مفتی یاسر ندیم الواجدی اور عبد الکبیر ندوی کے درمیان تحریری مناظرے کا تحلیل و تجزیہ

عبدالرحمٰن صدیقی
31 اگست کو مفتی یاسر ندیم الواجدی نے اپنے فیس بک پیج پر ایک مختصر ویڈیو اپ لوڈ کی جس میں وہ یہ دعوی کررہے تھے کہ الفئہ الباغیہ سے مراد خوارج کی جماعت ہے۔ جب بہت سے لوگوں نے ان پر اعتراض کیا تو انہوں نے ایک تفصیلی مضمون اس تعلق سے فیس بک کی نذر کیا۔ ان کے اس مضمون کا تعاقب مولوی عبدالکبیر ندوی نے کیا اور اس طرح دونوں طرف سے جواب اور جواب الجواب کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ یہ تحریری مناظرہ ایک ناخوشگوار موڑ پر جا کر ختم ہو گیا، جیسا کہ اکثر مناظروں میں ہوتا ہے کہ دونوں فریقین کی جیت ہوتی ہے اور ہارتا کوئی نہیں، ایسا ہی اس مناظرے میں بھی ہوا۔ فریقین کے مداح اپنی فتح کا جشن منانے لگے اور یہ پتا نہیں چل پایا کہ کس دلیل کا کس کی طرف سے جواب آیا اور کس کی طرف سے نہیں آیا اس لئے اس موقع پر لکھے ہوے دونوں طرف کے مضامین کا آزادانہ تجزیہ ضروری ہے تاکہ حقائق سامنے آسکیں ۔
مفتی یاسر ندیم الواجدی نے 31 اگست کو ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا حضرت عمار کو کس باغی گروہ نے قتل کیا تھا اس مضمون میں انہوں نے ٹوٹل گیارہ پوائنٹ پیش کیے۔
پہلا پوائنٹ یہ تھا کہ کلثوم بن جبیر کی روایت سے پتہ چلتا ہے کہ ابو الغادیہ قاتل ہے وہ خود اس کا اعتراف کر رہے ہیں، روایت کا اگلا حصہ ہے قاتل عمار وسالبہ فی النار جس کے بارے میں مفتی صاحب نے امام ذہبی کے حوالے سے کہا کہ یہ منقطع ہے۔ مولوی عبدالکبیر نے اس کے جواب میں یہ لکھا قاتل عمار وسالبہ فی النار والی حدیث دوسری سند سے مقبول ہے۔ اس کے جواب میں مفتی یاسر نے یہ کہا کہ ہم نے یہ کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ یہ حدیث قطعا ثابت نہیں ہے، ہمارا کلام صرف اس حدیث کی سند پر تھا، ان کی دلیل کی بنیاد دراصل یہ ہے کہ ابو الغادیہ ایک مشکوک کردار کا نام ہے اور اس کا مشخص طور پر قاتل ہونا ضروری نہیں ہے اسی لئے انہوں نے دوسرے پوائنٹ میں مسند احمد کی حنظلہ بن خویلد والی روایت نقل کی جس کے مطابق قتل کرنے والے دو لوگ تھے اور اس روایت میں ان دونوں کا نام مذکور نہیں ہے۔ مولوی عبدالکبیر نے اس کا جواب یہ دیا کہ اگر حضرت عمار کو قتل کرنے والے آپ کے موقف کے مطابق خوارج تھے تو یہ حضرت معاویہ کے لشکر میں کیا کر رہے تھے۔ مفتی صاحب کی طرف سے اس بات کا جواب ان کے مضمون کی تمہید میں دیا گیا تھا کہ باغی گروہ سے مراد وہ خارجی عناصر ہیں جو حضرت علی اور حضرت معاویہ دونوں کے لشکر میں شامل تھے۔ مفتی صاحب کو چاہیے تھا کہ وہ مولوی عبدالکبیر کے اس اعتراض کا جواب الگ سے دیتے اور اپنے سابقہ دیے ہوے جواب پر اعتماد نہ کرتے اس لئے نہ تو مولوی عبدالکبیر کا یہ کہنا درست ہے کہ مفتی صاحب نے اس اعتراض کا کوئی جواب نہیں دیا نہ مفتی صاحب کا ہی سو فیصدی یہ کہنا درست ہے کہ انہوں نے جواب دے دیا، ہاں یہ ضرور ہے کہ جواب ان کے مضمون میں موجود ہے۔ اس پوائنٹ پر فریقین ہماری نظر میں برابر رہے۔
