دینی مدارس اور آن لائن تعلیم

مفتی محمد عبداللہ قاسمی
موبائل نمبر : 8688514639
اس وقت پورے عالم کے جو حالات ہیں وہ کسی بھی شخص سے مخفی نہیں ہے ،کرونا وائرس نے پوری دنیا کے منظر نامے کو بدل کر رکھ دیا ہے، اس مہیب اور مہلک وائرس کو سر اٹھائے ہوئے سات آٹھ مہینے ہو چکے ہیں ، اور لاکھوں لوگ اب تک اس جان لیوا وائرس کے شکار ہو کر موت کے آغوش میں جا چکے ہیں،دنیا بھر میں میڈیکل سائنس کی ترقی کے باوجود اس کا اب تک کوئی کامیاب علاج دریافت نہیں ہو سکا،اور نہ اس حوالہ سے اب تک کوئی خاص پیش رفت ہوسکی ہے، موجودہ حالات نے یہ ثابت کردیا کہ آنکھوں کو دکھائی نہ دینے والے وائرس سے بچاؤ اور تحفظ کے لیے دنیا بھر میں تالہ بندی کی جو حکمت عملی اختیار کی گئی، اور جبر وطاقت کا استعمال کر کے اس کو عالم انسانی پر مسلط کیا گیا اس سے بیماری کا خاتمہ ہوا نہ ہی انسانی جانوں کا کماحقہ کو تحفظ ہوا ،تاہم اتنا ضرور ہے کہ اس غیر معقول اور غیر دانشمندانہ فیصلے کی وجہ سے انسانی زندگی کے تمام شعبہ جات حد درجہ متاثر ہوئے ،لاکھوں ملازمتیں ختم ہوگئیں، تجارت اور کاروبار ٹھپ پڑگیا، نقل و حمل کے ذرائع مسدود ہوگئے ، غربت اور بے روزگاری کی شرح بڑھ گئی، افلاس اور بھوک مری عام ہوگی ،خود کشی کے رجحان میں غیر معمولی اضافہ ہوا، ملک میں لاک ڈاؤن ختم ہوئے اگرچہ دو تین مہینے گزر چکے ہیں ، تاہم ابھی تک معمولات زندگی مکمل طور پر بحال نہیں ہوئی ہیں، مصروف زندگی کی رعنائیاں ابھی تک ماند پڑی ہوئی ہیں۔
ملک گیر تالا بندی کی وجہ سے دینی مدارس کی تعلیم پر بھی خاصا اثر پڑا ہے ،سال گزشتہ تعلیم کا تقریبا ایک ڈیڑھ مہینہ نقصان ہو چکا ہے،اور اب نیا تعلیمی سال شروع ہوئے تین مہینے سے زائد ہو چکے ہیں ؛لیکن اب تک حکومت کی طرف سے باقاعدہ تعلیم گاہیں کھولنے کی اجازت نہیں ملی ہے، اور مستقبل قریب میں بھی دانش گاہوں کے کھلنے کے امکانات بہ ظاہرموہوم نظر آرہے ہیں، اگر حکومت کی طرف سے اسکول ،کالج اور مدارس کھولنے کی اجازت بھی ملتی ہے تو اس کے لئے جو ہدایات (guidelines)جاری کی جائیں گی ان پر محدود وسائل کے ساتھ عمل آوری کو یقینی بنانا مدارس دینیہ کے لئے ایک چیلنج سے کم نہیں ہوگا،دوسرے جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی _______ جس کی خمیر میں اسلام دشمنی داخل ہے اور اسے اسلام اور مسلمانوں سے بلا درجے کا بیر ہے _______ برسر اقتدار آئی ہے،اس نے مسلمانوں کے ساتھ سوتیلا رویہ اختیار کیا ہے ، اور مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری ثابت کرنے اور انہیں سماجی دھارے سے الگ کرنے کے لیے اس نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہے، کورونا وائرس کے نام پر تبلیغی جماعت کو جو بلی کا بکرا بنایا گیا،اور مودی نواز میڈیا کے ذریعے جو حقائق کو کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ، اور