حضرت مولانا غلام محمد وستانوی-ہزاروں رحمتیں ہوں، اے میرکارواں تجھ پر

مولانا رضوان احمد ندوی
معاون ناظم امارت شرعیہ وسب ایڈیٹر ہفتہ وار نقیب،پٹنہ
افسوس ہے کہ4/مئی 2025ء کو ملک کے مشہور ومعروف اور ممتاز بزرگ عالم دین، روشن خیال ماہر تعلیم، قوم وملت کے ہمدرد وغمگسار، خادم القرآن والسنۃ حضرت مولانا غلام محمد وستانوی جوار رحمت میں جاپہونچے، انا لِلّٰہ وانا الیہ راجعون، اس اندوہناک خبر نے سب کو ششدر کر دیا، ہر ایک پر حزن وملال کی کیفیت طاری ہوگئی، آناً فاناً امارت شرعیہ پھلواری شریف میں ایک تعزیتی نشست منعقد ہوئی جس میں تمام ذمہ داران اور کارکنان نے گہرے صدمے کا اظہار کیا اور دعا مغفرت کی ؎
چاروں طرف فضا میں اداسی بکھر گئی
وہ کیا گئے کہ رونق شام وسحر گئی
گرچہ موت سے کسی کو مفر نہیں، لیکن بعض موتیں، قوموں اور ملتوں کیلئے ناقابل تلافی نقصان کا ذریعہ بنتی ہیں، حضرت مولانا وستانوی کی وفات بھی کسی ایک فرد اور شخص کی وفات نہیں، بلکہ اس دور میں صحیح طورپر ان کی وفات موت العالم موت العالم کی مصداق ہے، کیونکہ انہوں نے پوری زندگی قوم وملت کی بے لوث خدمت میں گذاری، شہرت وناموری اور آن بان سے کوسوں دور، خاموش سپاہی کی حیثیت سے اپنے مشن میں لگے رہے اور اپنے کردار وعمل سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بناتے رہے، افسوس کہ ہم نے ملت کے غم میں گھلنے والے قیمتی مسیحا کو کھویا، جس کی مدتوں تلافی نہ ہوسکے گی، عرصہ سے ان کی علالت اور ضعف ونقاہت کے باعث خرابی صحت کی خبر مل رہی تھی، مرض میں اتار چڑھاؤ کی کیفیت تھی، اسپتال میں ڈاکٹروں کی میڈیکل ٹیموں کی تشخیص وعلاج سے بھی آشنائی ہو رہی تھی، لیکن کیا کہئے تقدیر تدبیر پر غالب آگئی، بالآخر وقت موعود آگیا اور رب ذوالجلال کے حضور جاپہونچے، اب ہمارے واسطے رضاء بالقضاء کے سوا اور کوئی چارہئ کار نہیں، قضا وقدر پر ایمان لانا مومنانہ صفات کا حصہ ہے، ”ان لِلّٰہ مااخذ ولہ مااعطیٰ ولکل شیئ عندہ اجل مسمی“
حضرت مولانا غلام محمد وستانوی بن محمد اسماعیل بن محمد ابراہیم کی ولادت باسعادت 1950ء میں ریاست گجرات کے شہر سورت کے مشہور قصبہ کوساڑی میں ہوئی، عہد طفولیت میں ہی 1954ء میں آپ کے آباء واجداد کوساڑی سے نقل مکانی کرکے وستان میں سکونت پذیر ہوگئے، اسی گاؤں وستان کی نسبت سے آپ وستانوی سے مشہور ہوئے، جب آپ پڑھنے لکھنے کی عمر میں پہونچے تو اپنے نانیہال ہتھورن (سورت) کے دینی مکتب میں ابتدائی دینیات کی تعلیم پائی، اس کے بعد مدرسہ قوت الاسلام گھلا اور مدرسہ شمس العلوم بڑودہ میں متوسطات تک کی کتابیں پڑھیں، پھر مدرسہ فلاح دارین ترکیسر میں داخلہ لیا، جہاں 1964ء سے 1972ء تک یہاں کے ماہر فن اساتذہ سے علمی تشنگی بجھائی، طالب علمی کے دوران ہی1970ء میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلویؒ سے اصلاحی تعلق قائم کیا، ان کے بعد ولی کامل حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندویؒ سے راہ سلوک وتزکیہ باطن کے منزلیں طے