تیسرا پوائنٹ ہماری نظر میں کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا اسی لیے نہ مولوی عبدالکبیر نے اس پر زیادہ زور دیا اور نہی مفتی صاحب نے۔ لہذا یہاں بھی معاملہ برابر سرابر رہا۔
چوتھا پوائنٹ یہ تھا کہ ابو الغادیہ کا صحابی ہونا مشکوک ہے۔ کیونکہ جس ابو الغادیہ کی بات ہورہی ہے وہ بیعت رضوان میں بھی شریک تھے اور بیعت رضوان میں شریک کوئی بھی صحابی حدیث کی رو سے جہنمی نہیں ہو سکتا اس لئے اگر مان لیں کہ ابوالغادیہ قاتل ہیں تو وہ صحابی نہیں ہیں اور صحابی ہیں تو قاتل نہیں۔ یہ پوائنٹ مفتی صاحب نے غالبا اس لیے اٹھایا تاکہ وہ اپنے اس عقیدہ کا دفاع کرسکیں کہ کوئی بھی صحابی اگر اس کا صحابی ہونا ثابت ہوجائے تو وہ جہنمی اور منافق نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب میں مولوی عبدالکبیر نے لکھا کہ ابوالغادیہ کے صحابی ہونے کا انکار کیسے کیا جا سکتا ہے جبکہ بڑے بڑے محدثین نے ان کے صحابی ہونے کی صراحت کی ہے اور امام ذہبی نے ایک حدیث نقل کی ہے جس میں ابو الغادیہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی۔ جواب میں مفتی یاسر نے تین ستمبر کو قاتل عمار ابو الغادیہ کون ہیں کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس کے آغاز میں انہوں نے یہ ثابت کیا کہ پہلے پوائنٹ میں ذکر کردہ کلثوم بن جبیر کی روایت منقطع کیسے ہے۔ پھر انہوں نے صحیح احادیث سے ثابت کیا کہ بیعت رضوان میں شریک کوئی بھی صحابی جہنمی نہیں ہوگا۔ پھر انھوں نے ابن حجر العسقلانی کا صحابیت ثابت کرنے کا منہج ذکر کیا اور ثابت کیا کہ ابو الغادیہ ان کے منہج کے مطابق بھی صحابی نہیں ہیں۔ انھوں نے ابو الغادیہ کی طرف منسوب چھ روایات کا جائزہ لیا جن روایات میں ابو الغادیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سماع کی صراحت کی ہے وہ صحیح نہیں ہیں اور جو روایات صحیح ہے ان میں سماع کی صراحت نہیں ہے، پھر مفتی صاحب نے بعض محدثین کے حوالے سے نقل کیا کہ ابو الغادیہ تابعی تھے، تمام لوگوں نے ابو الغادیہ کا نام یسار بن سبع لکھا ہے لیکن منذری نے عبد اللہ بن یزید لکھا ہے اور یہ عبداللہ بیعت رضوان میں شامل تھے، لیکن یہ قاتل عمار نہیں تھے۔ پھر مفتی صاحب نے دلائل سے یہ بھی ثابت کیا کہ اہل سنت کی کتابوں میں قاتل عمار کے الگ الگ نام ہیں اور اہل تشیع کی کتابوں میں الگ۔ بہرحال مفتی صاحب یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ ابو الغادیہ کا صحابی ہونا طے نہیں ہے اور نہ ہی یہ طے ہے کہ وہ عمار کے قاتل ہیں۔
