صحابہؓ پر تبرا بازی باعثِ وبال و خسران ہے

ظفر امام

صحابیت ایک خدائی اعزاز ہے، صحابیت ایک یزدانی تمغہ ہے اور صحابیت ایک ربانی تحفہ ہے جو ہرکس و ناکس اور ہر کہہ و مہہ کے نصیب میں نہیں آتی، بلکہ یہ بیش بہا اعزاز اور یہ نایاب تحفہ صرف اور صرف انہیں سعادت مند اور خوش نصیب لوگوں کے حصے میں آتا ہے جن کی جبینوں پر خداوند قدوس نے عالمِ ازل ہی میں سعادت مندی کی مہر ثبت کردی تھی۔
تمغۂ صحابیت سے بہرہ مند ہونے کے لئے نبیؐ کا وجود ضروری ہے، کیونکہ صحابی کہتے ہی اسے ہیں کہ ”جس نے اپنی آنکھوں سےمحبوبِ کبریا، سرکارِ دوجہاں، امام الانبیاء جناب محمد رسول اللہ ﷺ کی نورانی ذات کا مشاہدہ کیا ہو، ان کے ہاتھوں پر بوسۂ عقیدت پیوست کیا ہو اور انہیں خدا کا سچا پیغمبر یقین کیا ہو اور اسی حالت میں وہ دنیا سے رخصت ہوا ہو“ اور ظاہر سی بات ہیکہ اب نبیؐ کا وجود محال ہے تو بدیہی طور پر ان کے اصحاب کا تصوربھی محال ہوگا، اس کے باوجود بھی اگر کوئی ناہنجار اپنے آپ کو نبیؐ کا صحابی کہے تو وہ بلا شک و شبہ ملعون و مطرود ہوگا۔
صحابۂ کرامؓ کی جماعت وہ برگزیدہ اور مقدس جماعت ہے کہ جسے نبی کی دید کا شرف حاصل ہے، دربارِ رسالت مآب میں جسے اپنی پلکیں نچھاور کرنے کا موقع میسر آیا، بارگاہِ نبوت میں جسے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل ہوا، ہادئ اعظم جس کا معلم منتخب ہوئے، ذاتِ رب العالمین نے جس کا امتحان لیا اور پرچۂ امتحان ” تقویٰ “ نامزد ہوا پھر امتحان میں سو فیصد کامیاب ہونے پر ممتحن نے ” لہم مغفرۃ و اجر عظیم“ ( ان کے لئے مغفرت اور اجر عظیم ہے) کا اعلان کر کے اسے سندِ امتیازی عطا کیا۔
صحابۂ کرام جیسی جانباز و جری اور دلیر و جسور جماعت نہ آج تک اس کرۂ ارضی پر پیدا ہوئی اور نہ قیامت تک پیدا ہوسکےگی، یہ صحابۂ کرام ہی کی جماعت تھی کہ جس نے اپنی قلیل تعداد اور قلتِ وسائل کے باوجود محض اپنی جانبازی، جاں سپاری اور سرفروشی کی بناء پر دینِ اسلام کے علم کو قیصر و کسریٰ کے ایوانوں میں لہرایا، اور دنیا کے بڑے سے بڑے جابر و ظالم اور طاغوتی صفت بادشاہوں کی بادشاہی کو تاراج کیا،اور ان کی جنگی قوت، وسائل کی کثرت اور تعداد کی بہتات کے ایسے پرخچے اڑائے کہ جن کا انہوں نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
صحابۂ کرام کا گروہ وہ معظم و مکرم گروہ ہے کہ جس کی فوز و فلاح اور کامیابی و کامرانی کی ضمانت خود خالقِ کائنات اور فخرِ موجوداتؐ نے دی ہے، قرآنِ کریم میں ایک نہیں بلکہ انیک جگہ خداوند قدوس نے ان کی کامیابی اور کامرانی کا تذکرہ کیا ہے، اس سے بڑھ کر کامیابی کی معراج اور سربلندی کی سند اور کیا ہوسکتی ہے کہ خود خالقِ دوجہاں نے اپنے دست مبارک سے صحابۂ کرام کو ” رضی اللہ عنہم و رضو عنہ "{اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہوگئے}”ٱولئك حزب الله”{ یہ یعنی صحابہ اللہ کی جماعت ہے } ” اولئک ھم المفلحون ” { یہی لوگ کامیاب ہیں } اولئک ھم الفائزون ” { یہی لوگ بامراد ہیں } ” اولئک ھم الراشدون” { یہی لوگ راہ یاب ہیں } ” اولئک ھم المہتدون ” { یہی لوگ ہدایت یافتہ ہیں } اور ان جیسے ان گنت بیش بہا اور قابلِ رشک تمغوں سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی جماعت کو سرفراز فرمایا ۔