کیں اور آخر میں شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد یونس جامعہ عربیہ مظاہر علوم کے دامن تربیت سے فیضیاب ہوئے، جہاں انہوں نے خرقہ خلافت سے نوازا، حضرت مولانا کا جامعہ مظاہر علوم سہارنپور سے بڑا قلبی لگاؤ تھا، اسی نسبت سے دورہ حدیث شریف کی تکمیل مظاہر علوم سے کی اور ۳۷۹۱ء میں سند فراغت پائی، دینی علوم کی تکمیل کے بعد درس وتدریس کے میدان میں قدم رکھا، دارالعلوم کنتھاریہ بھڑوچ سے وابستہ ہوئے اور تدریسی خدمات پر مامور ہوئے، بسا اوقات دعوت وتبلیغ اور رشد وہدایت کے لئے مختلف علاقوں کا دورہ فرماتے تھے، اسی اثنا میں دھولیہ کے اکل کنواں میں تعلیم وتربیت کے لئے ایک دینی درسگاہ کے قیام کی ضرورت محسوس کی، چنانچہ 1980ء میں جامعہ اشاعت العلوم اکل کنواں کے نام سے ایک معیاری تربیتی ادارہ کی داغ بیل ڈالی، پھر آہستہ آہستہ اس کی آبیاری کرتے رہے، ماشاء اللہ آج یہ ادارہ تدریجی طورپر ترقی کے منازل طے کرتے ہوئے ملک کے نامور مرکزی درسگاہوں میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ وہ اپنی بعض خصوصیات کے اعتبار سے دینی اور اسلامی علوم کا عظیم مرکز بن گیا ہے، اللہ تعالیٰ نے اس جامعہ کو ظاہری حسن اور دل کش عمارتوں کے ساتھ معنوی خوبیوں اور حقیقی کمالات سے بھی نوازا ہے، گرچہ میں ادارہ کی دیدار سے محروم ہوں، مگر ایک جاننے والے نے مجھے بتایا کہ یہاں اس وقت ساڑھے چودہ ہزار طلبہ علم نبوت سے فیضیاب ہورہے ہیں، اس کے احاطہ میں4/پرشکوہ مسجدیں ہیں جس سے نورانیت وروحانیت ٹپک رہی ہے، حضرت مولانا نے ملک کی متعدد پسماندہ ریاستوں کے مختلف علاقوں میں دو ہزار سے زیادہ دینی مکاتب، سات ہزار کے قریب مساجد، سیکڑوں پانی کے لئے بورنگ اور تیس بتیس معیاری شفاخانے تعمیر کرائے، نوجواں نسل کو باہنر بنانے کے لئے متعدد عصری تعلیم گاہیں قائم کیں، ٹکنیکل انسٹی ٹیوٹ، آئی ٹی آئی کے علاوہ میڈیکل کالج، انجینئرنگ کالج، B.Ed کالج وغیرہ کھولے جو نہایت ہی کامیابی کے ساتھ چل رہے ہیں، حضرت کا یہ نقطہ نظر تھا کہ ملت کے نونہال تعلیم کے ہر میدان میں ترقی کریں اور جدید وسائل سے استفادہ کرکے ملک میں اپنی ایک شناخت بنائیں، بلاشبہ ان کی خدمات اور کارناموں کو دیکھ کر دل یہی کہتا ہے کہ وہ اس عہد کے درحقیقت سرسید ثانی تھے۔
مولانا موصوف کو قرآن مجید سے خصوصی شغف تھا، اس کے لئے آپ نے قرآن شریف کو ترتیل وتجوید اور ادائیگی حروف ومخارج سے پڑھنے کی ترغیب وتحریک چلاتے، جگہ جگہ مسابقہ قرأت قرآن پاک کی مجلسیں سجاتے اور ہونہار طلبہ وطالبات اور حفاظ وقراء کو انعام واکرام سے نوازتے، اسی لئے آپ خادم القرآن کے لقب سے سرفراز ہوئے ؎
کمال عاشقی ہر شخص کو حاصل نہیں ہوتا
ہزاروں میں کوئی مجنوں کوئی فرہاد ہوتا ہے