جواب میں مولوی عبدالکبیر نے مفتی یاسر کے شبہات کے ازالہ کے عنوان سے ایک مضمون لکھا جس میں انہوں نے اپنا پرانا سوال دہرایا کہ جب مفتی صاحب کے مطابق عمار کے قاتل خوارج تھے تو وہ معاویہ کے لشکر میں کیا کر رہے تھے۔ انہوں نے کچھ محدثین کے اقوال نقل کیے جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابو الغادیہ صحابی تھے اور یہ پوائنٹ رکھا کہ ابو الغادیہ کی مزنی اور جہنی دو نسبتوں کے اختلاف سے آپ دو الگ الگ شخصیتیں ثابت نہیں کر سکتے حالانکہ مفتی صاحب نے ابو الغادیہ کی دو نسبتیں مزنی اور جہنی ضمنا لکھی تھیں، ان کا اصل استدلال تو ابن حجر کا منہج اور بہت سے محدثین کے اقوال اور اہل سنت وشیعہ کی کتابوں کے حوالے اور مستدرک حاکم کی ایک حدیث سے تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ مولوی عبدالکبیر مفتی صاحب کے ابو الغادیہ پر تفصیلی مضمون کا جواب نہیں دے پائے۔ ان کو چاہئے تھا کہ وہ صحیح احادیث سے یہ ثابت کرتے کہ ابو الغادیہ صحابی ہیں اور صحیح احادیث سے یہ بھی ثابت کرتے کہ وہی قاتل بھی ہیں، اسی لئے مفتی یاسر نے جواب الجواب کے طور پر لکھا کہ آپ نے ابو الغادیہ کے صحابی ہونے پر پھر سے محدثین کے اقوال نقل کر دیے، یہ اقوال ہماری بھی سامنے تھے لیکن ان کے باوجود ہم نے ابو الغادیہ کو تابعی ثابت کیا ہے۔ منصفانہ بات یہ ہے کہ اس موضوع پر مفتی صاحب کا پلڑا کافی بھاری رہا۔ یہاں مفتی صاحب ایک زیرو سے بڑھت بنا لے گئے۔
مفتی صاحب نے پانچواں پوائنٹ یہ ذکر کیا تھا کہ باغی گروہ سے حضرت معاویہ کی جماعت مراد نہیں ہو سکتی کیونکہ سورہ حجرات کے مطابق صلح کو مسترد کرنے والی جماعت باغی ہے اور صلح کو خوارج نے مسترد کیا تھا۔ مولوی عبدالکبیر نے اس کا یہ جواب دیا کہ صفین سے پہلے جنگ جمل بھی تھی وہاں صلح ہوگئی تھی تو پھر اس صلح کو کس نے توڑا؟ مفتی صاحب کی طرف سے اس کا کوئی جواب نہیں آیا۔ اس پوائنٹ پر مولوی عبدالکبیر کا پلڑا بھاری رہا اور ایک ایک کی برابری پر آگئے۔
مفتی صاحب کا چھٹا پوائنٹ یہ تھا کہ حضرت معاویہ نے عمار کے قتل کو خوارج کی طرف منسوب کیا تھا، جواب میں مولوی عبدالکبیر نے اپنا پرانا اعتراض دہرایا کہ اگر قتل کرنے والے خوارج تھے تو وہ معاویہ کے لشکر میں کیا کر رہے تھے، مفتی صاحب لگتا ہے اپنے مضمون کی تمہید میں اس اعتراض کا جواب ذکر کر کے مطمئن رہے۔ اس لیے یہاں پر بھی برابری ہی رہی۔
مفتی صاحب نے ساتواں پوائنٹ یہ لکھا کہ حدیث کے مطابق حق سے قریب ترین جماعت خوارج سے قتال کرے گی، اور خوارج سے حضرت علی کی جماعت نے قتال کیا ثابت ہوا کہ حضرت معاویہ کی جماعت بھی حق پر تھی۔ مفتی صاحب نے بخاری کی روایت اولی الطائفتین میں اسم تفضیل اولی سے استدلال کیا اور یہ ثابت کیا کہ اسم تفضیل مشارکت کے لئے آتا ہے اسلیے یہ ماننا پڑے گا کہ حضرت معاویہ اور حضرت علی دونوں کی جماعت حق میں شریک ہے۔ مولوی عبدالکبیر نے یہ دلیل دو مثالوں کے ذریعہ مسترد کی پہلی مثال ہے ھو أقرب للتقوی ان کا کہنا تھا کہ انصاف تقوی کے زیادہ قریب ہے تو کیا اسم تفضیل کی وجہ سے ناانصافی بھی تقوی کے کسی حد تک قریب ہے۔ دوسری مثال ہے ان اولی الناس بابراہیم ہے، قرآن کے مطابق حضرت ابراہیم کی طرف نسبت کا زیادہ حق مومنین کو ہے تو کیا اسم تفضیل کی بنا پر یہود و نصاریٰ اور مشرکین کو بھی تھوڑا بہت حق ہے؟ اس کے جواب میں مفتی یاسر نے (جماعت علی وجماعت معاویہ حدیث کی روشنی میں) کے عنوان سے ایک مضمون لکھا اور اور نحو وبلاغت کے اصول و ضوابط سے یہ جواب دیا کہ بعض مرتبہ اسم تفضیل مشارکت فی الوصف کے لئے آتا ہے اور بعض مرتبہ نہیں، مولوی عبدالکبیر کی دی ہوئی مثالوں میں قرائن لفظی ومعنوی کی وجہ سے اسم تفضیل مشارکت کے لیے نہیں ہے لیکن اولی الطائفتین والی حدیث میں قرینہ لفظی یا معنوی نہ ہونے کی بنا پر مشارکت کے لیے ہے اور مشارکت اسم تفضیل کا حقیقی معنی ہے، اس بنا پر حق میں دونوں جماعتیں شریک ہیں۔ مفتی صاحب کے مطابق قرینہ معنوی سے مراد کسی فریق کا اعتقاد باطل ہوتا ہے جس کو اللہ اس آیت کے سیاق وسباق میں رد کرتا ہے جیسے ما کان ابراہیم یہودیا والی آیت۔ مولوی عبدالکبیر نے اپنی جوابی تحریر میں مفتی صاحب کی اس دلیل کا جواب دینے کی کوشش کی اور لکھا کہ اولی الطائفتین میں بھی حضرت معاویہ کا حق پر ہونا ان کا اعتقاد باطل ہے یہ قرینہ ہے کہ یہاں اسم تفضیل مشارکت کے لیے نہیں ہے۔ مفتی یاسر نے جواب دیا کہ اعتقاد کے باطل ہونے کے لیے ضروری ہے کہ اس کا رد اسی کلام میں ہو اور اس حدیث میں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ اس پوائنٹ کا جواب مولوی عبدالکبیر کی طرف سے نہیں آیا۔ میرے نزدیک پورے مناظرے کی بنیاد یہ پوائنٹ اور نواں پوائنٹ ہے کیونکہ سارا تنازعہ اس بات کا ہے نصوص کی روشنی میں حضرت معاویہ اور ان کی جماعت کا کیا مقام ہے۔ اور اس پوائنٹ میں مفتی یاسر صاحب یہ ثابت کرنے میں کامیاب رہے کہ حضرت معاویہ کی جماعت بھی حق میں شریک ہے، یہاں واضح طور پر مفت یاسر الواجدی کا پلڑا بھاری رہا اور مفتی صاحب دو ایک سے برتری بنا لے گئے۔
مفتی صاحب نے آٹھواں پوائنٹ اپنے مضمون میں یہ لکھا کہ ابن بطال شارح بخاری کی بھی یہی رائے ہے کہ الفئہ الباغیہ سے مراد خوارج ہیں، مولوی عبدالکبیر نے جوابی مضمون میں یہ دعوی کیا کہ مفتی صاحب نے حدیث کی ایسی تشریح کر دی ہے جو آج تک کسی نے نہیں کی، جواب میں مفتی یاسر نے دوبارہ ابن بطال کی رائے پیش کی اور کہا کہ وہ اس تشریح میں اکیلے نہیں ہیں، جواب الجواب کے طور پر مولوی عبدالکبیر نے ابن حجر کی رائے پیش کی کہ انہوں نے ابن بطال کی رائے کو مسترد کر دیا تھا۔ اس پوائنٹ پر بحث آگے اس لئے نہیں بڑھی ہوگی کیونکہ بحث کا مقصد دلائل سے یہی ثابت کرنا تھا کہ ابن بطال کی رائے درست ہے یا ابن حجر کی لہذا یہ بحث نویں پوائنٹ کی طرف بڑھی۔