صحابۂ کرامؓ کی عظمت و رفعت کا اس واقعہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ” ایک بار کفارِ قریش نے نبئ کریم ﷺ کے سامنے اپنا یہ مطالبہ رکھا کہ اگر آپ ان گدڑی پوش اور خاک نشیں اصحاب کو اپنے گرد سے ہٹالیں تو ہم بخوشی آپ کے حلقۂ ارادت میں داخل ہو جائینگے، نبئ کریم ﷺ نے یہ سوچ کر کہ چند منٹ ہی کی تو بات ہے اگر میں کفارِ قریش کے اس مطالبے کو پورا کردوں تو سینکڑوں کفار ایمان کی دولت سے مالا مال ہوکر دوزخ کا ایندھن بننے سے بچ جائینگے، ابھی آپؐ یہ سوچ ہی رہے تھے کہ نازلِ قرآن نے فورا سورۂ کہف کی آیت ” وَاصْبرِ نَفْسَکَ مَعَ الذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّہُمْ بِالغَدوٰۃِ وَالعَشِیِّ یُرِیدُوْنَ وَجْہَہ وَلاَ تَعْدُ عَیْنٰکَ عَنْہُم الخ“( آپ اپنے آپ کو ان گدڑی پوشوں اور خاک نشینوں کے ساتھ جمائے رکھئے جو شب و روز اپنے رب کو اس کی رضا کا طالب بن کر پکارتے ہیں اور آپ ہرگز ان سے صرفِ نظر نہ کیجیے) نازل فرما کر اپنے نبیؐ کو تنبیہ فرمائی اور آپ کو اس عمل سے باز رہنے کو کہا۔
ادھر دوسری طرف دربارِ نبوتؐ سے بھی صحابہؓ کی پاکیزہ جماعت کے متعلق سندِ فاخرہ کی مژدۂ جانفزا سنائی گئی، چنانچہ ایک حدیث کے اندر حضرت جابرؓ نے حضور اکرم ﷺ کا یہ ارشادِ گرامی نقل کیا ہے جس کو متعدد مفسرین نے ”بیعتِ رضوان“ والی آیت کے ذیل میں ذکر کیا ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا  ’’ان لوگوں میں سے ایک بھی دوزخ میں نہیں جائیگا جنہوں نے درخت کے نیچے بیعت کی ہے‘‘۔
ایک اور موقع پر حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ” میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، ان میں سے جس کی بھی اقتدا کروگے راہ یاب ہوجاؤگے“ اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ صحابۂ کرام کا محترم ومکرم کارواں آسمانِ ہدایت کے درخشاں ستاروں کی مانند ہیں، جس طرح ایک مسافر صحرا کی اندھیری رات میں ستاروں کی رہنمائی کے بغیر ایک قدم آگے نہیں بڑھ سکتا ٹھیک اسی طرح ایک حق کا جویا اور سچ کا طالب صحابۂ کرام کی روشن و تابناک زندگی سے روشنی حاصل کئے بغیر دین کی صحیح سمجھ حاصل نہیں کرسکتا۔
یہی نہیں بلکہ قرآنِ مقدس کے اندر ایک جگہ{سورۂ بقرہ آیت ١٣٧؀} صحابۂ کرامؓ کے ایمان کو دوسرے لوگوں { صحابۂ کرام کے علاوہ } کے قبولِ ایمان اور ہدایت یافتہ ہونے کے لئے کسوٹی اور معیار و میزان متعین کیا گیا ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے” اگر یہ لوگ ویسا ہی ایمان لائیں جیسا کہ تم ( مراد صحابہ) لائے ہو تو بیشک یہ لوگ ہدایت یافتہ ہو جائینگے “۔ اس آیت سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ صحابۂ کرام کا ایمان کتنا مضبوط اور عند اللہ کتنا مقبول و محبوب تھا۔
