ایک نہایت ضروری کام۔۔۔۔  ایم ودود ساجد

ایک نہایت ضروری کام۔۔۔۔

ایم ودود ساجد

 

ممکن ہے کہ زیر نظر سطور بظاہر دلکشی نہ رکھتی ہوں لیکن بین السطور میں بہت کچھ مل سکتا ہے۔۔۔جس دور میں ہم اور آپ جی رہے ہیں اس میں ایسی خبروں سے واقفیت بہت ضروری ہے۔۔۔”ہمارے اخبارات“ مختلف وجوہ سے ایسی خبروں تک نہیں پہنچ پاتے۔۔۔31 اگست 2020 کے انڈین ایکسپریس نے جو تفصیلات شائع کی ہیں ان کا مفہوم یہ ہے ۔۔۔۔

 

"…. قومی حقوق انسانی کمیشن (این ایچ آر سی) نے گجرات کے چیف سیکریٹری کو نوٹس جاری کرکے کہا ہے کہ سورت کے گاؤں کوسامبا سے تعلق رکھنے والے حقوق انسانی کے علمبردار 39 سالہ وکیل بلال کاغذی کو ایک لاکھ روپیہ معاوضہ دیا جائے۔۔۔۔ بلال کاغذی دلتوں‘آدی باسیوں اور کمزور طبقات کے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے معاملات اٹھاتے رہتے ہیں۔۔۔۔ انہوں نے بہت سے معاملات میں دلتوں پر پولیس مظالم کے خلاف پولیس والوں پر مقدمات بھی درج کرائے ہیں۔۔۔۔”

 

"…. بلال کاغذی کے گاؤں میں جرائم سے وابستہ دو متصادم گروپ‘ اپنا اپنا دبدبہ قائم کرنے کی لڑائی لڑ رہے ہیں۔۔۔ ان میں سے ایک گروپ سے وابستہ کچھ لوگوں کے مقدمات بہ حیثیت وکیل بلال کاغذی لڑ رہے ہیں۔۔۔۔ انہیں 12 اگست 2019 کو قتل کے ارادہ سے کئے جانے والے حملہ کے ایک معاملہ میں ماخوذ کرلیا گیا تھا۔۔۔ دراصل وہ جس گروپ کے پیشہ ور وکیل ہیں اس کے مخالف گروپ سے وابستہ ایک شخص نے پولس سے شکایت کی تھی کہ 12 اگست 2019 کو سات افراد نے اسے جان سے مارنے کی نیت سے اس پر حملہ کیا تھا۔۔۔۔ اس شکایت میں بعد میں بلال کاغذی کا نام بھی جوڑ دیا گیا۔۔۔ ”

 

اب یہاں سے اس قصہ میں ایک دوسرا موڑ آتا ہے…۔سورت سے 1685 کلو میٹر دور تامل ناڈو کے مدورائی میں قائم حقوق انسانی کے رضاکاروں کیلئے قانونی لڑائی لڑنے والی ایک تنظیم HRDA INDIA (ہیومن رائٹس ڈیفینڈرس الرٹ) نے ستمبر 2019 میں این ایچ آر سی کو شکایت ارسال کی۔ اس میں بتایا گیا کہ پولیس نے بلال کاغذی کو محض رقابت کے سبب فرضی طور پر ماخوذ کیا ہے۔اس پر این ایچ آر سی نے نوٹس لیا اور سورت کے ایس ایس پی کو معاملہ کی تحقیقات کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی۔۔۔

 

سورت پولیس نے قومی حقوق انسانی کمیشن کو تحقیقات کے بعد اپنی رپورٹ پیش کردی۔۔۔اس کی رو سے بلال کاغذی حملہ والے دن جائے وقوع پر موجود ہی نہیں تھے بلکہ وہ عیدالاضحی کے موقع پراپنے گھر پر تھے۔۔۔ رپورٹ کے مطابق بلال کاغذی کے خلاف کوئی ٹھوس ثبوت نہیں پایا گیا بلکہ پولیس نے رقابت کے سبب شکایت کنندہ کو سازش کے تحت اس پر آمادہ کرلیا کہ وہ بلال کاغذی کا نام بھی شکایت میں شامل کردے۔۔۔

