معاش کے کم خرچ اور مفید ذرائع! محمد صابر حسین ندوی

معاش کے کم خرچ اور مفید ذرائع

 

محمد صابر حسین ندوی

[email protected]

7987972043

 

 

زندگی میں ایک بڑا مسئلہ معاش کا ہے، یقیناً اسے صرف ایک ضرورت سمجھنا چاہئے؛ لیکن یہ ایسی ضرورت ہے جس کے نہ ہونے پر روحانیت بھی متاثر ہوتی ہے، للہیت و تقوی اگر صدیقیت کے درجہ پر نہ ہو تو بلاشبہ اس میں بھی انسان غوطہ کھاتا ہے، گھر، بال، بچے ہی اگر پرسکون نہ ہوں، ان کی ضروریات پوری نہ ہوپاتی ہوں تو بھلا ایک شریف النفس انسان کبھی اپنے آپ کو مطمئن نہیں کیسے رکھ سکتا ہے، رجائیت اسے زندہ رکھے گی، مگر زندگی کا لطف مار دے گی، طبیعت نڈھال اور بے چین ہو کر ارد گرد منفی اثرات کا مالک بن جائے گا، بالخصوص موجودہ دور میں معاشی استحکام کی اہمیت کہیں زیادہ ہے، جبکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ہی دنوں معاشی تنگی نے آگھیرا ہے، ملکی نظام نے نوکریاں بنانے اور نوجوانوں کو مواقع فراہم کرنے سے کنارہ کرلیا ہے، کرونا وائرس اور لاک ڈاؤن نے پرائیویٹ تجارتی ذرائع کو منہدم کردیا ہے، ہر کوئی پریشان ہے، اس میں اگر مدعیین وارثین انبیاء کو منسلک کر لیا جائے تو حالات زار و نزار ہیں، ایسے میں اشد ضرورت ہے کہ ایسے ذرائع اختیار کئے جائیں جن سے مسلمانوں کے اندر معاشی استحکام اور اعتماد پیدا ہو، وہ سرکاری نظام ساتھ ہی غیروں کے دست نگر بننے کے بجائے اپنے ہاتھوں کی ہنرمندی اور فنکاری سے فائدہ اٹھائیں، انہیں ان ذرائع کی جانب راغب کیا جائے جو کم خرچ بھی ہوں اور زیادہ مفید بھی ہوں، جس میں تجارت، زراعت اور ہاتھوں کی مہارت کا خاص دخل ہے، یومیہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ ہنرمند زندگی کی مشقتوں میں بھی چمکتے ہیں، اگر ان میں قناعت کی صفت ہو تو رحمت بن کر گھر بار سنبھالتے ہیں، اپنے آپ کو نہ صرف عزت کی روٹی سے سیر کرتے ہیں؛ بلکہ خودداری اور غیرت کی زندگی بھی جیتے ہیں، ویسے بھی ہندوستان میں مسلمانوں نے گزشتہ عرصہ میں جو کچھ ترقی کی ہے وہ اسی کی دین ہے، بلکہ کئی رپورٹس بتاتی ہیں کہ مسلمانوں نے اپنے بل بوتے خاصی ترقی ہے، ایسا کہا جاتا ہے کہ دہلی فساد کے پیچھے یہ عنصر بھی تھا کہ وہاں مسلمان خود کفیل ہورہے تھے، جن سے ایک بڑا طبقہ خار کھاتا تھا، بہرحال ایک جمہوریت کے نام پر فاشسٹ سرکار کی ماتحتی میں ترقی کیلئے یہی نسخہ کیما ہے، استاد محترم حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی مدظلہ نے ایک تحریر میں معاش کے اہم ترن ذرائع پر توجہ دلائی تھی، جو وقت کی اہم ضرورت ہے، آپ رقمطراز ہیں:

"معاش کے دو قدیم ترین ذرائع ہیں: زراعت اور مویشی پالن، پہلے یہ کام معمولی سطح پر کیا جاتا تھا؛ لیکن اب زراعت اور مویشی پالن کی ایک پوری سائنس وجود میں آچکی ہے، جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرکے کم جگہ میں زیادہ پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے۔ جہاں پانی کم ہو وہاںاسی لحاظ سے ایسی چیز وں کی زراعت کی جاسکتی ہے جس میں زیادہ پانی کی ضرورت نہیں پڑتی، مویشی پالن کے ایسے طریقے آگئے ہیں کہ کم مدت میں جانور کا وزن بڑھ جاتا ہے، مسلمانوں کو ان ذرائع کے اختیار کرنے کی ترغیب دینی چاہئے، اس طرح کم وسائل کے ذریعے وہ زیادہ آمدنی حاصل کرسکتے ہیں، اس کی بہترین مثال پنجاب ہے، جہاں معیشت کا بنیادی ذریعہ زراعت ہے، پھر بھی وہ معاشی ترقی کے اعتبار سے ملک کی ریاست نمبر ایک سمجھی جاتی ہے، مسلمان کاشتکار عام طور پر شعور سے تہی دامن ہیں اور وہ حالات کو دیکھے بغیر روایتی کاشت کو جاری رکھے ہوئے ہیں. روزگار کا ایک کم خرچ اور مفید ذریعہ ہنر ہے، ہنرمندوں کی ضرورت قدم قدم پر پیش آتی ہے،الیکٹریشن ہو یا پلمبر، یا کسی اور فن کا ماہر، ہر جگہ اس کی طلب ہے، خلیجی ممالک میں ہنرمندوں کی بہت زیادہ کھپت ہے،بعض شعبے ایسے ہیں جن سے خواتین بھی استفادہ کر سکتی ہیں، جیسے: نرسنگ، میڈیکل لیب، گارمنٹ کی تیاری، وغیرہ، میں جب بنگلہ دیش گیا تو دیکھاکہ گارمنٹ فیکٹری کے باہر عورتوں کی لمبی قطاریں کھڑی ہیں، یہ سب وہاں کام کرنے والیاں ہیں اور انہیں معقول معاوضہ ملتا ہے، اسی کے نتیجے میں بنگلہ دیش اس وقت سارک ممالک میں معاشی ترقی کے اعتبار سے اول نمبر پر ہے، بعض ہنر ایسے بھی ہیں کہ جو لوگ زیادہ جسمانی محنت نہیں کرسکتے اور کسی قدر تعلیم یافتہ بھی ہیں، وہ ان سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں، حکومت اسکیل ڈیولپمنٹ کے نام سے ہنرمندوں کی تیاری پر بہت توجہ دے رہی ہے اور اس کی بہت حوصلہ افزائی کرتی ہے، اس سے فائدہ اٹھانا چاہیے”۔ (شمع فروزاں:٢٨/٠٨/٢٠٢٠)

 

 

22/09/2020

Comments are closed.