علاوہ ازیں امتِ محمدیہ علی صاحبہا التسلیم کا اس بات پر اجماع ہے کہ بلاتفریق صحابۂ کرامؓ کی پوری جماعت معیارِ حق اور وصفِ عدل سے متصف ہے،کسی بھی آدمی کے لئے کسی بھی ادنی صحابی {ان کے آپس کے مرتبے کے لحاظ سے ادنی ورنہ تو ہمارے لئے ہر ایک صحابی اعلی و بالا ہیں}پر تبرا کرنا، اپنی عقلی دلیلوں کی روشنی میں اسے مجروح و مطعون کرنا اور العیاذ باللہ ثم العیاذ باللہ اس کے ساتھ ظلم و جور، جبر و تشدد اور غصب و خیانت جیسی گندی صفات کو جوڑنا نہایت ہی سنگین جرم اور باعثِ وبال و خسران ہے، ایسا آدمی بسا اوقات اپنے ایمان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے اور چور دروازے سے زندیقیت اور لادینیت اس کے سینہ و دل میں یوں جاگزیں ہوجاتی ہے کہ اسے پتہ ہی نہیں چلتا۔
چنانچہ رسول اللہﷺ نے ایسے لوگوں کو نہایت ہی تہدید آمیز انداز میں درسِ نصیحت دیا ہے، آپؐ نے فرمایا ”میرے صحابہ کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، ان کو میرے بعد طعن و تشنیع کا نشانہ نہ بنانا، جس نے ان سے محبت کی اس نے میرے ساتھ محبت کی جس نے ان کیساتھ دشمنی کی اس نے میرے ساتھ دشمنی کی، جس نے ان کو تکلیف پہنچائی بیشک اس نے مجھے تکلیف پہنچائی اور جس نے مجھے تکلیف پہنچائی اس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی اور جس نے اللہ کو تکلیف پہنچائی بیشک اسکا ٹھکانہ جہنم ہے“۔
امام مالکؒ فرماتے ہیں ”جو شخص نبی کریمؐ کے صحابہ سے حسد کرتا ہے، ان سے جلتا ہے اور ان کے متعلق بدگمانی کرتا ہے وہ کافروں میں شامل ہو جاتا ہے“۔
”حضرت مجدد الف ثانی فرماتے ہیں کہ جو شخص صحابہ کرام ؓ کی تعظیم و توقیر کا منکر ہے، اسکا اللہ اور اسکے رسول ؐ پر بھی ایمان نہیں“۔
بدقسمتی سے اسلام کے دورِ اول ہی سے کچھ لوگ اسلام کے آستین میں سانپ بن کر کنڈلی مارے بیٹھے ہوئے ہیں، جن کا کام فقط صحابۂ کرام کی پاکیزہ نفوس پر ڈنک مارنا، ان پر تبرا، دریدہ دہنی اور ہرزہ سرائی کر کے اپنی انا کی تسکین کرنا، ان کی پُر طہارت ذات پر طعن و تشنیع کے زہر آلود نشتر چبھونا اور ان کو ہدفِ تنقید و تنقیص بنانا رہ گیا ہے، وہ اپنے شب و روز کو بس اسی تگ و دو میں صرف کرتے ہیں کہ کس طرح صحابۂ کرامؓ کی ستودہ صفات ہستیوں پر کیڑے نکالے جائیں اور ان کی عفت و عصمت کو پارہ پارہ کیا جائے، اخلاقی انارکی اور ذہنی ژولیدگی کے وہ اس درجہ مریض ہوتے ہیں کہ ان کے دلوں سے خیر و شر کی تمیز ہرن ہوجاتی ہے، انہیں نہ اچھائی کی شناخت ہوتی ہے اور نہ ہی برائی کی پہچان۔
