زندگی ہی میں بہو، پوتیوں اوراولادکے درمیان جائیدادکی تقسیم

محترم مفتی صاحب!
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
عرض خدمت یہ ہے کہ درج ذیل مسئلے سے متعلق شریعت کے واضح احکام و رہنمائی علماء حق سے مطلوب ہے۔
1.زید کی دو بیویاں تھیں، پہلی بیوی کاانتقال تین سال قبل ہوگیا۔ اس سے ایک بیٹا اورایک بیٹی ہے اور دونوں شادی شدہ ہیں۔ بیٹے کا بھی انتقال چارماہ قبل ہوگیا۔ اس بیٹے کی بیوہ بیوی اور تین جوان بیٹیاں ہیں۔
2.زید کی دوسری بیوی سے تین بیٹے اور ایک بیٹی ہیں، چاروں شادی شدہ ہیں۔
3.زید اوران کی دوسری بیوی اپنی حیات ہی میں اپنے وارثوں یعنی اپنی اولاد میں اپنی میراث کی تقسیم کرناچاہتے ہیں۔
ہرایک بیٹے اور بیٹی کو کس طریقے سے حصے ملیں گے؟
نوٹ: زید کی پہلی بیوی کے بیٹے کی بیوہ بیوی آدھی پراپرٹی کا دعوی کر رہی ہے۔ مہربانی کر کے رہنمائی فرمائیں۔
فقط والسلام
عبد الرحمن خان
(دھار، مدھیہ پردیش)
*الجواب حامدا و مصلیا و مسلما اما بعد*
اولا زید کی پہلی بیوی (مثلا؛ فاطمہ جو وفات پا گئی ہے) کی میراث کے وارث زیداور اس کابیٹا (مثلا عمر) اور بیٹی (مثلا سمیہ) ہیں۔ اس طرح کہ پہلی بیوی (مرحومہ فاطمہ) اگر قرض دار ہو یا اس نے کوئی جائز وصیت کی ہو، تو قرض کی ادائیگی اور ایک تہائی مال سے اس کی جائز وصیت پوری کرنے اور حقوق مقدمہ علی الارث کی ادائیگی کے بعد اس کی میراث میں چار حصے ہوں گے جس میں اس کے شوہر زید کو ربع (ایک چوتھائی) (1) اور باقی تین حصوں میں دو عمر کو اور ایک بیٹی( سمیہ) کو ملیں گے۔(2)
پھر اس کے بیٹے (عمر) کے انتقال کے بعد اس کے قرض وجائز وصیت ، تجہیز وتکفین کے بعد اس (عمر) کے بچے ہوئے مال وجائیداد کو جائیداد میں اس کے والد (زید)، اس کی بیوی ( مثلا؛ زینب) اور تینوں بیٹیاں حصےدار ہوں گی۔ والد (زید) کو سدس (چھٹا حصہ)، بیوی زینب کو ثمن (آٹھواں حصہ) اور تینوں بیٹیوں کو ثلثان (دو تہائی) یعنی ہر ایک بیٹی کو سولہواں حصہ ملے گا۔(3)
*زندگی میں ہی تقسیمِ جائیداد کی صورتیں*
زید کی دوسری بیوی( کلثوم) کو زید کی جائیداد میں تقسیم اور بٹوارے کاحق کو نہیں ہے۔ دوسری بیوی اپنی مملوکہ جائیداد کو اپنی اولاد کے درمیان تقسیم کرسکتی ہے۔ چوں کہ وہ باحیات ہے،اس لیے اولادوں کے درمیان تحفہ اور میراث کی تقسیم کے وہی ضابطے ہوں گے جو شوہر کے لیے ذیل میں بیان کیے گیےہیں۔البتہ وہ اپنی مملوکہ جائیداد میں میراث کے قانون کے مطابق شوہر کے لیےحصہ نکالےتواس کی جائیداد میں شوہر کو ایک چوتھائی ملے۔( 4)
اور زیدجوکہ باحیات ہے، وہ اپنی جائیداد کواپنی زندگی میں ہی اپنی اولاد میں تقسیم کرنا چاہتا ہے تو زندگی میں ہی تقسیمِ جائیداد کے دو طریقے ہیں؛
(1) یہ تقسیم "ہبہ” (Gift) کے اصول سے کی جائے ۔
(2) اور دوسرا یہ کہ یہ تقسیم وراثت کے قانون کے اعتبار سے ہو۔ کچھ بڑے علما (مفتی محمد تقی عثمانی وغیرہ) کا کہنا ہے کہ زندگی میں جائیدادتقسیم ہو یا زندگی کے بعد؛دونوں صورتوں میں وراثت کے قانون کے اعتبار سے ہی تقسیم ہونی چاہیے۔(5)
