مدارس کو بچائیے !

افادات رحمانی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

فقیہ العصرحضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحب مدظلہ العالی

صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ

 

ترتیب / محمد قمر الزماں ندوی

مدرسہ نور الاسلام موئی کلاں کنڈہ پرتاپگڑھ 9506600725

 

مدارس اسلامیہ یقینا اور بغیر کسی شک و شبہ کے اسلام کے قلعے (Citadel) ہیں ، جو حفاظت اسلام کے بہترین ذریعہ ہیں اور بقول حضرت مولانا علی میاں ندوی رح یہ اسلام کے بجلی گھر اور پاؤر ہاؤس ہیں جہاں سے صرف مسلمانوں کو ہی نہیں بلکہ انسانیت کو بجلی اور روشنی تقسیم ہوتی ہے ۔ جہاں مسلمانوں کے درپیش تمام معاملات اور چیلنجز سے نمٹنے کے مثبت اور مستقل حل موجود ہیں ، اخلاقیات ،سماجیات سیاسیات اقتصادیات اور نفسیات سے لے کر تہذیب و تمدن کے ہر شعبہ میں اس کی روشن تعلیمات ہمیں دعوت استفادہ دے رہی ہیں ۔

لیکن افسوس کہ اس وقت ہم مدارس کے لوگ ملک و قوم کو مدارسِ اسلامیہ کی ضرورت و اہمیت اور اس کی افادیت کو سمجھانے میں ناکام رہے ہیں ، جس کی وجہ سے مدارس اسلامیہ غیروں کی نظر میں سب سے زیادہ کھٹکتے ہیں اور وہ سب سے زیادہ مدارس کو اپنا ٹارگٹ بناتے ہیں ۔ ہم برداران وطن کو یہ نہیں بتا سکے کہ یہ مدارس ہی ہیں جو صحیح معنوں میں انسان کو انسان بناتے ہیں ، اور کالج اور یونیورسٹی جس کو انسان بنانے کے لیے حکومت نے قائم کیا تھا وہاں تو حال یہ ہے کہ

 

اب کسی پیڑ پہ لگتے نہیں اخلاق کے پھل

زندگی تھک گئی اس بیج کو بوتے بوتے

 

کچھ سال پہلے کی بات ہے کہ یوپی اسمبلی میں بجٹ سیشن کے موقع پر مسٹر بالیوال نے اپنی تقریر میں کہا تھا :

،،ہمارے اسکولوں میں تعلیم پانے والے طلبا ناکام ہوتے ہیں تو قطب مینار سے کود کر یا کسی پل سے چھلانگ لگا کر جان دے دیتے ہیں ،کیونکہ انہیں جینا نہیں سکھایا جاتا ہے، ان کے سامنے زندگی کا کوئی آدرش( مقصد) نہیں ، اس کے برخلاف میرے ہی حلقئہ انتخاب میں دیوبند ایک قصبہ ہے جہاں ایک عربی یونیورسٹی دار العلوم کے نام سے قائم ہے،جہاں کا ہر طالب علم معمولی خوراک کھا کر اور معمولی لباس پہن کر تعلیمی زندگی گزارتا ہے اور جب فارغ ہوتا ہے تو ملک کا ایک اچھا شہری بنتا ہے ، حکومت پر بوجھ نہیں بنتا بلکہ خود کفیل ہوتا ہے ،، (ماہنامہ دار العلوم دیوبند نومبر 1994ء ،ص، 94)

دوستو!!!!!!!!!!!!

اس وقت دین کے یہ قلعے اور انسانی سوسائٹی کے لئے پاؤر ہاؤس کی حیثیت رکھنے والے یہ مدرسے اور ادارے دشمنوں کے نشانے اور باطل کے نرغے پر ہیں ،صورت حال کیا ہے ،مدارس کے خلاف کیا ایکشن چل رہا ہے ؟ سوشل میڈیا کے اس دور میں اس کو بتانے کی ضرورت نہیں ہے ، ہر خاص و عام صورت حال سے واقف ہیں ، اس وقت مدارس کو بچانے اور اس کی حفاظت کے لیے پوری امت مسلمہ کو جد و جہد اور کوشش کرنی ہوگی اور سیکولر ملک میں قانونی حیثیت سے ہم مدارس کو جس طرح مضبوط کرسکتے ہیں، مضبوط کرنے کی ضرورت ہے ، اس کے لئے علماء اور دانشور طبقہ کو آگے آنے کی ضرورت ہے ۔

ذیل میں ہم استاد محترم فقیہ عصر حضرت مولانا خالد سیف اللہ صاحب رحمانی کی ایک تحریر ،،مدارس کو بچائیے ،، قارئین باتمکین کی خدمت میں پیش کر رہے ہیں ،مولانا موصوف نے جس درد کے ساتھ اس چشم کشا مضمون کو تحریر فرمایا ہے ، ضرورت ہے کہ اسی درد اور فکر کے ساتھ ہم سب اس تحریر کو پڑھیں اور مدارس اسلامیہ کی حفاظت کے لیے کمر بستہ ہو جائیں اور مدارس کی افادیت کو برادران وطن کے سامنے بھی ثابت کریں ، خداوند متعال ہم سب کو اس توفیق بخشے آمین ۔

