو! بلکہ وہ زندہ ہیں اپنے رب کے پاس روزیاں دیئے جاتے ہیں، اللہ تعالٰی نے اپنا فضل جو انہیں دے رکھا ہے اس سے وہ بہت خوش ہیں اور خوشیاں منا رہے ہیں ان لوگوں کے بابت جو ان سے نہیں ملیں ان کے پیچھے ہیں اس حال میں کہ نہ ان پر کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے، وہ اللہ کی نعمت اور فضل سے خوش ہیں اور اس سے بھی کہ اللہ تعالٰی ایمان والوں کے اجر کو برباد نہیں کرتا۔ 169 تا 171
شہداء کے زندگی یقینا حقیقی ہے لیکن اہل دنیا کو اس کا شعور نہیں
نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے کہ شہداء کی روحیں سبز پرندوں کے جوف یا سینوں میں داخل کردی جاتی ہیں اور وہ جنت میں کھاتی، پھرتی اور جنت کی نعمتوں سے متمتع ہوتی ہیں۔(صحیح مسلم)
شہداء احد نے اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں عرض کیا کہ ہمارے وہ مسلمان بھائی جو دنیا میں زندہ ہیں، انہیں ہمارے حالات اور پر مسرت زندگی سے کوئی مطلع کرنے والا ہے تاکہ وہ جنگ و جدل سے اعراض نہ کریں؟ اللہ تعالٰی نے فرمایا "میں تمہاری بات ان تک پہنچا دیتا ہوں”
اسی سلسلے میں اللہ تعالٰی نے یہ آیات نازل فرمائیں
سورة النساء میں اللہ تبارک و تعالٰی نے شہدائے کرام کو ان لوگوں کے ساتھ بیان کیا ہے جن پر اللہ تعالٰی اپنا خاص فضل و کرم اور انعام و اکرام فرمایا انہیں صراط مستقیم اور سیدھے راستے کامعیار و کسوٹی قرار دیا ہے
چنانچہ ارشاد خداوندی ہے کہ” جو کوئی اللہ تعالٰی اور اس کے رسول کی اطاعت کرتا ہے پس وہ قیامت کے دن ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالٰی نے اپنا خاص انعام فرمایا ہے جو کہ انبیاء، صدیقین، شہداء اورصالحین ہیں اور یہ کتنے بہترین ساتھی ہیں” 69
صحیح مسلم کی روایت ہے کہ کوئی مرنے والی جان جس کو اللہ کے یہاں اچھا مقام حاصل ہے، وہ دنیا میں لوٹنا پسند نہیں کرتی، البتہ شہید دنیا میں دوبارہ آنا پسند کرتا ہے تاکہ وہ دوبارہ اللہ کی راہ میں قتل کیا جائے، یہ آرزو وہ اس لیئے کرتا ہے کہ وہ شہادت کی فضیلت کا مشاہدہ کرلیتا ہے(مسلم)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا” تجھے معلوم ہے کہ اللہ نے تیرے باپ کو زندہ کیا اور کہا کہ مجھ سے اپنی کسی آرزو کا اظہارکر(تاکہ میں اسے پورا کروں) تیرے باپ نے جواب دیا کہ میری تو صرف یہی آرزو ہے کہ مجھے دوبارہ دنیا میں بھیج دیا جائے تاکہ دوبارہ تیری راہ میں مارا جاؤں، اللہ تعالٰی نے فرمایا نے فرمایا، یہ تو ممکن نہیں ہے اس لئے کہ میرا فیصلہ ہے یہاں آنے کے بعد کوئی دنیا میں واپس نہیں جاسکتا،(مسند احمد)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا” جو شخص بھی اللہ کی راہ میں زخمی ہو، اور اللہ ہی جانتا ہے کہ کون اس کی راہ میں زخمی ہوتا ہے، وہ قیامت کے دن اس حالت میں آئے گا کہ اس کے زخم سے خون کا فوارہ بہہ رہا ہوگا، رنگ خون کا اور خوشبو کستوری کی(بخاری)
ایک اور حدیث میں حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ” شہید کو راہ خدا میں قتل کی اتنی ہی تکلیف بھی نہیں ہوتی جتنی کہ تم میں سے کسی کو چیونٹی کاٹنے سے ہوتی ہے(ترمذی)