اگرجائیداد (جو عموما زندگی گزار نے کا ذریعہ ہوتے ہیں ان)کے علاوہ روزمرہ کی وقتی ضروریات کی اشیاء کی تقسیم کرنی ہو، تو اس میں ہبہ کے قانون کے اعتبار سے تقسیم ہوگی۔ اس طور پر لڑکی لڑکا میں تفریق کے بغیر برابری ضروری ہوگی، یعنی لڑکا لڑکی ہر ایک کو برابر برابرحصے ملیں گے۔(6)
اور زندگی میں جائیداد ( یعنی جو اشیاء عموما انتقال کے بعد بطور میراث تقسیم ہوتی ہیں ان ) کی تقسیم وراثت کے قانون کے مطابق ہوگی ،اس قانون کے مطابق بیٹے (عمر) کی وفات کے بعد اس کی بیوی اور بیٹیاں (زید کی بہو اور پوتیاں) محروم ہوں گی؛ کیوں کہ بیٹے کی موجودگی میں پوتاپوتی وراثت کے حقدار نہیں ہوتے؛ لہذا اب وہ پوتیاں جن کے والد وفات پاگئے وہ قانوناً محروم ہوں گی؛(7)
لیکن چوں کہ بیٹے کی وفات کے بعد اس کی اولاد دادا (زید) کی سرپرستی اور پرورش میں رہتی ہیں؛ لہذا دادا کو یہ حق حاصل ہے اور اس کا دینی و اخلاقی فریضہ ہے کہ وہ اپنی پوتیوں کو بھی اپنی جائیداد میں سے کچھ حصہ دے۔ حدیث شریف میں اس کے بڑے فضائل ہیں۔(8)
بریں بنا زید اپنی پوتیوں (یعنی پہلی بیوی کے بطن سے پیدا ہونے والے لڑکے کی بیٹیوں) کو اپنی صوابدید کے مطابق کچھ حصہ دینے اورخود اپنے لئے حسبِ ضرورت کچھ رکھ لینے کے بعدزید کی جائیداد کی تقسیم اس طرح ہوگی؛
بیوی (مثلا کلثوم) کو ثمن (آٹھواں حصہ) (9)
تینوں بیٹوں میں سے ہر ایک کو دو دو حصے اور بیٹی (مثلا رقیہ) کو ایک حصہ ملےگا۔(10)
لیکن شرعی لحاظ سے یہ تقسیم اس وقت معتبر و نافذ ہوگی جب زید تقسیم کردہ اشیاء و جائیداد پر اپنی زندگی میں اولاد و بیوی کو مکمل قبضہ دے دے۔ اگر زندگی میں قبضہ نہیں دلایا تو اس کی موت کے بعد باقی ماندہ یا اضافہ شدہ تمام متروکہ جائیداد نئے سرے سے زید کے ورثاء میں تقسیم ہوگی۔ (11)
زید کی بہو کا مطالبہ شرعی لحاظ سے درست نہیں ہے۔ زید اپنی جملہ جائیداد کا مالک ہے۔ زید اپنی صوابدید کے مطابق دینی و اخلاقی فریضہ کے طور پر اپنی بہو اور پوتیوں کے ساتھ احسان و تعاون اورتبرع کا معاملہ
کرتے ہوئے بہو وپوتیوں کو اپنی جائیداد سے کچھ دے دے تو وہ مستحق اجر و ثواب ہوگا۔ اس پر دباؤ نہیں ڈالاجاسکتا ہے۔
(1)فَإِن كَانَ لَهُنَّ وَلَد فَلَكُمُ ٱلرُّبُعُ مِمَّا تَرَكۡنَ مِنۢ بَعۡدِ وَصِيَّة يُوصِينَ بِهَآ أَوۡ دَيۡن (سورۃ النساء: 12)
(2)للذكر مثل حظ الأنثيين. (الآية 11سورة النساء)
(3)فَإِن كَانَ لَكُمۡ وَلَدٞ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۚ مِّنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ تُوصُونَ بِهَآ أَوۡ دَيۡن (سورۂ نساء: 12)
(4)فان کان لھن ولد فلکم الربع مماترکن من بعد وصیۃ یوصین بھااودین۔( سورہ، نساء آیت نمبر12)
(5)قال العبد الضعیف عفا اللہ عنہ: قد ثبت بماذکرنا ان مذھب الجمھورفی التسویۃ بین الذکر والانثی فی حالۃ الحیاۃ اقوی وارجح من حیث الدلیل ولکن ربما یخطر بالبال ان ھذا فیما قصد فیہ الاب العطیۃ والصلۃ، والا اذا ارادا الرجل ان یقسم املاکہ فیما بین اولادہ فی حیاتہ، لئلا یقع بینھم نزاع بعد موتہ، فانہ وان کان ھبۃ، لکنہ فی الحقیقۃ والمقصود استعجال بما یکون بعد الموت، وحینئذ ینبغی ان یکون سبیلہ سبیل المیراث، (تکملۃ فتح الملھم: ج2/ ص75، المفتی محمد تقی العثمانی)۔
