عمان بھی اسرائیلی امن کی راہ پر محمد صابر حسین ندوی

عمان بھی اسرائیلی امن کی راہ پر
محمد صابر حسین ندوی
[email protected]
7987972043
خلیجی ممالک اسرائیلی امن کی حمایت کرتے جاتے ہیں، حمیت و غیرت اور خودداری کی ایک ایک اینٹ کھسکتی جاتی ہے، دینی صلابت، راہ مستقیم کی صعوبت (جو کہ منافقین کا خاصہ ہے) میں بکھرتے جاتے ہیں، مصر، سوڈان، عرب امارات اور بحرین کے بعد اب جلد ہی عمان کے ساتھ امن معاہدہ ہوسکتا ہے، اور باضابطہ تعلقات بحال ہوسکتے ہیں؛ بی بی سی نے ایک رپورٹ تیار کی ہے، جس میں عمان اور اسرائیلی تعلقات پر تحقیقات پیش کی گئی ہیں، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ملک کبھی کبھی اسرائیلی مفاد کو ترجیح دیتے ہوئے فلسطینی ریاست کی کڑیاں توڑ سکتا ہے، حالیہ دنوں میں بڑھتے مراسم اور حمایتی انداز سے یہی لگتا ہے، امن، امن کی پکار ان کے کانوں تک پہنچ چکی ہے اور وہ بھی جنگل کے بھیڑیوں کو بکریوں کا نگہبان مان کر سلامتی کی نیند سونا چاہتے ہیں، اس سے پہلے اب بھی ان دونوں ممالک کے درمیان غیر منظم روابط پائے جاتے ہیں، اگر تاریخی جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ ٢٠١٨ ء میں بنجامن نتن یاہو عمان کے دورے پر جاچکے ہیں، تب انہوں نے سلطان قابوس کے ساتھ مشرق وسطی میں امن قائم کرنے کے متعلق گفتگو کی تھی، یہ ملاقات پرجوش تھی، ہنگامہ خیز تھی، چنانچہ یہ بات سچ ہے کہ عمان نے ابھی تک علی الاعلان بین الاقوامی سطح پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے، مگر اس نے عرب امارات اور بحرین کے اقدام کو درست ٹھہرایا ہے، ویسے بھی ان دونوں ملکوں کے درمیان پرانی دوستی رہی ہے، عمان کھاڑی کا پہلا ملک ہے جس نے ١٩٩٢ میں مدریت کانفرنس کے بعد واٹر ریسرچ پر ایک مرکز کھولا تھا، جہاں یہودی اسرائیلیوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے، بلکہ ان ہی کی بالادستی ہے، ایسا کہا جاتا ہے کہ اسی راہ سے عمان میں یہودیوں کیلئے مزید نرمی پیدا ہوئی ہے، آپسی میل ملاپ نے بہت سی راہیں کھولی ہیں۔
اسی طرح اسرائیل کے سابق وزیراعظم رابین بھی یہاں آچکے ہیں، ان کے بعد شیمون پیریس بھی آئے تھے، تو وہیں امریکہ بھی عمان پر زور دیتا رہا ہے کہ آپ کو اسرائیل کے ساتھ چلنا ہے، ان کے قدم سے قدم ملانا ہے؛ جبکہ عمان کی یہ انوکھی ادا بتائی جاتی ہے کہ وہ پہلا کھاڑی کا ملک ہے جس نے خارجی ڈپلومیسی منفرد انداز میں اپنائی ہے، اس نے ایران سے بھی اپنے رشتے بہتر بنا کر رکھے ہیں، ٢٠١٨ میں نتن یاہو کے مسقط دورے کے ٹھیک چار دن پہلے عمان کے بیرونی تعلقات کے معاون محمد بن اوس الحسان نے تہران کا دورہ کیا تھا، اور ایران کے منتری جواز عریب سے ملاقات کی تھی، یعنی عمان نے ایک ساتھ ہی اسرائیل اور ایران سے دوستانہ رویہ اختیار کیا تھا، اسی طرح عمان کھاڑی اور عرب ملک ہونے کے ساتھ اس نے اندرونی نظام کو مضبوطی سے سنبھالا ہے، اس نے کبھی بھی دوسرے ملک کے معاملے میں دخل اندازی نہیں کی ہے، حالانکہ گزشتہ دہائیوں میں خلیجی ممالک نے ایک دوسرے ملک میں دراندازی کرنے کی کوشش کی ہے، جس کا سلسلہ لگاتار جاری ہے، بالخصوص یمن اور سیریا کا معاملہ ہے، عمان نے ان دونوں کے ساتھ ڈپلومیٹک سلوک کیا ہے، بعض ماہرین سے جب یہ سوال کیا گیا کہ کیا عمان کو اسرائیل کے ساتھ جانے میں کوئی الجھن نہیں ہوسکتی ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ عمان ایران، ترکی وغیرہ یہاں تک کہ اسرائیل سے بھی بین بین معاملہ کرتا رہا ہے، چنانچہ جب دوفار میں بغاوت ہوئی تھی تب ایران نے اپنی فوج بھیج کر وہاں سے باغیوں کو کھدیڑ دیا تھا، انقلاب کے بعد ایران سے مزید اچھے رشتے رہے ہیں؛ نیز جب کھاڑی ملکوں نے صدام حسین سے رشتہ توڑ لیا تھا، تب عمان نے ایسا کرنے سے منع کردیا تھا، اس کے اس رویہ عرب ممالک نے سخت تنقید بھی کی تھی، مگر اسے خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنی الگ ہی پالیسی اپنائی تھی-
ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ جب ١٩٧٩ میں مصر نے اسرائیل کو قبول کر لیا تھا تب صرف عمان ہی ایک ایسا ملک تھا، جس نے اسے مثبت قرار دیا تھا، اسے امن کی جانب بہتر اقدام بتلاتے ہوئے مصر کا ساتھ دیا تھا، ان دونوں نئے سلطان ہیتم بن طارق السعید نے وزیر خارجہ کو برطرف کیا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمان اسرائیل کو لیکر جلد بازی نہیں کرنا چاہتا، اور اگر اسے اس نظریہ سے دیکھا جاتا ہے؛ کہ متحدہ عرب امارات اور بحرین اس پر حاوی ہورہے ہیں تو شاید یہ غلط فہمی ہوسکتی ہے، کیونکہ ان ممالک سے عمان کے تعلقات کچھ خاص نہیں ہیں، ایسا مانا جاتا ہے کہ متحدہ عرب امارات عمان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتے ہوئے سلطان قابوس کا تختہ پلٹ کرنا چاہتا تھا، اس لئے عمان اس سے بالکل بھی خوش نہیں ہے، تو وہیں یمن کو لیکر بھی عرب امارات کی پیشقدمی سے وہ ناراض ہیں، اس لئے کہ اس سے ان کے ملک میں مہاجرین کا مسئلہ بھی سنگین ہوتا ہے، مگر اب نئے سلطان کیا وہی پرانا رویہ اختیار کرتے ہیں یا پھر نئی راہ اپناتے ہیں یہ وقت ہی بتا سکتا ہے؛ تاہم ماہرین مانتے ہیں کہ عمان کو اب بھی دو خطرات ملحق ہیں، انہیں پر ان کی خارجی پالیسی کا انحصار ہوگا، سب سے پہلا خطرہ دوفار میں بغاوت کا ہے، یہ عمان کا سب سے بڑا حلقہ ہے، اسے دو حصوں میں تقسیم کردیا گیا ہے جس سے وہاں کے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ گیس اور تیل کا منافع ان کے علاوہ کسی دوسرے کو دیا جاتا ہے، دوسرا خدشہ اسے یہ ہے کہ وہ شاید ایران کو ناراض کرنا نہیں چاہے گا، عمان اگرچہ تحفظات میں امریکہ کا محتاج ہے؛ لیکن اپنے ارد گرد مضبوط حلیف کا بھی اسے خیال ہے، ویسے بھی امریکہ اب خلیج میں اسرائیل کو مقدم کرتے ہوئے خود کو الگ کرنا چاہتا ہے، اگر ایسا ہے تو ظاہر ہے کہ عمان کو ایران کی ضرورت پڑے گی، چنانچہ اگر عمان اسرائیل کے ساتھ جانا چاہتا ہے تو اسے ان خطرات کو بھی سامنے رکھنا ہوگا۔
21/09/2020
Comments are closed.