ہماری نظر میں نواں پوائنٹ سب سے زیادہ اہم ہے، اس پوائنٹ میں عدالت صحابہ کا موضوع زیر بحث آیا، مفتی صاحب نے یہ دعوی کیا کہ عدالت صحابہ کا مسئلہ عقیدہ کا مسئلہ ہے اور عقیدہ میں تاریخی روایات سے معارضہ ممکن نہیں ہے لہذا حضرت معاویہ کے خلاف کسی تاریخی روایت کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا، اسی طرح انہوں نے یہ بھی کہا کہ عقائد میں خبر واحد مقبول نہیں ہے چنانچہ ہر صحیح حدیث جو عقیدہ عدالت صحابہ کے خلاف ہو اس میں یا تو تاویل کی جائے گی اس کو رد کیا جائے گا، مولوی عبدالکبیر نے جواب میں لکھا کہ یہ مسئلہ اصول حدیث کا ہے نہ کہ عقیدہ کا، لیکن اپنی بات کو مدلل کرنے کے لیے وہ اس موضوع پر آخر تک چلی گفتگو تک کوئی دلیل نہیں دے پائے، ان کو کم از کم اقوال سلف سے یہ ثابت کرنا چاہیے تھا کہ عدالت صحابہ کا مسئلہ اصول حدیث سے تعلق رکھتا ہے عقیدہ سے نہیں، دوسری بات انہوں نے یہ کہی کہ اگر ہر صحابی عادل ہے تو ایک صحابی کی حدیث بھی عقیدے میں قابل قبول ہونی چاہیے، ایک طرف آپ یہ کہتے ہیں کہ عقیدے میں متواتر حدیث کی ضرورت ہے اور عدالت صحابہ ایک عقیدہ ہے دوسری طرف آپ ایک صحابی کی روایت عقیدے میں قبول نہیں کرتے جبکہ وہ عادل ہے۔ مفتی صاحب نے پہلا جواب تو یہ دیا کہ عقیدے کی کتابوں میں یہ مسئلہ لکھا ہوا ہے لہذا یہ مسئلہ صرف اصول حدیث کا نہیں ہے، دوسرا جواب یہ دیا کہ انھوں نے عدالت صحابہ کو قرآن کی آیات وأشہدو ذوی عدل اور ممن ترضون من الشہداء سے ثابت کیا، تیسرا جواب انہوں نے بعض محدثین کی عبارات پیش کرتے ہوے دیا جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عدالت صحابہ کا عقیدہ اجماعی عقیدہ ہے اور گناہ کے بعد اگر توبہ ہو تو یہ گناہ عدالت کو ختم نہیں کرتا، عقائد میں صحابی کی روایت کیوں مقبول نہیں ہے اس کا جواب انہوں نے حضرت عائشہ کے عمل سے دیا کہ انہوں نے حضرت عمر اور ابن عمر کی حدیث کو یہ کہتے ہوئے قبول نہیں کیا تھا کہ کبھی کبھی سننے میں غلطی ہو جاتی ہے لہذا ایسا ہوسکتا ہے کہ ایک صحابی میں عدالت کا مسئلہ نہ ہو لیکن ضبط کا مسئلہ ہو۔ مولوی عبدالکبیر نے مفتی یاسر کی تینوں دلیلوں کا جواب نہیں دیا بلکہ قرآن کی آیت ان جائکم فاسق سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ اللہ نے ولید بن عقبہ صحابی کو فاسق کہا ہے، انہوں نے حضرت ابوبکرہ اور حضرت مغیرہ کے واقعے کو بھی پیش کیا جس میں حضرت مغیرہ پر زنا کا الزام لگا اور حضرت ابوبکرہ پر حد قذف جاری ہوئی، اسی طرح انہوں نے عبد اللہ الحمار والی روایت پیش کی جس کے مطابق ان پر اللہ کے رسول نے حد خمر جاری کی تھی، مولوی عبدالکبیر کے مطابق اسی طرح حضرت معاویہ نے بھی بغاوت کی اور قرآن کے مطابق بغاوت حرام ہے۔ مفتی یاسر نے اس کا جواب یہ دیا کہ فاسق سے مراد ولید بن عقبہ ہو یہ صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ صحابہ بتقاضہ بشریت بہت سے گناہوں کا صدور ہوا ہے اور وہ پہلے ہی ثابت کرچکے ہیں کہ گناہوں کا صدور عدالت کو ختم نہیں کرتا، اس موقع پر انہوں نے ایک بہت مضبوط استدلال کیا جس کا جواب مولوی عبدالکبیر نے نہیں دیا، مولوی عبدالکبیر نے عبداللہ الحمار کی جو حدیث نقل کی تھی اس میں یہ بھی تھا کہ جب لوگوں نے عبداللہ پر لعن طعن کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو منع کیا اور کہا کہ یہ اللہ اور اللہ کے رسول سے محبت کرتے ہیں لہذا ان پر لعن طعن نہ کرو، مفتی یاسر نے یہ سوال کیا کہ جب اللہ کے رسول نے صحابہ پر گناہ کے باوجود لعن طعن کرنے سے منع کردیا تو آپ حضرت معاویہ پر لعنت کیوں کرتے ہیں۔ یہ ایک بہت مضبوط دلیل تھی جس کا جواب مولوی عبدالکبیر کی طرف سے آنا چاہیے تھا۔ جب کہ مولوی عبدالکبیر کی ذکر کردہ آیات واحادیث مفتی یاسر کے موقف کے خلاف نہیں تھیں، ان کا موقف پہلے سے واضح تھا کہ گناہ عدالت کو ختم نہیں کرتے، لہذا صحابہ کے گناہوں کو گنانے کے باوجود مولوی عبدالکبیر مفتی صاحب کو کاؤنٹر اٹیک نہیں کر پائے۔
مفتی یاسر نے عدالت صحابہ پر قرآن کی آیت والذین معہ اشداء علی الکفار سے بھی استدلال کیا اور کہا کہ یہ آیت عام ہے اور تمام صحابہ کو شامل ہے اور آیت اگر قطعی ہو تو اس میں تخصیص کے لئے مخصص بھی قطعی ہونا چاہیے لہذا اگر حضرت معاویہ کو صحابہ کی فہرست سے خارج کرنا ہے تو اس اخراج وتخصیص کے لیے مضبوط دلیل ہونی چاہیے، مفتی صاحب نے ساتھ میں یہ بھی کہا کہ جو لوگ بعض صحابہ کو اصحاب رسول کی فہرست سے نکالتے ہیں وہ اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں جس میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے بعض اصحاب کو جہنم میں دھکیل دیا جائے گا، مفتی صاحب کے مطابق اس حدیث میں اصحاب سے مراد وہ لوگ ہیں جو مرتد ہو گئے تھے لہذا ظنی الدلالت اور ظنی الثبوت ہونے کی وجہ سے یہ حدیث قرآن کی آیت کے لئے مخصص نہیں بن سکتی۔ اس کے جواب میں مولوی عبدالکبیر صرف یہ کہہ پائے کہ وہ شخص جو آپس میں شدید ہو اور خلیفہ وقت کے خلاف ناحق خروج کرے وہ آیت کا مصداق کیسے ہو سکتا ہے۔ مفتی صاحب کی اصولی گفتگو کے سامنے مولوی عبدالکبیر کی یہ بات چلنے والی نہیں تھی، مولوی عبدالکبیر نے عقیدہ عدالت صحابہ کے خلاف یہ بھی دلیل دی کے حضرت معاویہ نے حضرت ابو سعید خدری کی روایت کو مسترد کر دیا تھا، حضرت معاویہ خود ہی کچھ صحابہ کو عادل نہیں مانتے تھے تو عدالت صحابہ عقیدہ کیسے بن سکتا ہے۔ اس کے جواب میں مفتی یاسر نے حضرت عائشہ کی وہ حدیث ذکر کی جو اس سے پہلے بھی ذکر کی جا چکی تھی جس کے مطابق انہوں نے حضرت عمر اور ابن عمر کی حدیث کو اس بنیاد پر مسترد کردیا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ وہ ان کی غلط فہمی ہو، اسی طرح حضرت معاویہ نے بھی حضرت ابو سعید خدری کی روایت کو ان کی غلط فہمی کی بنیاد پر مسترد کیا تھا نہ کہ ان کی عدالت میں شک کرنے کی بنیاد پر۔ عدالت صحابہ کے موضوع پر یہی دلائل سامنے آئے اور ان دلائل کی روشنی میں انصاف کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ مفتی یاسر اپنا مدعا ثابت کرنے میں سو فیصد کامیاب رہے۔
