اب دیکھنے کوجن کے آنکھیں ترستیاں ہیں

(پروفیسریسین مظہرصدیقی ندوی مرحوم)

محمدجمیل اخترجلیلی ندوی

موت توبرحق ہے، وہ آکررہے گی، آج آئے یاکل، اسے آنی ہے، ’’موت سے کس رستگاری ہے؟‘‘،جوبھی آیاہے، جانے کے لئے آیاہے،وہ بھی یہاں سے گیا، جس کے لئے بزم کائنات سجائی گئی، وہ بھی گیا، جسے عمردرازملی، وہ بھی گیا،جو خلاق عالم کا’’خلیل‘‘تھا، وہ بھی گیا، جس کی حکومت کائنات کی تمام مخلوقات پرتھی، وہ بھی گیا، جو صبر کا پہاڑ تھا، وہ بھی گیا، جس کاحسن بے مثال تھا، وہ بھی گیا، جس کالقب’’کلیم‘‘ تھا، وہ بھی گیا ، جووجہِ تخلیقِ کائنات تھا،پھرہماشماکیا؟ کل نفس ذائقة الموت۔

لیکن کچھ جانے والے ایسے ہوتے ہیں، جوروحانی وجسمانی دونوں لحاظ سے جانے کے بعد بھی اپنے کاروکارنامے، اپنے عمل واعمال نامے اوراپنے نقوش ونگارشات کی وجہ سے زندہ رہتے ہیں؛ بل کہ مردہ دلوں میں زندگی کی حرارت پیدا کرتے رہتے ہیں،لوگ ان کی زندگیوں اوران کارناموں کودیکھتے ہیں، سنتے ہیں، پڑھتے ہیں، سناتے ہیں، خودبھی گرمی حاصل کرتے ہیں، دوسروں کوبھی گرما تے ہیں، ساکت وصامت زندگی میں ان کے کام، ان کے اعمال اوران کے نقوش ونگارشات کے ذریعہ سے تموج اورتلاطم پیداکرتے ہیں اوریہی وہ امورہیں، جن کی وجہ سے موت کے بعدبھی وہ زندہ رہتے ہیں، ان کے جانے پرلوگ اظہارافسوس کرتے ہیں:

موت اس کی ہے، کرے جس کا زمانہ افسوس

یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لئے

ایسے ہی جانے والوں میں’’پروفیسرڈاکٹریسین مظہرصدیقی ندوی‘‘ ہیں،۱۵؍ستمبر۲۰۲۰ء کوٹھیک ایک بجے کے قریب ان کی وفات کی خبرملی، دل پرگہرااثرہوا، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ابھی ہم لوگ کئی بڑے اوراہم لوگوں کی وفات کاغم بھولنے کی کوشش ہی کررہے تھے کہ ان کی وفات کی خبرصاعقہ اثربن کرگری، پھرموت بھی ایسے شخص کی ، جس نے سیرت اورتاریخ اسلام پرخاصاکاکیا، جس نے بعض ایسے موضوعات پرقلم اٹھایا، جن کوہرقاری صرف پڑھ کرگزرجاتاتھااوراس کے تعلق سے کسی قسم کی تلاش وجستجوکی ضرورت محسوس نہیں کرتاتھا۔

میں ان کے نام سے واقف تھا؛ بل کہ ان کی بعض تحریروں کااپنے بعض مضامین میں حوالہ بھی دے چکاتھا؛ لیکن ان کی ذات سے زیادہ واقفیت تھی اورناہی سعادتِ ملاقات، پھرآہستہ آہستہ ان کے کاموں کے ذریعہ سے ان کی ذات سے واقفیت ہوئی اورسب سے زیادہ ان سے اس وقت متاثرہوا، جب ان سے دارالعلوم اسلام نگر، رانچی (۲۰۱۸ء)کے ایک پروگرام میں ملاقات ہوئی، ان کے کام کی وجہ سے ذہن میں جوہیئت اورہیولیٰ بیٹھا ہواتھا، بالکل اس کے برخلاف، ایک سیدھاسادھاانسان، نہ تام نہ جھام، لباس میں سادگی، طبیعت میں ظرافت، گفتگوزیادہ ترعلمی، جھوٹوں سے بھی بے تکلف۔

