زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے

ظفر امام قاسمی، کھجور باڑی
دارالعلوم بہادرگنج
بڑے ہی رنج و الم کے ساتھ یہ خبرِ روح فرسا سنائی جا رہی ہے کہ آج بعد نماز مغرب حضرت قاری عمران صاحبؒ، بھاولمارا پواخالی، کشن گنج بہار، حال مقیم بینگلور{ داماد جناب حضرت قاری سالم انظر صاحب مدظلہ العالی، رشیدپور التاباڑی، بہادرگنج، کشن گنج و پوتا داماد حضرت اقدس الحاج مولانا منور حسین صاحب نور اللہ مرقدہ،سابق استاذ حدیث مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور، یوپی و خلیفۂ اجل حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مہاجر مدنیؒ}دارِ فانی سے کوچ کرکے دارِ بقا پہونچ گئے، انا للہ و انا الیہ راجعون۔۔۔
ملی اطلاع کے مطابق حضرت قاری صاحب مرحوم موجودہ وبائی اور مہلک مرض ” کرونا “ سے متاثر تھے اور تقریبا پچھلے ایک ہفتہ سے بینگلور کے ایک ہاسپٹل میں اپنی فانی زندگی کی آخری سانسیں گنتے ہوئے تیز ہوا کے ایک جھونکے کا منتظر تھے کہ آج اچانک ہوائے موت کا ایک تیز جھونکا آیا اور حضرت قاری صاحب کی اکھڑتی سانسوں کو اپنے پنجوں میں دبوچ کر اڑن چھو ہوگیا۔
حضرت قاری صاحب مرحوم پچھلے دو تین دہائیوں سے بینگلور میں مقیم تھے اور وہاں مسجد میں امامت و خطابت کے فرائض انجام دے رہے تھے، مرحوم بےپناہ خداداد صلاحیتوں سے مالا مال تھے، باوجودیکہ مرحوم موصوف صرف ایک قارئ قرآن تھے، مگر آپ کو خدا نے بےپناہ خوبیوں سے نوازا ہوا تھا، آپؒ خطابت میں اتنی کمالیت اور مہارت رکھتے تھے کہ اپنی خوش بیانی، شیریں نوائی اور حسنِ گفتاری کی بدولت محفلوں کو لوٹ اور لوگوں کے قلوب کو رِجھالیتے تھے۔
معتدل قامت، بھرا بدن، گلاب سا چہرہ کے مالک قاری صاحب مرحوم کی ابھی عمر ہی کیا تھی، بمشکل آپ کےکاروانِ حیات نے چالیس پچاس سال کا عرصہ ہی طے کر پایا تھا،اور آپ کا یہ کارواں ابھی خوش و خرم شاہ راہِ حیات پر محوِ خرام ہی تھا کہ اچانک آپ کا کاروانِ حیات ایک ایسی منزل کی طرف مڑ گیا کہ جس کا ایک سرا وادئ موت سے جا ملتا تھا۔
آپ کی اس مختصر سی زندگی کو دیکھ کر بلا شبہ ہم یہ کہہ سکتے ہیں آپ کی زندگی اس شعلۂ مستعجل کی مانند ثابت ہوئی جس کی لپٹیں یک بیک افق سماء تک لپکتی ہوئی پہنچتی ہیں، اور پھر فورا ہی سرد ہوکر خاکستر ہوجاتی ہیں، یا صبح کے اس ستارے کی مانند ثابت ہوئی جو اپنی مختصر سی عمر لیکر بوقتِ سحر آسمان کی رکابی پر طلوع ہوتا ہے اور پھر جلد ہی اپنی نورانی کرنیں بکھیر کر افق میں روپوش ہوجاتا ہے۔
پچھلے سال اگست یا ستمبر ۲۰۲۰ء کی بات ہے کہ میرے واٹس ایپ کال کے اسکرین پر ایک انجان نمبر نمودار ہوا، علیک سلیک کے بعد سامنے والے نے اپنا تعارف ” قاری عمران نام “ سے کرایا، میں نے فون کرنے کی وجہ سے پوچھی تو بتایا کہ آپ کی تحریریں واٹس ایپ گروپوں میں گردش کرتی رہتی ہیں، ماشاء اللہ آپ عمدہ لکھتے ہیں اور میں بڑے شوق سے آپ کی تحریروں کو پڑھتا ہوں، جناب قاری صاحب مرحوم کی اس حد درجہ ہمت افزائی سے دل کافی مسرور ہوا اور جھینپتے ہوئے میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔
سلسلۂ کلام جب دراز ہوا تو معلوم ہوا کہ قاری صاحب مرحوم بھی کشن گنج سے ہی تعلق رکھتے ہیں اور حضرت قاری سالم صاحب مدظلہ العالی کے داماد ہیں، اس حیثیت سے وہ میرے رشتہ دار بھی نکل گئے کہ میرے بڑے بھائی مولانا نظر محسن صاحب مظاہری کی سسرال بھی اسی گاؤں میں ہے، اور میری بھابھی کی ان لوگوں سے قربت کی رشتہ داری ہے، جب میں نے قاری صاحب مرحوم کو بتایا کہ میں مولانا نظر محسن صاحب کا چھوٹا بھائی ہوں تو وہ کافی خوش ہوئے اور فرطِ جذبات میں بینگلور آنے پر مصر ہوئے { اس وقت میں کرناٹک ہی میں تھا }کہ کبھی آکر ملاقات کرو! میں نے ملنے کا وعدہ بھی کیا اور اپنے اس سفرِ ملاقات کو برسات بعد تک کے لئے مؤخر کردیا، مگر وا اسفاہ! کہ اس سے پہلے ہی میں وطن لوٹ آیا، اس کے بعد پھر دوبارہ کرناٹک نہ لوٹ سکا اور یوں آج قاری صاحب کی وفات پر ان سے نہ مل پانے کی حسرت امر ہو کر حافظہ میں منجمد ہوگئی۔
فون پر میری وہ پہلی باتیں آخری بھی ثابت ہوئیں، کہ اس کے بعد قاری صاحب سے کبھی فون پر بات نہ ہوسکی، تاہم واٹس ایپ پر رابطہ بنا رہا، لیکن!ایک قلق تا دمِ مرگ ذہن و دل میں خار بن کر چبھتا رہے گا کہ قاری صاحب نے مجھ سے دوبار فون پر رابطہ کی کوشش کی تھی، پر میں اپنی شومئ قسمت سے نہ ہی فون ریسیو کرسکا تھا اور نہ ہی ریٹرن کرنے کی توفیق میسر آئی تھی۔
یقینا جب سے قاری صاحب کی وفات کی خبر سننے میں آئی ہے، دل کافی رنجور اور ذہن سخت نالاں ہے، بار بار دل میں قاری صاحب کی وہی باتیں پنپ پنپ کر ذہن میں انگڑائیاں لے رہی ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آپ کا سراپا نگاہوں کے سامنے رقص کناں ہوجاتا ہے، جو دبے الفاظ میں ہمیں یہ پیغام سنا جاتا ہے کہ
موت سے کس کو رستگاری ہے
آج میری کل تمہاری باری ہے
دعا ہیکہ اللہ رب العزت قاری صاحب مرحوم کی بال بال مغفرت فرمائے، جنت کے فرحت بخش اور راحت رساں سائے میں آپ کو جگہ عنایت کرے،پس ماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے،غیب سے بچوں کی اشک شوئی کے اسباب پیدا فرمائے اور ہم سب کی اس مہلک مرض سے بالکلیہ حفاظت فرمائے، آمین یا رب العالمین۔
Comments are closed.