اس موضوع پر مفتی یاسر کی طرف سے ٹوٹل پانچ دلیلیں آئیں اور مولوی عبدالکبیر کی طرف سے ان کا جواب نہیں آیا، مولوی عبدالکبیر نے عدالت صحابہ کے خلاف دو دلیلیں دیں، ایک سارق والی آیت اور دوسری دلیل وہ احادیث جو صحابہ کے گناہوں سے متعلق ہیں، مفتی صاحب کی طرف سے دونوں کا جواب آیا۔ یہاں مفتی صاحب کو پانچ پوائنٹس ملے اور عبد الکبیر کوئی پوائنٹ نہیں بنا پائے۔ مفتی صاحب کے ٹوٹل سات نمبر ہوے اور عبد الکبیر کا ایک۔
مفتی صاحب کا دسواں پوائنٹ یہ تھا کہ حضرت عمار کی حدیث میں یدعوہم الی الجنة وتدعوهم إلى النار سے پتہ چلتا ہے کہ باغی جماعت جہنم کی طرف بلانے والی ہوگی، مفتی صاحب کے مطابق دیگر احادیث میں یہ صفت خوارج کی بیان کی گئی ہے مثلا دعاة على أبواب جهنم کے الفاظ خوارج کے بارے میں آئے ہیں، یہ اس بات کی علامت ہے کہ حضرت عمار کی حدیث میں بھی باغی جماعت سے خوارج ہی مراد ہوں، مولوی عبدالکبیر نے اس کا جواب یہ دیا کہ حدیث لا يدخل الجنة قتات اور حدیث لا يدخل الجنة احد في قلبه حبة خردل من كبر دونوں جگہ لا یدخل کا لفظ ہے تو کیا قتات اور متکبر ایک ہی ہیں؟ اس اعتراض کا جواب مفتی صاحب کی طرف سے نہیں آیا۔ یہاں عبدالکبیر کے دو نمبر ہوے اور مفتی صاحب کے سات نمبر۔
آخر میں مولوی عبدالکبیر کا مضمون باغی جماعت کون کے عنوان سے سوشل میڈیا پر آیا۔ اس مضمون کے دو مرکزی موضوعات ہیں، پہلا موضوع یہ ہے کہ احناف کی کتابوں میں حضرت معاویہ کی جماعت کو باغی کہا گیا ہے اور حضرت عمار کی حدیث تقتلہ الفئہ الباغیہ سے بغاوت کے بہت سے احکام مستنبط کئے گئے ہیں۔ مولوی عبدالکبیر نے حنفی مسلک کی بہت سی کتابوں کے اسکرین شاٹ بھی اپنے فیس بک پر لگائے، دوسرا موضوع یہ تھا کہ زید بن صوحان نے جن کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ وہ صحابی ہیں شہید ہوتے وقت یہ وصیت کی تھی کہ ان کو ان کے کپڑوں میں دفنایا جائے وہ أخرت میں اسی حال میں معاویہ سے ملاقات کریں گے۔ مفتی صاحب نے اپنی پوسٹ میں اس مضمون کا جواب دینے کا وعدہ کیا تھا۔ اگر مفتی صاحب جواب نہیں دیں گے تو عبدالکبیر کے ٹوٹل چار نمبر ہوجائیں گے۔ جب سلمان حسینی ندوی صاحب نے حضرت ابوہریرہ کی شان میں نازیبا کلمات کہے تو مفتی یاسر صاحب کی طرف سے تفصیلی مضمون حضرت ابو ہریرہ ایک مظلوم فقیہ محدث کے عنوان سے شائع ہوا، اس مضمون میں انہوں نے حضرت ابوہریرہ کے قول میں سنہ ستر کے آغاز سے پناہ مانگتا ہوں کی تحقیق کی اور کہا کہ ایک روایت کے مطابق حضرت ابو ہریرہ نے سنہ ستر کے آغاز سے پناہ مانگی ہے اور دوسری روایت کے مطابق سن ساٹھ کے آغاز سے اور دونوں ہی روایت ضعیف ہیں پھر انہوں نے ان دونوں روایتوں کے صحیح ہونے کی صورت میں اس اعتراض کا جواب بھی دیا کہ اگر حضرت ابوہریرہ نے سن ساٹھ یا ستر کے آغاز سے پناہ مانگی ہے تو کیا اس سے مراد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ ہیں؟ مفتی صاحب نے اپنے مضمون میں یہ ثابت کیا کہ اس روایت کو اگر تسلیم بھی کر لیا جائے تو بھی اس کا تعلق حضرت معاویہ سے نہیں بنتا۔ یہ تحریری مناظرہ ایک ناخوشگوار موڑ پر ختم ہوا تھا اس کے باوجود مولوی عبدالکبیر نے ایک مختصر پوسٹ کے ذریعہ اس مضمون کا جواب دینے کی کوشش کی اور یہ ثابت کیا کہ سن ساٹھ کے آغاز سے پناہ مانگنے والی روایت درست ہے، لیکن ہماری نظر میں یہ جواب اس وقت مضبوط ہوتا اگر مفتی صاحب اس روایت کو درست تسلیم کرکے اگلی بات نہ کہتے اور اپنی بات ختم کر دیتے، کیونکہ وہ اس روایت کو درست ماننے کی صورت میں ہونے والے اعتراض کا پہلے ہی جواب دے چکے تھے اس لیے مولوی عبدالکبیر کی طرف سے اٹھنے والا یہ اعتراض کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اگرچہ مناظرہ ختم ہوچکا تھا لیکن اس پوائنٹ کا نمبر کسی کو ملے گا تو مفتی صاحب کو ایک نمبر ملے گا اور وہ مجموعی طور پر آٹھ نمبر پر پہنچیں گے۔
مفتی صاحب یہ چاہتے تھے کہ وہ اور مولوی عبدالکبیر لائیو آئیں اور سب کے سامنے اس موضوع پر گفتگو کریں، مولوی عبدالکبیر کا اصرار یہ تھا کہ پہلے مفتی صاحب اپنی شکست تسلیم کریں اس کے بعد وہ لائیو آئینگے، مفتی صاحب کا کہنا یہ تھا کہ شکست تسلیم کرنے والی بات دراصل لائیو نہ آنے کا ایک بہانہ ہے، اس طرح یہ لائیو پروگرام کبھی نہ ہو سکا، پھر مولوی عبدالکبیر سات ستمبر کو اپنی فیس بک پروفائل پر لائیو آئے اور تقریبا ایک گھنٹے تک اسی موضوع پر گفتگو کی۔ لیکن اس ویڈیو میں انھوں نے ایک ہفتے تک چلے تحریری مناظرہ کی روداد بیان کی اور اپنی تحریروں میں اٹھائے سوالات ہی دہرائے، آخر میں پاجامہ اور داڑھی پر بھی مختصر گفتگو کی لیکن اس کا موضوع سے کوئی تعلق نہیں تھا، جن لوگوں نے مولوی عبدالکبیر کی تحریریں پڑھی تھی ان کے لیے ان کی ویڈیو میں کوئی نئی چیز نہیں تھی۔
خلاصہ:
خلاصہ یہ ہے کہ مفتی صاحب مذکورہ بالا تجزیے کی روشنی میں دو باتیں ثابت کرنے میں کامیاب رہے ہیں پہلی بات تو یہ ہے کہ حدیث کی روشنی میں حضرت معاویہ کی جماعت بھی حق پر ہے اگرچہ حضرت علی کی جماعت حق کے زیادہ قریب ہے دوسری بات یہ کہ عدالت صحابہ کا مسئلہ عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے یہ صرف اصول حدیث کا مسئلہ نہیں ہے۔ ان دونوں باتوں کے ثابت ہونے کے بعد ہم سمجھتے ہیں کہ مزید کسی بحث کی گنجائش نہیں بچتی، فریقین کو ان کے پیش کردہ دلائل اور جوابات کی بنا پر دیے گئے نمبرات کے مطابق مفتی یاسر صاحب کے ٹوٹل آٹھ نمبر ہیں اور عبد الکبیر کی آخری تحریر کا جواب نہ آنے کی صورت میں مولوی عبدالکبیر کے ٹوٹل چار نمبر ہیں اور قابل قبول جواب آنے کی صورت میں ان کے ٹوٹل دو نمبر ہیں۔
Comments are closed.