پتہ نہیں کیوں بڑوں سے بات کرنے میں جھجھک سی محسوس ہوتی ہے، آج بھی اساتذہ سے بھی گفتگوکرتے ہوئے دس دفعہ سوچنا پڑتاہے، پھرایسے میں بڑوں کے پاس جاکربیٹھنااوروہ بھی ایسے بڑے، جن کے تعلق سے ذہن میں علمی ہیبت بیٹھی ہوئی ہو، میرے لئے بڑامشکل کام ہوتاہے، پھربھی ہمت جٹاکراس کمرے کارخ کیا، جوپروفیسر صاحب کے قیام کے لئے منتخب کیاگیاتھا، سلام کے بعد کچھ سوالات کئے، پھراس کے بعدگفتگوکاسلسلہ آگے بڑھا، کئی باتیں دریافت کیں، بڑی دلچسپی کے ساتھ جواب عنایت فرمایاگیا، میں نے جب اپنی کتاب’’غزوات نبوی-اسباق وموعظت کے چندپہلو‘‘ کاذکرکیاتوبہت مسرورہوئے، پرشوق لہجہ میں مطالبہ کیا؛ لیکن اس وقت دستیاب نہ ہونے کے باعث معذرت کرلی، حکم دیاکہ مجھ تک ضرور کتاب بھجوانا، کتاب کایہ مطالبہ اس لئے تھاکہ وہ سیرت کے ایک طالب علم تھے، ان کی تحقیق وتلاش کابڑادائرہ گوشۂ سیرت ہی رہاہے، یہ ان کی دلچسپی کاسامان تھا، پھراس میں حوصلہ افزائی بھی تھی اورمیں سمجھتاہوں کہ اصل مطالبہ اسی لئے تھا، ورنہ ایک محقق ، ایک سیرت نگاراوردرجنوں ایسی کتابوں کے مصنف ، جواپنے موضوع پرنئی ہونے کے ساتھ ساتھ مستند بھی ہوں، ان کومیری کتاب سے کیافائدہ حاصل ہوتا؟

پروفیسرصاحب کی پیدائش اترپردیش کے ضلع لکھیم پورکھیری کے ایک گاؤں’’گولا‘‘میں 26؍دسمبر1944ء کوہوئی،بلاشبہ وہ ’’قدیم صالح ، جدیدنافع‘‘کی اعلی مثال تھے، انھوں نے دارارلعلوم ندوۃ العلماء سے فراغت(1959ء)اورلکھنؤیونیور سٹی سے فاضل ادب(1960ء)کرنے کے بعدجامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی سے بی اے(1965ء)اور بی ایڈ(1966ء)کیا، پھرعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تاریخ میں ایم اے(1968ء)اورایم فل(1969ء)اورپی ایچ ڈی(1975ء)تک کسب فیض کرکے ’’فرض عین‘‘ کے ساتھ ساتھ’’فرض کفایہ‘‘کی بھی تعلیم حاصل کی ،وہ ندوی بھی تھے ، جامعی بھی تھے اورعلیگ بھی،گویاوہ تعلیم اوراس کی اسنادکے لحاظ سے ’’مجمع البحار‘‘تھے، جوکہ بہت ہی کم لوگوں کے حصہ میں آپاتاہے، یہی وجہ ہے کے ان کے اندرتینوں اداروں کی خصوصیات پائی جاتی تھیں پھرعلی گڑھ ہی میں تدریس کے لئے تقرری عمل میں آئی اورتادم آخریں وہیں رہے۔

آپ کے رودباراشہبِ قلم سے سیکڑوں تحقیقی مقالے منصۂ شہود میں آئے اوراہل علم وفن سے دادِ تحسین اورخراج آفرین وصول کئے، وہ یقینی طورپرشبلی وسلیمان کے حقیقی جاںنشین تھے، سیرت کے موضوع کواپناپسندیدہ مشغلہ بنارکھاتھا، اس تعلق سے انھوں نے جوکام کئے ہیں، ان کااجمالی خاکہ ڈاکٹرمحمدعبداللہ صالح (شیخ زایداسلامک سنٹر، پنجاب یونیورسٹی، لاہورنے اس طرح تیارکیاہے:

۱- مآخذسیرت: (۱) تاریخ یعقوبی- سیرت نبوی کاایک قدیم مآخذ(نقوش رسول نمبر:۱، ۱۹۸۲ء(۲) واقدی بطورسیرت نگار(۳) خطبات سیرت، زیراہتمام: ادارہ تحقیقات اسلامی(اسلام آباد) منعقدہ:۲۵-۲۹مارچ ۲۰۱۳ء، اس میں’’مآخذ سیرت کاتنقیدی جائزہ‘‘ کے عنوان سے لیکچرز دئے۔

۲- رسول اکرم ﷺ کامکی عہد: (۱) مکی عہدنبوی میںاسلامی احکام کاارتقاء (۲)وحی حدیث(۳) مکی عہدنبوی میں مسلم آبادی: ایک تجزیاتی مطالعہ (4) بعثت سے قبل عصمت نبوی ﷺ(۵) عہدجاہلی میںتحنث کی اسلامی روایت (6) نبوت محمدی کی آفاقیت: آغاز، اعلان ، توقیت۔

۳- عہدنبوی ﷺکی تنظیم وریاست: (۱)Organization of Government Under the Prophet(SAW)(اردو میں’’عہدنبویﷺ کانظام حکومت‘‘ اور’’عہدنبویﷺ میں تنظیم وریاست‘‘ کے نام سے نقوش رسول نمبر(۱۹۸۸ء) میں موجودہے) (۲) عہدنبویﷺ فوجی تنظیم(۳) عہدنبویﷺ کی انتظامیہ (4) عہدنبویﷺ کامالی نظام (۵) عہدنبویﷺ کامذہبی نظام۔

