نیکی میں دیر نہ کیجیے۔

ظفر امام قاسمی

تقریباً ایک مہینہ پہلے کی بات ہے، کسی ضروری کام سے اپنی بستی کے نشیبی علاقے کی طرف میرا جانا ہوا، چونکہ ہمارے گاؤں کے تین حصوں میں سے وہ حصہ ذرا نشیب میں واقع ہے جس کی وجہ سے موسمِ برسات میں وہ حصہ اکثر کیچڑستان بنا رہتا ہے، اس لئے برسات کے موسم میں اس طرف سوائے ضروری کام کے اور جانا نہیں ہوتا۔
اس دن جب میں وہاں پہونچا، تو دیکھا کہ ایک ضعیف العمر بوڑھیا، جھری زدہ چہرہ، سوجی آنکھوں اور ماتھے کے عنوان پر فکر و تردد کی ابھری ہوئی سلوٹوں کے ساتھ میرے سامنے آکھڑی ہوئی، اس کی سوجی آنکھیں، پیشانی پر فکر و تردد کی موجزن سلوٹیں اور اس کا غمزدہ سراپا اس کے رت جگی ہونے کی داستان سنا رہا تھا۔
علیک سلیک کے بعد میں نے اس سے خبر خیریت دریافت کی، جس کے جواب میں اس بوڑھیا نے ایک سرد آہ بھری، اور چادر کے پلو سے اپنی آنکھوں کے کناروں کو صاف کرتی ہوئی کہنے لگی، ”بیٹا! ہم غریبوں کی کیا پوچھتے ہو، کاتبِ تقدیر نے ہم غریبوں کی قسمت میں سوائے محرومیوں کے اور لکھا ہی کیا ہے“ میں نے اسے دلاسہ دیا اور صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا ” نانی ماں! (حقیقت میں وہ گاؤں کے رشتے میں نانی ہی لگتی ہے) صبر کیجیے، خدا سب ٹھیک کردےگا، میری بات سن کر وہ بوڑھیا روہانسی ہوگئی، اس پر جذبات کا ہیجان غالب ہوگیا اور ٹپکتے آنسؤوں پر ضبط کا بند باندھتے ہوئے شکست خوردہ لہجے میں کہنے لگی” بیٹا! کہاں تک صبر کروں، سالوں پہلے خدا نے ایک منگنی شدہ بیٹی کو اچانک اپنے پاس بلالیا تھا، اس سے جو چھوٹی والی تھی وہ تقریباً اپنی عمر کے تہائی حصے تک اپنے رفیق زندگی کے انتظار ہی میں بیٹھی رہی،کافی تگ و دو کے بعد ان کا رشتہ ہو پایا، تنکا تنکا جوڑ کر ہم نے اس کی شادی کی رسم ادا کی تھی، کتنے مان ارمان کے ساتھ اسے ڈولی پر بٹھا کر ساجن کے گھر روانہ کیا تھا، پر افسوس کہ ابھی شادی کا زیادہ عرصہ بھی نہ گزرا تھا کہ بستر مرگ پر پڑی ہوئی اپنی آخری سانسیں گن رہی ہے، اور اپنی زندگی کے ٹمٹاتے ہوئے چراغ کے ہمیشہ کے لئے خاموش ہونے کے لئے ہوا کے ایک ہلکے سے جھونکے کی منتظر ہے۔
بوڑھیا رنج و غم کے بھنور میں ڈوبی اپنی داستانِ غم سنائی جا رہی تھی اور میں پتھر کا مجسمہ بنے ان کی باتیں سنتا چلا جا رہا تھا کہ بوڑھیا اچانک ایک گلی کی طرف مڑگئی،اس کے ساتھ ہی میرے قدم جو بڑھیا کی باتیں سن کر زمین سے پیوست ہوگئے تھے حرکت میں آگئے اور پھر بڑی تیزی کے ساتھ بڑھیا کے نقش پا کو روندنے لگے اور پھر تھوڑی ہی دیر میں میری نظریں ایک چارپائی پر پڑے ہڈی کے ایک مجسمے پر ارتکاز ہوگئیں۔
مريضہ کی یہ حالتِ زار دیکھ کر میری یاد داشت کچھ پل کے لئے ماضی کی کتاب میں کھوگئی، جس میں کئی عناوین رقم تھے جن میں سے ایک عنوان اس مريضہ کے سراپے کا بھی تھا، جسے میں نے اپنے لاشعور کے زمانے سے لیکر شعوریت کی عمر تک دیکھا تھا،صحتیابی کے زمانے میں مريضہ کا قد کاٹھ اس درجہ توانا اور تندرست ہوا کرتا تھا کہ لوگ اس کی صحت کی مثالیں دیا کرتے تھے، بھرا بھرا جسم، لمبوتری قامت اور رشک انگیز ہیکل کی مالکن مريضہ کو دیکھتے ہوئے کبھی کسی کے تصور میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ ایک دن یہ چارپائی پر زندہ لاش بن کر بھی پڑی رہ سکتی ہے۔