ملکی سطح پر مسلمانوں کو بد نام کرنے کی جو ناپاک کوششیں کی گئیں ان سے ہر کوئی واقف ہے،ایسے حالات میں جب کہ کورو نا کے کیسز میں غیر معمولی اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے،اور وقت گزرنے کے ساتھ حالات مزید ابتر ہی ہوتے جا رہے ہیں، حکومت کی طرف سے باقاعدہ اسکول، کالج اور مدارس کھولنے کی اجازت کے بعد بھی مدارس میں روایتی تعلیمی سرگرمیاں شروع کرنا اور ان میں طلبہ کے لئے قیام وطعام کا انتظام کرنا آسان ثابت نہیں ہوگا،فی الحال کچھ مدارس نے آن لائن تعلیم کا سلسلہ شروع کیا ہے ،اور تالا بندی کی وجہ سے جو تعلیمی نقصان ہوا ہے اس پر کسی حد تک قابو پانے کی کوشش کی ہے، یہ ٹھیک ہے کہ آن لائن تعلیم میں مدارس کو کئی مشکلات درپیش ہیں، نیٹ ورک کی کمی، آوازوں کا انقطاع اور عدم تسلسل ،دیگر تکنیکی مسائل،طلباء کا فون کا غلط استعمال کرنے کا خدشہ اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ طلبا کا براہ راست اساتذہ سے روبرو ہو کر استفادہ کرنا اور اپنی علمی پیاس بجھانا، نیز مدارس میں باقاعدہ دارالاقامہ کا جو تربیتی نظام ہوتا ہے طلبہ کا اس کا حصہ بن کر اپنی شخصیت کو سنوارنا اور اپنے ایمان و یقین کو روحانی غذا بہم پہنچانا ظاہر ہے کہ آن لائن تعلیم میں اس کے مواقع نہیں ہیں،تاہم ہمیں یہ حقیقت بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ مدارس میں آن لائن تعلیم کا جو فیصلہ کیا گیا ہے وہ عارضی اور وقتی ہے ،ورنہ پائیدار اور مضبوط تعلیم کا منہج و اسلوب وہی قدیم اور روایتی ہے جو سالہا سال سے مدارس کے اندر چلا رہا ہے، طلبہ مدارس میں حاضر ہوکر براہ راست اساتذہ کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کریں، اور وہاں کے چشمہ فیض مستفید اورفیض یاب ہوں ،اور دارالاقامہ کے تربیتی نظام سے منسلک ہوکر اپنے اخلاق و کردار کے بام و در کو گلشن سیرت کے عطر بیز پھولوں سے مہکائیں،اپنی ظاہری زندگی کے ساتھ باطنی زندگی کو بھی شریعت کے قالب میں ڈھالیں، دوسرے اس فیصلے کے پیچھے یہ جذبہ بھی کار فرما ہے کہ پورے سال اگرخدانخواستہ تعلیم منقطع رہے تو اس سے جو نقصان ہوگا وہ کسی باشعور اور حساس شخص پر مخفی نہیں، اس لئے پورے سال کی تعلیم کا نقصان کرنے سے نسبتاً یہی بہتر سمجھا گیا کہ آن لائن ہی سہی تعلیم کا آغاز کردیا جائے ،اور مالا یدرک کلہ لایترک کلہ کے اصول پر عمل آوری کو یقینی بنایا جائے،جہاں تک طلبہ کےفون کا غلط استعمال کرنے کا خدشہ ہے تو یہ طلبہ کے اولیاء اور ان کے سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں اور مفید وصالح مقاصد کے لیے فون کے استعمال کو یقینی بنائیں۔