(6) وعن النعمان بن بشير أن أباه أتى به إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: إني نحلت ابني هذا غلاماً، فقال: «أكل ولدك نحلت مثله؟» قال: لا قال: «فأرجعه» . وفي رواية …… قال: «فاتقوا الله واعدلوا بين أولادكم»”. (مشکاۃ المصابیح، 1/261، باب العطایا، ط: قدیمی)
قال (النبی ﷺ) الک بنون سواہ؟ قال نعم، قال: فکلھم اعطیت مثل ھذا، قال:لا، قال: فلا اشھد علی جور. (صحیح مسلم: ج2؍ ص37، رقم الحدیث: 623)
قال فی الہندیة: لو وہب شئیاً لأولادہ فی الصحة، وأراد تفضیل البعض علی البعض ، عن أبی حنیفة رحمہ اللّٰہ تعالی: لابأس بہ اذا کان التفضیل لزیادة فضل فی الدین ، وان کانا سواء، یکرہ، وروی المعلی عن أبی یوسف رحمہ اللّٰہ تعالی أنہ لابأس نہ اذا لم یقصد بہ الاضرار ، وان قصد بہ الاضرار ، سوی بینہم وہو المختار۔۔۔ ولو کانا لولد مشتغلاً بالعلم لا بالکسب ، لفلا بأس بأن یفضلہ علی غیرہ۔ (الفتاوی الہندیة: 4/ 391، کتاب الہبة، الباب السادس)
(7)یحجب الأبعد بالأقرب کالابن ویحجب أولاد الابن۔
(الدر المنتقیٰ في شرح الملتقیٰ، کتاب الفرائض، دار الکتب العلمیۃ بیروت،ج4 ص510 )
اذا ترک المتوفیٰ ابنا فالمال لہ، وقولہ: إذا ترک ابنا وابن ابن فلیس لابن الابن شیئ، وکذٰلک إذا ترک ابن ابن و أسفل منہ ابن ابن و بنات ابن أسفل فلیس للذی أسفل من ابن الابن مع الأعلی شیئ، کما أنہ لیس لابن الابن شیئ۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی، کتاب الفرائض، باب ترتیب العصبۃ، دار الفکر,ج9 ص302 رقم:12629)
(8)قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: إن الصدقۃ علی ذي قرابۃ یضعف أجرہا مرتین۔(الطبراني ,ج 8ص206و 348)
(9)فَإِن كَانَ لَكُمۡ وَلَدٞ فَلَهُنَّ ٱلثُّمُنُ مِمَّا تَرَكۡتُمۚ مِّنۢ بَعۡدِ وَصِيَّةٖ تُوصُونَ بِهَآ أَوۡ دَيۡن (سورۂ نساء: 12)
(10) للذكر مثل حظ الأنثيين. (الآية 11سورة النساء)
(11)عن الثوری عن منصور عن ابراھیم قال:الھبۃ لاتجوز حتی تقبض.(مصنف عبدالرزاق: ج9 ص107)۔
وحجتنا فی ذالک ماروی عن النبی ﷺ:لاتجوز الھبۃ، معناہ لایثبت الحکم وھوالملک. (المبسوط لسرخسی: ج 12ص57)
اقول الاثار المذکورۃ تدل علی ان الھبۃ لایصح الا مقبوضۃ، والدلالۃ ظاھرۃ لاتحتاج الی التقریر، (اعلاء السنن: ج16، ص71)
فی الدر المختار: وشرائط صحتھا فی الموھوب:ان یکون مقبوضا غیر مشاع.
وفی الردالمحتار: قولہ مشاع؛ ای فیمایقسم.(الردالمحتار: ج4/ص567)
ومن وھب شقصا مشاعا فالھبۃ فاسدۃ، لما ذکرنا، فان قسمہ وسلمہ جاز، لان تمامہ بالقبض وعندہ لاشیوع۔(ھدایۃ آخرین: ص288)
فقط
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ: *(مفتی) محمد اشرف قاسمی*
خادم الافتاء شہر مہدپور ضلع اجین (ایم پی)
۲۳؍محرم ۱۴۴۲ھ
12؍ستمبر 2020ء
[email protected]
تصدیق: مفتی محمد سلمان ناگوری
ناقل: (مفتی) محمد توصیف صدیقی
(معین مفتی: دارالافتاء شہر مہدپور)
[email protected]
Comments are closed.