 

ایس ایس پی کی تحقیقات کے دوران بلال کاغذی نے موقع واردات کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی پیش کی جس میں وہ موجود نہیں ہیں۔۔ انہوں نے خود اپنے گھر پر موجود ہونے کے ثبوت بھی پیش کئے۔۔۔اس کے بعد ایس ایس پی نے پولیس کو ہدایت دی کہ وہ بلال کاغذی کا نام چارج شیٹ سے ہٹاکر نئی چارج شیٹ دائر کرے۔۔۔سورت پولیس کی رپورٹ کی بنیاد پر این ایچ آر سی نے گجرات کے چیف سیکریٹری کو ہدایت جاری کی کہ وہ چار ہفتوں کے اندر اندر بلال کاغذی کو پولیس کے ذریعہ غلط طور پر ماخوذ کئے جانے کی تلافی کے طورپر ایک لاکھ روپیہ ادا کرے۔۔۔

 

میں نے بلال کاغذی کی مدد کرنے والی تنظیم HRDA کے تعلق سے گوگل پرجو تفصیلات پڑھی ہیں ان کے مطابق یہ تنظیم اس طرح کے متعدد معاملات میں فرضی طور پر پھنسائے جانے والے شہریوں کے حق میں لڑائی لڑ رہی ہے۔۔۔وہ صرف تامل ناڈو میں ہی نہیں بلکہ گجرات اور راجستھان میں بھی سرگرم ہے۔۔۔ راجستھان میں ایک صحافی کو ستائے جانے کے خلاف بھی وہ قانونی لڑائی لڑ رہی ہے۔۔۔

 

دہلی میں پچھلے دنوں مشرقی دہلی کے فسادات کے چند متاثرین کا مقدمہ لڑنے والے ایک مسلمان وکیل پر بھی دہلی پولیس نے ایک کیس درج کیا ہے۔۔۔ اس کی تحقیقات اسپیشل سیل کے سپرد کی گئی ہے۔۔۔اسپیشل سیل کی اس وکیل سے پرانی چشمک ہے۔۔۔۔ انہوں نے ملک بھر میں دہشت گردی کے الزامات میں ماخوذ کئی نوجوانوں کو باعزت بری کرایا ہے یا غیر معمولی طور پر ضمانت دلوائی ہے۔۔۔پولیس کے پاس ایسے مسلم وکیلوں اور رضاکاروں کو جو حقوق انسانی کیلئے لڑ رہے ہیں‘ ستانے کا یہ آسان حربہ ہے کہ خود ان کے خلاف ہی معاملہ درج کرلیا جائے۔۔۔۔ یہی نہیں عام شہریوں کو بھی اسی طرح پھنسادیا جاتا ہے اور ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔۔

 

ایسے میں HRDA جیسی درجنوں تنظیموں کی ضرورت ہے۔میں سوچتا ہوں کہ فیس بک اور دوسرے پلیٹ فارموں پر غازیوں کا کردار ادا کرنے والے ہم جیسے بے عمل لوگ کیا ہر شہر میں ایسی تنظیمیں قائم کرکے یہ ضروری کام نہیں کرسکتے جو تامل ناڈو کی راجدھانی چنئی سے 465.5 کلو میٹر اور دہلی سے 2574 کلومیٹر دور مدورائی میں قائم یہ تنظیم کر رہی ہے۔۔۔۔؟ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ اسی تنظیم کی شاخیں قائم کرلی جائیں یا اس کی ممبرشپ قبول کرلی جائے جو ویب سائٹ کے مطابق بالکل مفت ہے۔۔۔ کیا ہم مفت میں بھی اتنا بڑا کام کرنے کو تیار نہیں ہوسکتے۔۔۔۔؟

Comments are closed.