موجودہ حالات میں آن لائن تعلیم مدارس میں مناسب ہے یا نہیں ؟اس مقصد کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا شرعا کیا حکم رکھتا ہے؟ہم غور کرتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اہم امور کی انجام دہی کے لیے رائج وسائل کا استعمال کرنا مستحسن ہے، اور شریعت میں مطلوب بھی ہے، اور اس حوالے سے سیرت طیبہ بھی ہماری رہنمائی کرتی ہے، چنانچہ زمانہ جاہلیت میں مکہ مکرمہ کے اندر یہ دستور تھا کہ اگر کسی شخص کو اہم اور ناگزیرخبر سنانی ہوتی تو وہ صفا پہاڑی پر چڑھ جاتا اور عرب کے قبائل کو جمع کرکے اپنی بات ان تک پہنچاتا، اللہ تعالیٰ نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جب کھلے عام اہل مکہ کو دعوت دینے اور ان تک پیغام حق پہنچانے کا حکم دیا،تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فلک پیما مقصد کے لیے رائج اور معروف طریقہ کار کا اپنایا ، جس کو اہل مکہ اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے لیے اپنایا کرتے تھے، چنانچہ آپ صفا پہاڑ پر چڑھ گئے اور تمام قبائل کو نام بہ نام پکارا، جب وہ جمع ہوگئے تو آپ نے بڑے موثر اور دلنشیں اسلوب میں انہیں دین کی دعوت دی اور انہیں شرک و بت پرستی سے منع کیا۔
بلند مقاصد اور اہم ترین امور کی انجام دہی کے لیے ایک ہی طریقے پر اصرار اور جمود غیر دانشمندانہ سوچ ہے؛ نامساعد اور دشوار کن حالات میں وہی شخص کامیاب و کامران ہوتا ہے جو متبادل راہ اختیار کرنے کا فن جانتا ہے، اور شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے جدید وسائل سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتا ہے، یہ شریعت کے مزاج سے ہم آہنگ ہے اور عقل و فطرت کے موافق بھی ہے، اس سلسلے میں ہمیں سیرت طیبہ سے بھی رہنمائی ملتی ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پورے عالم کے انس و جن کی رشد و ہدایت کے لئے مبعوث کیا گیا تھا، جب آپ کے مبارک دعوتی جدوجہد کے نتیجے میں عرب میں اسلام پھیل گیا، اور ریاست اسلامی کی ضیاپاش کرنیں آفتاب نیم روز کی طرح پھیلنے لگیں تو آپ نے عرب کے مختلف قبائل کی طرف حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کو بھیجا ،اور انہیں دین کی دعوت دینے کا حکم دیا،اسی طرح شاہان عالم کی طرف صحابہ کرام کے ہاتھوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خطوط روانہ فرمایا اور انہیں اسلام کی دعوت دی،حالاں کہ قبائل عرب اور شاہان عالم کے پاس جانا اور انہیں دعوت دینا خود اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ تھا،لیکن حالات ایسے تھے جن کی وجہ سے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ازخود ان کے پاس نہیں پہنچ سکتے تھے، چنانچہ آپ نے اس کی متبادل راہ اختیار کی، اور حضرات صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین کے توسط سے آپ نے دعوت دین کا فریضہ انجام دیا، سیرت نبوی کے اس واقعہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ ناگزیر اور سخت حالات میں متبادل راہ اختیار کی جاسکتی ہے ۔
