صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات
فہیم اختر ندوی
السلام علیکم
سیاست اجتماعیت ہے انفرادیت نہیں، امانت ہے اختیار نہیں، ذمہ داری ہے منفعت نہیں۔۔ تو سیاست اسے ہی اپنانی ہے جو ذات پر سماج کو ترجیح دے، اختیارات کو امانت سمجھے، اور نفع اٹھانے نہیں ذمہ داری انجام دینے آئے۔۔۔
یہی سیاست انسانیت کو راحت پہنچاتی ہے، اور یہی عوام کی چاہت اور ضرورت ہوتی ہے۔۔ اچھی سیاست یہی ہوا کی ہے، اور ایسوں کو ہی دلوں میں بسایا، سروں پر اٹھایا اور خوابوں میں سجایا گیا ہے۔۔ تاریخ میں ایسی سیاست بہت ہوئی ہے، اور وہی شاندار، تابدار اور جاندار رہی ہے۔۔۔ یہ سیاست جس نام سے آئے اچھی ہے، اور اس کے سوا سیاست جو نام بھی اپنائے’ محض بازیگری ہے۔۔۔
تو سیاست اب منفعت، انفرادی مفاد، اور اپنی پسند بنی ہوئی ہے۔۔ تو انسانیت بدحال، مصیبتوں میں نڈھال اور مسائل کے جنجال میں آگئی ہے۔۔۔ یہی سیاست اب ہر جگہ ہے، اور مقابلہ میں بھی یہی سیاست ہے۔۔ سیاست کے نئے ناموں اور حقوق کے نئے عنوانوں میں بھی حقیقت نہیں بدلی، اور انسانی بدحالی بدتر ہوتی گئی۔۔ پھر نسلیں یہی دیکھتی اور سیکھتی گئیں، اور سیاسی تجارت کی منڈی چند ہاتھوں اور خاندانوں کی نفع خوری بنتی گئی۔۔۔
سیاست اس کےلئے نہیں تھی۔۔ وہ انسانیت کی خدمت، ذمہ داری کی ادائیگی اور امانت کی پابندی تھی۔۔ رسول اکرم ﷺ نے ابو ذر غفاریؓ سے کہا تھا۔۔ کہ کبھی کوئی ذمہ داری مت قبول کرنا کہ تمہارے اندر وہ صلاحیت نہیں ہے۔۔ فرمایا تھا کہ۔۔ ہم کسی لالچی کو عہدہ نہیں سونپتے۔۔ عمر فاروقؓ نے تقرری کے وقت نجی سامانوں کی فہرست بنوائی، اور عہدہ سے واپسی کے وقت زائد سامانوں کو واپس سرکاری خزانہ میں ڈال دیا۔۔ آقائے مدنی ﷺ نے سمجھایا کہ۔۔ عہدہ پر رہتے ملنے والا تحفہ سرکاری سامان ہے، کہ اپنے گھر بیٹھے وہ تحفہ تو نہیں آتا۔۔ اور ۔۔ یہ بھی کہ عہدیدار سے اس کے ہر ماتحت کا حساب لیا جائے گا۔۔۔
تو سیاست ایک بڑی خدمت ہے، سلیمان پیغمبر نے یہ چاہت کی تھی، یوسف نبی نے یہ خدمت مانگی تھی، نبی دوجہاں ﷺ نے یہ ذمہ داری نبھائی تھی، اور آقا کے چار یار نے یہ راہ اپنائی تھی۔۔ پھر ان سب نے انسانیت کو راحت پہنچائی تھی، اور ذاتی منفعت کو اجتماعیت پر ترجیح نہیں دی تھی۔۔۔
آج بھی تو انسانیت کی یہی ضرورت ہے، اور اسی میں تو انسانی مسائل کا حل ہے۔۔ تو یہ کون بتائے اور برتے گا، کون اپنائے اور دکھائے گا۔۔ کیا یہ ممکن نہیں ہے، یا اس کی ضرورت نہیں ہے؟ پھر جمہوری قبا میں دیو استبداد کیوں، یعنی خوبصورت ناموں میں ظلم کی شدت کیوں، اور جھوٹے نگوں کی ریزہ کاری کس لئے؟
تو سماج کی خدمت بڑی نیکی ہے، اجتماعیت کی فکر اور جدوجہد اللہ کو بہت محبوب ہے، اس راہ کی ہر کاوش مقدس عمل اور دینی مشن ہے۔۔ لیکن اجتماعیت پر ذاتی اور خاندانی منفعت کو ترجیح نہیں ہوگی، خدمت اور ذمہ داری تجارت نہیں بنے گی، عہدہ اور خزانہ امانت ہی رہے گی۔۔۔ پھر اللہ کی مدد ساتھ ہوگی، کامیابی ہمرکاب ہوگی، انسانیت خوشحال ہوگی، دل کو سکون اور رب کی رضا ملے گی۔۔۔ اور یہی تو مطلوب ہے۔
تو اسی فکر و جذبہ سے آگے بڑھتے ہیں، ذہن بناتے اور راہ دکھاتے ہیں، اور اچھے نمونے سامنے لاتے ہیں۔۔ اللہ ہمیں توفیق دے۔
خدا حافظ
31 اگست 2020
11 محرم 1442
Comments are closed.