4- عہدنبوی کے غزوات: (۱) عہدنبوی ﷺکی ابتدائی مہمیں (۲) عہدنبویﷺکی اقتصادی جہات (۳) عہدنبوی ﷺ کی مسلم معیشت میں احوال غنیمت کا تناسب (4) محدثین کرام کی توقیت غزوات کاایک تجزیہ۔

۵- اسرۃ النبیﷺ : عبدالمطلب ہاشمی :رسول اکرم ﷺ کے دادا (۲) نبوعبدمناف: عظیم ترمتحدہ خاندان رسالت (۳) بنوہاشم اورنبوامیہ کی رقابت کاتاریخی پس منظر (4) بنوہاشم اورنبوامیہ کے ازدواجی تعلقات (۵)عم نبویﷺ زبیربن عبدالمطلب اورسیرت نبویﷺ (6) رسول اکرم ﷺ کی رضاعی مائیں۔

۶- معاشرت وتہذیب نبویﷺ : (۱) عہدنبوی کاتمدن (۲) نبی اکرم ﷺ اورخواتین: ایک سماجی مطالعہ (۳) عہدنبویﷺ میںسماجی تحفظ کانظام (4) معیشت نبویﷺ مکی عہد میں (۵) معیشت نبویﷺ مدینہ منورہ میں (6) مکی مواخات: اسلامی معاشرہ کی اولین تنظیم (۷) مکہ اورمدینہ کے تعلقات (۸)ازواج مطہرات کے مکانات: ایک تجزیاتی مطالعہ (۹) کیامہاجرین خالی ہاتھ مدینہ آئے تھے؟ (۱۰) تاریخ اسلام کے عہدساز موڑ(بعثت نبوی، پیغام الٰہی، تبلیغ واشاعت اسلام کاتجربہ)۔

سیرت نبوی پرکئے ہوئے کام کے اس خاکہ سے یہ اندازہ لگاناکوئی مشکل کام نہیں کہ کس طرح انھوں نے اس موضوع کواپنے لئے اوڑھنااوربچھونا بنا لیا تھا؟ اور ان عناوین پرقلم اٹھایا، جن سے سیرت نگارعمومی طورپرسرسری اندازمیں گزرجاتے ہیں، ڈاکٹرصاحب کے بعض مقالات کی بنیاد پربعض حضرات نے ان پر’’ناصبی‘‘ ہونے کا بھی فتویٰ لگایا ہے اوریہ تواس دنیا میں ہوتاآیا ہے، بڑے بڑوں کونہیں چھوڑاگیا، امام اابوحنیفہؒ کومرجئہ کہہ دیاگیااورامام شافعیؒ کوتشیع زدہ، ان کی جان توامام محمدؒ کی سفارش سے بچی؛ لیکن الزام لگانے والے بھی ان کے قدردان تھے، ان کی کتابوں اورتحاریرکی ستائش کرتے تھے اوران کی تحقیقات کوسراہتے اوراس سے استفادہ کرتے تھے۔

ایسی شخصیت کے جانے سے گلستان علم ، اس کے باغباں اوراس کے خوشہ چیں سب سوگوارہیں، سبھوں کے چہروں پرسوال ہے کہ اب ایسے محقق کابدل کون ہوگا؟ سیرت کے موضوع پراس طرح گہرائی کے ساتھ کون کام کرے گا؟ تشنگان علم کوکون سیراب کرے گا؟ اورسبھوں کے لب پردعا کہ اے اللہ! تیرے دربارمیں وہ جارہاہے، جس نے تیرے محبوب کی سیرت پرخاصاکام کیا،یہ تیرے محبوب سے اس کی محبت کی دلیل ہے اورجوتیرے محبوب سے محبت کرتارہاہے توبھی تواس سے محبت کر، اے اللہ! اس کے حسنات کوقبول فرما، اس کے سیئات سے درگزفرما، اس کے کئے ہوئے کام کواس کے لئے ذریعۂ بخشش ونجات بنا، اس کے پسماندگان کوصبر کی توفیق عطا فرمااوراے خلاق عالم! اس کانعم البدل عطافرما، آمین!

یہ جانے والااپنے پیچھے ہزاروں سوگواروں کوچھوڑکرچلاگیا؛ لیکن یہ لوگوں کے دلوں میں اپنی تحریروں اورتحقیقات کی وجہ سے ہمیشہ زندہ رہے گا؛ کیوں کہ یہ وہ اثاثے ہیں، جواولاد سے بھی زیادہ لوگوں کوزندہ رکھتے ہیں، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امیرؔنے کہاہے:

اولاد سے توبس یہی دو پشت چار پشت
تحریر زندہ رہتی ہے برسوں تلک امیر

Comments are closed.