نیز عقل و فطرت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ جب انسان دو مصیبتوں میں گرفتار ہو جائے اور ان سے چھٹکارا پانے کے لیے کوئی چارہ کار نہ ہو تو اس مصیبت کو اختیار کرے جو نسبتا آسان ہو، معمولی ہو اور ہلکی ہو،چنانچہ روایات میں آتا ہے کہ ایک صحابی اللہ عنہ مسجد نبوی کے اندر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ،پیشاب کا تقاضہ ہوا تو مسجد نبوی کے ایک کونے میں پیشاب کرنے لگے،صحابہ نے اس بدوی کو ٹوکا ، اور مسجد میں پیشاب کرنے سے منع کیا،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرات صحابہ کرام سے فرمایا : تم اسے مت روکو ،اسے پیشاب کرنے دو ، جب وہ پیشاب کر کے فارغ ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے حضرات صحابہ کرام سے کہا کہ اس جگہ پانی بہادو؛ تاکہ نجاست اور گندگی دور ہو جائے ، پھر آپ نے اس بدوی کو بلایا اور نہایت شفقت آمیز لہجہ میں اسے سمجھایا کہ یہ مسجد ہے ، اللہ تبارک وتعالیٰ کا گھرہے، اس میں پیشاب نہیں کرنا چاہیے، مذکورہ بالا واقعہ میں یہ پہلو خاص طور پر توجہ کا طالب ہے کہ بدوی جب مسجد میں پیشاب کرنے لگا ، اور حضرت صحابہ کرام اسے منع کرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بجائے اس کے کہ اس دیہاتی کی سرزنش کرتے اور اس کی اس غیر شائستہ حرکت پر داروگیر فرماتے ، آپ نے حضرات صحابہ کرام کو روکا ، اور اس بدوی کو ٹوکنے سے انہیں بازرکھا،حضرات محدثین کے بقول اس کے پیچھے حکمت یہ تھی کہ وہ بدو مسجدکے آداب اور طور طریقے سے آشنا نہیں تھا ،اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بافیض صحبت سے اسے باقاعدہ فائدہ اٹھانے کا موقع نہیں ملا تھا ، اگر اسے موقع پر ہی پیشاب کرنے سے اچانک روک دیا جاتا تو اس کے مرض میں مبتلا ہو جانے کا اندیشہ تھا، اور اس کی وجہ سے اسے سخت نقصان پہنچتا ،اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے مناسب سمجھا کہ اسے اطمینان سے پیشاب کر لینے دیا جائے ، جب وہ پیشاب سے فارغ ہوگیا تو آپ علیہ السلام نے اسے محبت سے سمجھایا ،اور حضرات صحابہ کرام کو پیشاب پر پانی بہانے کا حکم دیا ؛تاکہ نجاست اور گندگی کا ازالہ ہو جائے، اگر آپ غور کریں گے تو آپ کو اندازہ ہو گاآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہون بلیتین کو اختیار فرمایا،کیوں کہ یہاں دو آپشن تھے: ایک آپشن یہ تھا کہ دیہاتی کو مسجد میں پیشاب کرنے دیا جائے اور اسے موقع پر ہی نہ روکا جائے ، اس سے گو مسجد ملوث ہونے اور فرش کے ناپاک ہونے کا اندیشہ تھا ؛ تاہم اسے روا رکھا گیا؛ کیونکہ فرش کو پاک کرنے کی صورت موجود تھی،دوسرا آپشن یہ تھا کہ بدوی کو مسجد میں پیشاب کرنے سے موقع پر ہی منع کر دیا جاتا ،اس سے گو مسجد ملوث نہیں ہوتی ؛تاہم وہ سخت بیماری میں مبتلا ہوجاتا اور وہ ناقابل برداشت تکلیف سے دوچار ہوتا؛ اس لیے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ راہ اختیار فرمائی جس میں نسبتاً زیادہ نقصان اور خطرہ نہیں تھا۔
