مایوسی اور امید

الطاف جمیل ندوی

مایوسی اور امید درحقیقت انسان کے دو مختلف خیالات کا نام ہے۔ بلکہ متضاد خیالات کا نام۔ امید کا تعلق رحمت کے قبیل سے ہے جبکہ مایوسی شیطان کا ہتھیار۔ مایوس انسان اصل میں شعوری یا لاشعوری طور پر اس بات کا انکاری ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ حالات کو بہتر کرنے پر قادر ہے جبکہ پُرامید شخص کی نظریں مسلسل عنایتِ رب تعالیٰ پر لگی رہتی ہیں۔ اس طرح بندے کا اللہ تعالیٰ سے امید کا یہ تعلق بھی عبادت ہی کہلاتا ہے اور ترکِ عبادت ایک گناہ ہے۔

امید اور مایوسی اصل میں دن اور رات کی طرح ہیں۔ ایک کا اُتار تو دوسرے کا چڑھاؤ۔ پُرامید انسان روشنی کا چمکتا ستارہ اور مایوس انسان اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔ روشنی میں ہر راستہ دکھائی دیتا ہے جبکہ اندھیرے میں ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہیں دیتا۔ پُرامید انسان کے پاس جینے کا حوصلہ اور آگے بڑھنے کا جذبہ ہوتا ہے جبکہ مایوس انسان اپنی زندگی کے خاتمے کے طریقے سوچتا ہے۔

یہ کائنات اللہ تعالیٰ کی ریاست ہے اور اس ریاست میں وہی ہوتا ہے جو اللہ چاہتا ہے۔۔۔ اور جیسے چاہتا ہے!! انسان اللہ کا بندہ ہے اور بندے کا کام اپنے معبود کی بندگی کرنا ہے۔ مالک کے اختیار میں ہے کہ وہ اپنے بندے کو اچھے، برے یا جیسے چاہے حال سے گزارے۔ وقت اللہ تعالیٰ کی گرفت میں ہے اور ہر شے اپنے اوقات میں اپنی حالت بدل رہی ہے۔ اول پہر میں طلوع ہونے والے سورج کی چمک دوسرے پہر سے ملتے وقت اپنے عروج پر ہوتی ہے پھر یہی سورج تیسرے سے چوتھے پہر میں داخل ہوتا ہوا آخر کار اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔ پھر اسی طرح رات کے پہر بھی بدلتے جاتے ہیں۔۔۔اور پھر اک نئی صبح اور پھر اک نئی شام۔

دن اور رات کی طرح انسان کی زندگی کے پہر بھی بدلتے ہیں، اوقات بدلتے ہیں جن میں بندے کی اپنی اوقات بھی بدلتی رہتی ہے۔ انسان اپنے حالات پر کتنا بھی پہرے دار بن جائے مگر پھر بھی پہر بدل ہی جاتے ہیں۔ اور ان پہروں کا بدلنا ہی انسان کو بتاتا ہے کہ انسان کا خود پر اور حالات پر کتنا اختیار ہے؟ زندگی کا یہ پہر کبھی طلوع آفتاب کی طرح خوشنما اور کبھی دوپہر کی تپتی دھوپ کی طرح جھلسا دینے والا بن جاتا ہے۔ پہر پھر اگلے پہر میں بدلتا ہے اور ذرد دوپہر، سرخ شام میں ڈھلنے لگتی ہے۔ اس طرح دھوپ چھاوں اور اتار چڑھاؤ کا یہ کھیل جاری رہتا ہے۔ یہ سب مالک کے کام ہیں۔ جن میں بندے کے پاس صرف اس کا خیال اور عمل ہے جسے وہ ان پہروں کے بدلنے میں اپنے اللہ کے حضور پیش کرتا رہتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ جو اللہ دھوپ کو تپش عطا کرتا ہے وہی چھاوں کو ٹھنڈک بخشتا ہے۔ اور وہی انسان کو اس دھوپ اور چھاوں کے درمیان دوڑاتا بھی رہتا ہے۔

دھوپ چھاؤں کی یہ دوڑ زندگی کا حصہ ہے۔ جیسے اگر دل کی دھڑکنوں کو ناپنے والی ای – سی – جی مشین کو دیکھا جائے تو اس کی سکرین پر دکھائی دینے والی لکیر جو تسلسل کے ساتھ اوپر اٹھتی اور پھر نیچے گرتی نظر آتی ہے۔ اس اوپر اٹھتی اور نیچے گرتی لکیر کا مطلب ہی زندگی ہے کیونکہ ای – سی – جی مشین کی یہی لکیر جب بالکل سیدھ اختیار کر لے تو اس سیدھ کا سیدھا مطلب بندے کی موت ہے۔

موت یعنی زندگی کا اختتام۔ اونچ نیچ، اچھائی برائی، بلندی پستی سب ختم۔ اب آگلی حالت میں اس زندگی کے اعمال کا فیصلہ ہے۔ پل صراط کی سیدھی لکیر ہے اور بندے کے پاس کیا ہے؟ امید۔۔۔ ان اعمال کے اچھے نتیجے کی امید۔۔۔ رحمت کی امید۔۔۔ فضل کی امید۔۔۔
واللہ ذو الفضل العظیم۔

فضل کی امید کا سلسلہ یہیں اسی زندگی میں آج سے شروع ہوتا ہے۔۔۔ آنے والے ہر کل کے لیے! کیونکہ ہمیں کل کبھی نہیں ملتا۔ ہم ہر کل کو آج ہی کی صورت میں دیکھتے ہیں۔

ہم آج کا شکر ادا کرتے ہیں اور اچھے کل کی امید لگاتے ہیں۔ آج کا شکر اور اچھے کل کی امید۔۔۔ یہی عمل ہمارے اعمال نامہ میں درج ہوتا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ بندہ ایک روز اپنے مالکِ حقیقی کے سامنے پہنچ جاتا ہے۔ مالکِ حقیقی سے فضل کی امید ہی تو انسان کا اثاثہ ہے۔

Comments are closed.