اسی طرح حضرت مولانا کی پوری زندگی سراپا جہد وعمل سے عبارت تھی، مجھے ان کی چند خوبیاں بہت بھائیں، وہ یہ کہ آپ ایک سایہ دار پیڑکے مانند تھے جو خود دھوپ میں چل کر دوسروں کو سایہ پہونچاتے اور کم وقت میں زیادہ سے زیادہ کام کرلینا جانتے تھے، سادگی میں بھی وضعداری تھی، نہ اشتہاربازی اور نہ اخباربازی، بس خاموشی سے اپنے مشن میں لگے رہے اور نشان منزل تک پہونچنے کی تگ ودو کرتے رہے، ان میں ایک بڑا وصف کہئے یاخوبی کہ ان کے اندر ہمدردی وغمگساری کا عنصر غالب رہتا، اہل علم کی قدردانی اور غریب پروری تھی، جس کو آپ رازدارانہ طریقے پر انجام دیتے، ان کے جود وسخا کے چشموں سے بہت سے لوگ سیراب ہوچکے ہیں،یہ سب کمال تقویٰ وپرہیزگاری اور تعلق مع اللہ کا اثر تھا۔
گرچہ آپ کا خاص مشغلہ تعلیم وتعلم اور دینی تربیت کو عام کرنا تھا، تاہم قومی وملی مسائل سے بھی یک گونہ تعلق رکھتے تھے، چنانچہ آپ عرصہ تک جمعیۃ علماء بھڑوچ کے جنرل سکریٹری رہے، متعدد مدارس ومکاتب کے انتظامی صلاح کار بھی تھے، دارالعلوم دیوبند کی مجلس شوریٰ کے بھی رکن رہے، بلکہ 2011ء میں اس کے مہتمم بھی منتخب ہوئے، پھر کچھ سیاسی وجوہات کی بناء پر اہتمام سے علیحدہ ہوگئے، اللہ تعالیٰ نے آپ کو نو اولادیں عنایت فرمائیں،3/ لڑکے اور چھ لڑکیاں ہیں، جو سب آپ کے حسن تربیت سے نیک وصالح، متقی وپرہیزگار اور عالم وفاضل ہیں، ماشاء اللہ ان کے منجھلے صاحبزادے مولانا محمد حذیفہ وستانوی والد محترم کے جانشین مقرر ہوئے ہیں، اللہ انہیں ہمت وحوصلہ کے ساتھ والد ماجد کے مشن کو آگے بڑھانے کی توفیق بخشے، جامعہ کے ترجمان جریدہ شاہراہ علم میں ان کے چند مضامین کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان شاء اللہ وہ ”الولد سر لابیہ“ کا مصداق بن کر جامعہ کو ترقیوں کے بام عروج پر پہونچائیں گے۔
یادش بخیر- اس خاکسار کو عرصہ سے حضرتؒ کے فکر وفن اور تعلیمی تحریکات سے غائبانہ واقفیت تھی، مگر زیارت وملاقات سے محروم تھا، غالباً 2011ء کا واقعہ ہے کہ مخدوم گرامی قدر امیر شریعت سادس حضرت مولانا سید نظام الدینؒ کی معیت میں دیوبند جانا ہوا، جہاں مولانا وستانوی سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا اور دل پر ان کی شرافت وعظمت کا نقش اسی وقت قائم ہوگیا، جو اب تک دل میں بیٹھا ہوا ہے، اس کے بعد امارت شرعیہ پھلواری شریف میں دو مرتبہ ملاقات ہوئی، آپ کو امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ اور یہاں کے اکابر سے عقیدت مندانہ تعلق تھا، اسلئے بہار کے سفر میں پٹنہ کو بھی شامل رکھتے اور امارت شرعیہ تشریف لاتے، اس وقت سن اور تاریخ تو یاد نہیں، البتہ ان کی علمی مجالس میں متعدد بار شرکت کا موقعہ ملا جس سے اپنائیت کا احساس ابھرتا رہا، وہ مردم شناس بھی تھے، سب کچھ دیکھتے اور محسوس بھی کرتے تھے، مگر زبان سے اظہار نہیں کرتے، بلکہ اپنے اندر جذب کرلیتے، یہ بھی ان کی وسعت ظرفی کی بات تھی۔ آہ کہ ؎
آنکھوں کے بس کے دل میں سما کر چلے گئے
خوابیدہ زندگی تھی جگا کر چلے گئے
اس بحرانی دور میں ایسے مخلص عالم اور نمونہ سلف بزرگ شخصیت کا اٹھ جانا ایک بڑا سانحہ ہے، اللہ ان کی مغفرت فرمائے اور ان کے پسماندگان، محبین ومتوسلین کو صبر وشکیب عطا کرے۔
Comments are closed.