حضرت ابوھریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا” قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، میری یہ آرزو اور تمنا ہے کہ میں اللہ تعالٰی کی راہ میں قتل(شہید)کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں، پھر شہید کیا جاؤں، پھر زندہ کیا جاؤں اور پھر شہید کیا جاؤں”( بخاری)
علاوہ ازیں فضائل شہادت کے باب میں اور بھی متعدد آیات و روایات بکثرت موجود ہیں جن کا احاطہ اس جگہ ممکن نہیں
عہد نبوی میں تمام اہل ایمان کے قلب و جگر میں جذبہ شہادت موجزن تھا جب بھی کوئی ایسا موقع میسر آتا تو مرد، عورت، بچے، بوڑھے اور نوجوان جام شہادت نوش فرمانے اور مقام شہادت کو حاصل کرنے کیلئے پیش پیش رہتے اور زبان حال سے یہی کہتے تھے
کہ جان دی دی ہوئی اس کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا
غزوہ بدر کے موقع پر دو نو عمر بچے حضرت معاذ اور معوذ رضی اللہ عنہما کا مشہور واقعہ بھی کتب احادیث میں موجود ہے
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ مقام شہادت کے حصول کیلئے ہمیشہ دعائیں کیا کرتے تھے لہذا آپ کی دعا قبول ہوئی اور آپ بھی شہید ہوئے
الغرض ہر ایک صحابی و صحابیات کا دل شوق شہادت سے معمور تھا
یہی وجہ ہے کہ صرف تیئیس سال کی قلیل مدت میں آپ علیہ السلام نے ایک ایسا عظیم انقلاب برپا کر دیا کہ،پورے عالم عرب کی کایا پلٹ گئی، وقت کی عظیم سپر پاور طاقتیں ان حضرات کے سامنے سر نگوں ہوگئیں، پورے جزیرة العرب میں خدا کا دین غالب ہوگیا اور ہر سمت اسلام کا پرچم لہرانے لگا
وہ معزز تھے زمانے میں مسلماں ہوکر
اور ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہوکر
لیکن آج موجودہ وقت میں دنیاداری، دین بیزاری، ایمان و یقین کی خرابی، اور شوق شہادت کو فراموش کر دینے کی وجہ سے ہماری حالت بد سے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے، اہل ایمان کیلئے دین اسلام پر چلنا اور خدائی احکام کی پیروی کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے، شعائر اسلام پر پابندیاں عائد کی جارہی ہے، ہمارے بچوں اور آنے والی نسلوں سے ایمان و یقین کی دولت کو چھیننے کے مشورے ہورہے ہیں
لہذا ایک بار پھر ہمیں اپنے دین و شریعت کی تحفظ کی خاطر میدان عمل میں آکر باطل کا مقابل کرنا ہوگا اپنے اندر شوق شہادت پیدا کرنا ہوگا، جذبہ شہادت سے سرشار ہو کر وقت کے ظالموں کے بڑھتے قدم کو روکنا ہوگا اسی میں ہماری کامیابی اور نجات کا ذریعہ ہے
شہادت ایک عظیم رتبہ اور بہت بڑا مقام ہے جو قسمت والوں کو ہی اللہ کے فضل و کرم سے ملتا ہے، وہی اس نعمت عظمی کو حاصل کرتا ہے جس مقدر میں ہمیشہ کی کامیابی لکھی ہوتی ہے، صاحب ایمان کی حقیقی ودائمی کامیابی یہی ہے کہ وہ اللہ کے دین کی سربلندی کی خاطر شہید کردیا جائے لہذا ایک مومن کامل کی سب سے بڑی خواہش اور دلی تمنا یہی ہونی چاہیئے کہ وہ راہ خدا میں مقام شہادت سے سرفراز ہو اور حیات اخروی میں دائمی کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو
خداوند قدوس کی بارگاہ میں دعا ہے کہ رب کریم ہمیں بھی شہداء اور صالحین کی صفوں میں شامل فرماکر فلاح دارین نصیب فرمائے
آمین یارب العالمین
شہادت ہےمطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
دوبعالم سےکرتی ہے بیگانہ دل کو
عجب چیز ہے لذت آشنائی

محمد شمس عالم قاسمی

Comments are closed.