مذکورہ بالا حدیث سے قدرتی طور پر ایک ضابطہ سمجھا جا سکتا ہے جو عقل ومصلحت سے بھرپور ہونے کے ساتھ ساتھ فطرت انسانی سے بھی ہم آہنگ ہے ،وہ یہ کہ اگر انسان دو مفسدوں میں مبتلا ہوجائے اور ان سے بچنے کے لئے اسے کوئی چارہ کار نہ ہو تو اس راہ کو اختیار کرنا چاہیے جو آسان اور سہل ہو اور نسبتاً کم نقصان کا حامل ہو ؛ اسی وجہ سے حضرات فقہاء نے _______جو مزاج شریعت سے آشنا ہوتے ہیں ،اور قرآن و حدیث کے نصوص وعلل پر ان کی گہری نظر ہوتی ہے_______نے یہ ضابطہ وضع کیا ہے کہ جو شخص دو بلاؤں میں گرفتار ہو جائے تو ان دونوں میں جو نسبتا معمولی ہو اسے اختیار کرنا چاہیے ،یہ ضابطہ جس کی حدیث سے تائید ہوتی ہے اور انسانی نفسیات سے بھی ہم آہنگ ہے، اس مسئلے میں بھی کار فرما ہے جو حضرات فقہاء نے بیان کیا ہے کہ اگر کسی شخص کے پاس ناف سے لے کر گھٹنے تک ستر چھپانے کے بقدر کپڑا نہ ہو اور اسے یہ اندیشہ ہو کہ اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھے گا تو اس کا سترچھپ نہیں سکے گا تو ایسے شخص کے لئے بیٹھ کر نماز پڑھنا ضروری ہے ،یہاں پر بھی دو قباحتیں موجود ہیں: کھڑے ہو کر پڑھنے کی صورت میں اگرچہ ایک فرض یعنی قیام کی ادائیگی پائی جاتی ہے؛ تاہم دوسرا فرض فوت ہو جاتا ہے، اور بیٹھ کر نماز پڑھنے کی صورت میں قیام کا فرض ادا ہو جاتا ہے لیکن ستر عورت نہیں ہو پاتا ہے؛چوں کہ قعود بعض حالات میں میں قیام کا نائب اور متبادل ہے، اور ستر عورت کا کوئی متبادل نہیں ہے ؛ اسی لیے بیٹھ کر نماز پڑھنے کو لازم اور ضروری قرار دیا گیا۔
اسی ضابطہ کی روشنی میں میں حضرات فقہاء نے لکھا ہے کہ اگر کسی شخص کو زخم ہو ، اور سجدہ کرنے کی صورت میں میں زخم سے خون یا پیپ وغیرہ رسنے کا اندیشہ ہو تو ایسا آدمی اشارے سے سجدہ کرے گا ، اس صورت میں بھی آدمی دو بلاؤں میں گرفتار ہے : ناپاکی کے ساتھ نماز پڑھنا ،زمین پر اپنی پیشانی ٹیک کر سجدہ کرنے کے بجائے اشارے سے سجدہ کرنا ،چنانچہ اہون بلیتین یعنی اشارے سے سجدہ کرنے کو جائز رکھا گیا ،اسی مسلمہ ضابطے کی وجہ سے حضرات فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر کوئی مسلمان کافر کے ہاتھوں گرفتار ہو جائے تو مسلمانوں پر لازم اور ضروری ہے کہ اسے فدیہ دے کر قید و بند سے چھڑائیں، یہاں پر بھی دو مفاسد ہیں: ایک یہ کہ مسلمان کو کافروں کی قید میں رہنے دیا جائے، اس سے اس مسلمان کو جسمانی اور دینی لحاظ سے جن مشقتوں کا سامنا ہوگا وہ مخفی نہیں ہے، دوسرے کافر کو فدیہ دیا جائے جس کے نتیجے میں کافر معاشی اور اقتصادی لحاظ سے مضبوط ہوگا اور کو ئی بعید نہیں کہ وہ یہ معاشی قوت مسلمانوں اور اسلام کے خلاف سرگرمیوں میں استعمال کرے؛ لہذا یہاں اہون بلیتین یعنی کافر کو فدیہ دے کر مسلمان کو اس کی قید سے آزاد کرنا گوارہ کر لیا گیا۔