الغرض مريضہ کی یہ حالتِ زار دیکھ کر بے ساختہ میری زبان سے ایک آہ نکلی اور آنکھوں کے سامنے آنسوؤں کے پردے حائل ہوگئے، ہماری آوازوں کے ہنگاموں سے کچھ ہی دیر میں مريضہ کی نڈھال آنکھیں کھل گئیں جو مجھے سامنے دیکھتے ہی بے اختیار برس پڑیں،مريضہ اپنی بےبسی اور کسمپرسی کی حالتِ زار نہایت مایوسانہ انداز میں سنا رہی تھی، اس درمیان اسے میری والدہ مرحومہ کی یاد بھی آگئی جن کے اوصاف حمیدہ اور خیرسگالی کے جذبے کو یاد کرتے ہوئے اس کی گھگھی بندھ گئی، اس بیچ وہ اپنی بوڑھی ماں سے مجھے چائے پلانے کے لئے کافی اصرار بھی کرتی رہی، لیکن میں نے معافی مانگتے ہوئے منع کردیا، بہرحال میں کافی دیر تک بیٹھا اس کی بجھتی ہوئی تمناؤں پر امیدوں کی شمع روشن کرنے کی ناکام کوشش کرتا رہا اور پھر غمزدہ دل،نمناک آنکھوں اور بجھے ہوئے من کے ساتھ وہاں سے رخصت ہوا۔
ویسے تو مجھے اس سے کچھ دنوں پہلے مريضہ کے متعلق معلوم ہوا تھا کہ وہ ایک جان لیوا بیماری کی شکار ہوگئی ہے، اور اس کے شوہر نامراد کے اس پر دھیان نہ دینے کے سبب اس کی بوڑھی ماں اور اکلوتے بھائی نے اسے یہاں ( میکے ) لاکر رکھا ہوا ہے، تاہم مجھے ابھی تک ایسا کوئی موقع نہ ملا تھا کہ اس کی مزاج پرسی کے لئے جا پاتا اور اس دن تو بس میں ویسے ہی کسی کام سے ادھر خالی ہاتھ ہی چل نکلا تھا، جس کی بناء پر میں ایک غریب اور لاچار مريضہ کی کچھ خاطر مدارات نہ کرسکا اور دل میں یہ ارادہ لیکر وہاں سے آیا کہ اگلی بار باضابطہ دیکھنے آؤنگا اور جہاں تک ممکن ہوا اس کی مدارات بھی کرونگا، لیکن افسوس کہ بدقسمتی سے میں دوبارہ ادھر نہ جاسکا ( چونکہ عموما گھر پر رہنا بھی نہیں ہوتا) اور پھر پرسوں مجھے اس کے انتقال کی خبر ملی، اور یوں میری نیکی کرنے کی تمنا مرحومہ کے جسم کے ساتھ ہی پیوند زمین ہوگئی۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ ” نیکی میں کبھی دیر نہیں کرنی چاہیے“۔
مرحومہ ایک غریب اور مفلوک الحال گھرانے کی پروردہ تھی،مرحومہ کل تین بہنوں سے تھیں اور جبکہ ان کا ایک اکلوتا بھائی بھی ہے، جب یہ بھائی بہنیں چھوٹے چھوٹے تھے تب ہی ان کے والد صاحب ایک دن گھر سے لاپتہ ہوگئے اور اب تک لاپتہ ہی ہیں، سر سے والد کا سایہ گم ہوجانے کے بعد اس کی غریب ماں نے جیسے تیسے کرکے ان کی پرورش کی، یہاں تک کہ سارے بہن بھائی شعور و آگہی کے مقام تک پہونچ گئے اور بہنوں کے اکلوتے بھائی نے اپنی ماں بہنوں کا پیٹ بھرنے کے لئے ملک بھر کی خاک چھاننی شروع کردی ، بظاہر لگ رہا تھا کہ اب اس گھر کے دن پھر گئے ہیں اور وہاں سے مصیبتیں ہرن ہوگئی ہیں، لیکن حقیقت میں اس گھر سے ابھی محرومیاں نکلی نہیں تھیں۔
اس اکلوتے بھائی اور ماں کی انتھک کوششوں سے اس گھر کی سب سے بڑی بیٹی کی ایک جگہ منگنی ہوگئی، لیکن افسوس کہ اچانک ایک جان لیوا مرض نے اس پر حملہ کردیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ایک دن روزے کی حالت میں اس کی زندگی کا چراغ بجھ گیا، اور اب یہ دوسری بیٹی ایک مہلک بیماری سے جوجھتی ہوئی ہمیشہ کے لئے آنکھیں موند لی، اب صرف اس گھر کی سب سے چھوٹی بیٹی اور اس اکلوتے بھائی کی سب سے چھوٹی بہن زندہ رہ گئی ہے جو ابھی بھی جوانی کی دہلیز پر بیٹھی اپنے ہاتھ پیلے ہونے کی منتظر ہے۔
مجھے اس حادثے سے ذاتی طور پر جو دھچکا لگا ہے میں اس کی تصویر صفحۂ قرطاس پر نہیں کھینچ سکتا۔
بس دعا ہیکہ اللہ مرحومہ کی مغفرت فرمائے، سییآت کو حسنات سے مبدل فرمائے، جنت الفردوس کے اعلی مقام میں جگہ عنایت کرے اور اس کے پسماندگان کو صبر جمیل کی توفیق بخشے۔۔۔ آمین یا رب العلمین ۔

Comments are closed.