گرچہ یہ تبرا باز طعن و تشنیع کی اس زد میں حضرات شیخین رضی اللہ عنہما ( ابوبکرؓ و عمرؓ) کو بھی گھسیٹنے سے دریغ نہیں کیا ہے مگرشومئ قسمت سے جس صحابی کے نصیب میں سب سے زیادہ تبرابازیاں، دریدہ دہنیاں،اور طعن و تشنیعاں آئیں ہیں، اور جن کو سب سے زیادہ ہدفِ تنقید بنایا گیا وہ ہیں حضرت امیرِ معاویہؓ، {کیونکہ آپ پر سب و شتم کرنے والے وہ حضرات بھی شامل ہیں جو بظاہر خود کو سنی کہلاتے ہیں}طلوعِ آفتابِ اسلام پر چودہ صدیاں گزرجانے کے بعد آج بھی اس خطۂ ارضی پر کچھ ایسے سبائی ذہن اور شیعیت زدہ مریض بستے ہیں جو آئے دن حبِ اہلِ بیت کی آڑ میں حضرت امیرِ معاویہؓ کی ذاتِ بابرکت پر طعن و تشنیع کے تیر برساتے ہیں، آپ کی ذات والا صفات کو اخلاقی پراگندگی، کج فکری اور عدمِ انصافی کے ساتھ متہم کرتے ہیں، اور لے دے کے جو وجہ بیان کرتے ہیں وہ ہے آپؓ ( امیر معاویہؓ ) کا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کے مابین مشاجرات کا پیش آنا؛
قطع نظر اس کے کہ اس معاملے میں کون حق پر تھے اور کون ناحق پر امیر معاویہ کو تہمت کے کٹہرے پر کھڑا کرنے والوں سے ایک سوال ہیکہ ” کیا کسی صحابئ رسول پر یوں کھلے بندوں تبرا کرنا درست ہے؟ جب کہ صحابہ کی خطائے اجتہادی کو معاف کرنے کی ذمہ داری خود رب العالمین نے لے رکھی ہے، اور انہیں فوز و فلاح کے سنہرے تمغے سے سرفراز بھی کیا ہے“۔
پوری امت کا اس بات پر اجماع ہیکہ حضرت امیرِمعاویہؓ اور خلیفۂ رابع حضرت علیؓ کے مشاجرات کے سلسلے میں سکوت اختیار کیا جائے، گویا کہ امت کے اجماع نے مشاجرات علیؓ و معاویہؓ کو سر بمہر کردیا ہے، اب کسی کے لئے یہ روا نہیں کہ وہ اس کے خانۂ درون میں جھانکے اور اپنے عقلی گھوڑے دوڑا کر حب اہل بیت کی آڑ میں ایک جلیل القدر اور برگزیدہ صحابئ رسول پر زبان درازی کرے۔
حضرت امیرِ معاویہؓ کی ذات وہ ذات ہیکہ احادیثِ شریفہ میں آپ کے بےشمار فضائل و مناقب اور محاسن و محامد ذکر کئے گئے ہیں، چنانچہ ایک حدیث کے اندر حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، ” دَخَل رَسُولُ الله صلي الله عليه و سلم عَلٰي ابْنَةِ ملحَانَ ، فَاتكأ عِنْدَها ، ثُمَّ ضَحِكَ، فَقَالَتْ لِمَ تَضْحَكُ يَا رَسُولَ الله! فَقَالَ ناَسٌ مِّن أُمتِي يَرْكبُونَ الْبَحَر الأَخْضَر فِي سَبِيلِ الله ، مِثْلهُم مِثْلُ ألأسرة ” { بخاری ج ١ /  ص ۴۰٣ ، مسلم ج ۲/  ص ١۴١ _ ۴۲ } ( آپ ﷺ ایک دن سیدہ ام حرام بنت ملحان کے پاس آئے ، اور ٹیک لگا کر بیٹھ گئے ، پھر کچھ دیر بعد مسکرائے تو بنت ملحان نے مسکرانے کا سبب پوچھا ، اس کے جواب میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا ” میری امت کے کچھ لوگ سبز رنگ کے سمندر میں سوار اللہ کے راستے میں  جہاد کرنے نکلینگے ، ان کے تختے بادشاہوں کے تختوں جیسے ہونگے) مسلم شریف میں ہے کہ اس سمندری جہاد کی قیادت کی سعادت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے حصے میں آئی تھی ، اس سے بخوبی امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت معلوم ہوتی ہے ، اور یہ بھی کہ دینِ اسلام کے رقبے کو خطۂ عالم میں پھیلانے کے لئے سب سے پہلے جس خوش نصیب ہستی نے جنگی بیڑا تیار کیا وہ ہیں صحابئ رسول حضرت امیرِ معاویہؓ۔