آن لائن تعلیم کے پیچھے بھی یہی جذبہ کار فرما ہے ،اگر تعلیمی سلسلہ پورے سال منقطع رکھا جائے تو بچوں کی تعلیم کا جو نقصان ہوگا وہ کسی پر مخفی نہیں،آن لائن تعلیم میں گو کچھ مشکلات ہیں،اور افادہ واستفادہ میں رکاوٹیں پیش آرہی ہیں، تاہم بالکل ہی تعلیم موقوف رکھنے کے مقابلے میں یہی نسبتا بہتر ہے اور حالات زمانہ سے بھی ہم آہنگ ہے۔
جہاں تک طلباء کے فون کاغلط استعمال کرنے کا خدشہ ہےتو یہ ایک حقیقت ہے کہ موبائل فون ایک دودھاری تلوار ہے،اوربسا اوقات اس کا نقصان زیادہ اور نفع کم ہوتا ہے،ملٹی میڈیا موبائل کے اندر میموری کارڈ اور سستے داموں میں حاصل ہونے والے انٹرنیٹ کے امتزاج نے وہ تباہی مچائی ہے کہ الامان والحفیظ ، یہ تباہی جسم کی نہیں جو گوشت اور ہڈیوں کا مجموعہ ہے؛ بلکہ اس روح کی ہے جہاں سے ایمان و یقین کاچشمہ پھوٹتا ہے ،یہ تباہی شہراور اس کے بلند و بالا مکانات کی نہیں ہے بلکہ اس روح پرور ایمانی فضا کی تباہی ہے جس کی وجہ سے یہ دنیا قائم ہے ،یہ تباہی املاک و جائیداد کی نہیں ہے ؛بلکہ اس عفت و عصمت کی ہے جو تمام خوبیوں کی بنیاد ہے، بدنظری، صنفی آوارگی، عریانیت و فحاشیت، اختلاط مردوزن ،ضیاع وقت اور اس طرح کے بے شمار گناہ ہیں جو اس ملٹی میڈیا موبائل کی دین ہیں،اس لیے سرپرستوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے بچوں کی نگرانی کریں، ضرورت کے بقدر موبائل استعمال کرنے کا بچوں کو پابند بنائیں، فضول اور غیرضروری چیزوں کے بجائے صالح اور تعمیری مقاصد کے لیے موبائل کے استعمال کو یقینی بنائیں ،جب اساتذہ اور ان کے سرپرست طلبہ پرمحنت کریں گے تو انشاءاللہ یہ ہمہ جہتی محنت رنگ لائے گی،اور بچے کی تعلیم کے ساتھ اس کے اخلاق و کردار کو بھی سنوارنے کا ضامن ہو گی۔
بعض بڑے مدارس جیسے دارالعلوم دیوبند اور مظاہر العلوم نے اب تک آن لائن تعلیم کا اعلان نہیں کیا ہے ،ہو سکتا ہے کہ اس کے پیچھے کچھ مصلحتیں کارفرماہوں، ویسے بھی تمام مدارس آن لائن تعلیم شروع کر دیں تو حکومت کو یہ کہنے کا موقع مل سکتا ہے کہ سارے مدارس نے آن لائن تعلیم شروع کر دی ہے تو پھر روایتی انداز میں طلبہ کو مدرسے میں بلاکر پڑھانے کی کیا ضرورت ہے؟ اس لئے بعض مدارس نے آن لائن تعلیم کا فیصلہ نہ کر کے گویا حکومت پر یہ دباؤ بنایا ہے کہ مدارس کھولنے کی جلد از جلد اجازت فراہم کی جائے ؛تاکہ مدارس کی تعلیمی سرگرمیاں شروع ہوجائیں ؛ اس لیے مدارس جو ہمارا قیمتی اثاثہ ہیں،دین و ملت کے محافظ اور نگہباں ہیں ان پر بے جا تبصرہ کرنا اور آن لائن تعلیم شروع کرنے والے مدارس کو طعن و تشنیع کا نشانہ بناناکسی بھی طرح ہمیں زیب نہیں دیتا۔
Comments are closed.