اس کے علاوہ ایک اور حدیث ہے جس کے راوی عبد الرحمن بن ابوعمیرہ رضی اللہ عنہ ہیں ، وہ فرماتے ہیں کہ نبئ اکرم ﷺ نے حضرت امیرِ معاویہ کے حق میں یہ دعا ارشاد فرمائی ” أللهُمَّ اجْعَلْهٗ هَادِیا مَهْدِياًّ ، وَاهْدِهٖ وَاهْدِبِهٖ، ولا تعذبه ” { سنن الترمذی رقم الحدیث ٣۸۴۲ و قال حسن غریب ، تاریخ بغداد للخطیب ج ١ / ص ۲۰۷ سندہ حسن } ( اے اللہ ان ( معاویہ ) کو ہدایت یافتہ اور ہدایت کنندہ بنا دیجیے ، اس کو بھی ہدایت دیجیے اس کے ذریعے بھی ہدایت دیجیے اور { اور اگر خدا نخواستہ ان سے کبھی کوئی خطا سرزد ہوجائے تو }ان کو عذاب نہ دیجیے)۔
اب ذرا وہ لوگ اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور اپنا محاسبہ کریں کہ جس ذات گرامی کی ہدایت،اس کے ہادی ہونے اور خطائے اجتہادی ہوجانے پر عذاب نہ دیے جانے کی دعائیں زبانِ مصطفیٰؐ سے وارد ہو رہی ہوں ( جن کی قبولیت میں کسی قسم کا کوئی شک نہیں ) وہ بھلا گمراہ کیسے ہوسکتی ہے، وہ ظلم و جبر اور غصب و خیانت کی مہلک دلدل میں کیسے پھنس سکتی ہے؟ اسی طرح ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا تھا کہ”کاش میری عمر معاویہ رضی اللہ عنہ کو لگ جاتی “ علاوہ ازیں حضرت امیرِ معاویہ کو کاتبِ وحی ہونے کا بھی شرف حاصل ہے، آپؓ نبئ اکرم ﷺ کے برادرِ نسبتی بھی ہیں، ان کے علاوہ بھی آپ کے اتنے سارے فضائل و محاسن سیر و حدیث کی کتابوں میں ذکر ہوئے ہیں کہ ان تمام کا احاطہ یہاں دشوار ہے، اتنے سارے فضائل و مناقب کے ہونے کے بعد امیر معاویہؓ پر تبرا بازی کا کوئی جواز نہیں رہ جاتا۔
امیر معاویہؓ کے مناقب کے متعلق شیخ الاسلام حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب مدظلہ العالی کا ایک اقتباس یہاں ذکر کردینا مناسب سمجھتا ہوں جو انہوں نے اپنی شہرۂ آفاق کتاب ” حضرت معاویہ اور تاریخی حقائق “ کی ابتداء میں ذکر کیا ہے،چنانچہ حضرت مفتی صاحب رقم طراز ہیں ” سیدنا معاویہ  ان جلیل القدر صحابہ کرام میں سے ہیں ،جنہوں نے نبی کریم ﷺ کے لئے کتابت وحی جیسے عظیم الشان فرائض سر انجام دئیے۔سیدنا علی   کی وفات  کے بعد  ان کا دور حکومت تاریخ اسلام کے درخشاں زمانوں میں سے ہے۔جس میں اندرونی طور پر امن اطمینان کا دور دورہ بھی تھا اور ملک سے باہر دشمنوں پر مسلمانوں کی دھاک بھی بیٹھی ہوئی تھی۔لیکن افسوس کہ بعض نادان مسلمان بھائیوں نے ان پر اعتراضات اور الزامات کا کچھ اس انداز سے انبار لگا رکھا ہے کہ تاریخ اسلام کا یہ تابناک زمانہ سبائی پروپیگنڈے کے گردوغبار میں روپوش ہو کر رہ گیاہے“۔
یاد رکھئے! صحابۂ کرام دینِ اسلام کے حقیقی معمار ہیں، دینِ اسلام کی پوری عمارت انہی صحابۂ کرام کے لہو اور ہڈیوں پر کھڑی ہے،اور یہ انہیں کے خون کا مرہونِ احسان ہیکہ یہ دین صحیح سلامت ہم تک پہونچا ہے، اب اگر اس کے بعد ہم میں سے کوئی اپنا بھروسہ انہیں دین کے معماروں سے اٹھالے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے ایمان پر نوحہ خوانی کرے۔۔۔
اللہ رب العزت حبِ صحابہ کی دولت سے ہم سبھوں کے دلوں کو شاد اور سینوں کو نہال کرے اور ہمیشہ ان پاکیزہ نفوس کی آن پر مر مٹنے کی توفیق عنایت فرمائے، آمین یا رب العلمین۔

Comments are closed.