م ۔ ق۔ ن

 

دنیا میں ایسے بہت سے علاقے ہیں جہاں مسلمانوں کے اقتدار کا سورج طلوع ہوا ، بام عروج تک پہنچا اور پھر مائل بہ انحطاط ہوکر ڈوب گیا ، ایشیاء اور یورپ میں متعدد ممالک ہیں جہاں یہ کیفیت پیش آئی او راس میں شبہہ نہیں کہ یہ ہماری شامت ِ اعمال اور کوتاہیوں کا نتیجہ ہے ، عام طورپر جن ملکوں میں مسلمان ان حالات سے دوچار ہوئے ، وہاں اسلامی تہذیب کا چراغ یاتو ہمیشہ کے لئے بجھ گیا ، یا اس کی لَو ایسی مدھم ہوئی کہ وہ نہ ہونے کی درجہ میں ہے ، وہاں لوگ اسلامی تعلیمات اور اپنے مذہبی تشخصات سے ایسے محروم ہوئے کہ ان کے دلوں سے احساس زیاں بھی جاتا رہا ، انھوں نے کلی طورپر مادیت کے سامنے اپنی پیشانی خم کردی ، اسپین ، مغربی اور مشرقی یورپ کے بعض علاقے اور روس و چین کے مسلم اکثریتی صوبے اس کی واضح مثال ہیں ، اسپین تو اس کی بدترین مثال ہے ، جو کسی زمانہ میں علم و فن اور تہذیب و تمدن کا دارالخلافہ تھا اور عالم اسلام میں اس کی حیثیت کسی تاجِ گہر بار سے کم نہیں تھی ؛ لیکن جب مسلمانوں کا تخت اقتدار پاش پاش ہوا تو اسلامی ثقافت کے تمام ہی نقوش نے وہاں سے رخت ِسفر باندھا اور چند بے جان و بے روح عمارتوں کے سوا جو قصۂ ماضی پر نوحہ کناں تھیں ، ان کی کوئی اور شناخت وہاں باقی نہیں رہی ۔

ہندوستان کا معاملہ یقیناً اس سے مختلف ہے ، یہاں یوں تو اسلام ابتدائی عہد میں ہی آچکا تھا اور تاریخی شواہد سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر ؓ کے دور میں ہی ہند وستان کے ساحلی علاقوں تک اسلام کی روشنی پہنچ چکی تھی ؛ لیکن اگر مسلمانوں کے سیاسی اقتدار کی تاریخ بھی دیکھی جائے تو سندھ کے علاقہ پر انھوں نے کم و بیش آٹھ سو سال حکومت کی ہے ، اس عہد کو سماجی ارتقاء اور فلاحی اعتبار سے ہندوستان کا ’’ عہد ِ زریں ‘‘ کہا جاسکتا ہے ، افسوس کہ اتنی طویل مدت میں مسلمانوں نے سیاسی اور عسکری مہم جوئی پر جتنی توجہ کی ، اسلام کی دعوت و تبلیغ پر اس کا عشر عشیر بھی توجہ نہیں کی؛ ورنہ یقیناً اس ملک کا نقشہ بدلا ہوا ہوتا اور اﷲ کے بندے مسلمانوں کو اپنی آنکھوں کا نور اور دل کا سرور بناکر رکھتے ، بہر حال! یہ مسلمانوں کی ایسی کوتاہی ہے کہ شاید ہی اس کا کوئی کفارہ ہوسکے اور آج مسلمان جن حالات سے دوچار ہیں، وہ اسی کوتاہی کی مکافات ہیں ۔

تاہم یہ ضرور ہے کہ مسلمانوں نے تخت و تاج سے محروم ہونے کے باوجود اس ملک میں اپنی شناخت کو باقی رکھا ہے ؛ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مسلمانوں میں اپنے مذہب سے جس درجہ کی وابستگی پائی جاتی ہے ، کوئی قوم نہیں جو اپنے مذہب سے اس درجہ وابستہ ہو ، اس گئی گذری حالت میں بھی مسجد کی آبادی اور رمضان المبارک کے اہتمام کو دیکھئے ، زکوٰۃ و انفاق اور کثیر صرفہ کے باوجود حج و عمرہ کی ادائیگی کو سامنے رکھئے اور نکاح و طلاق وغیرہ کے مسائل میں قانون شریعت کے احترام پر نظر کیجئے تو بہ مقابلہ مسلمانوں کے دوسری اقوام میں ایک فیصد بھی اس درجہ کا اہتمام نہیں ملے گا ، کسی اور قوم میں افتاء اور قضاء کے ادارے نہیں ہیں ، جہاں لوگ اپنے معاملات ، کاروبار اور نجی زندگی کے بارے میں بھی درست و نادرست اور حلال و حرام کے متعلق استفسار کرتے ہوں ، یہ بہرحال بحیثیت ِقوم مسلمانوں ہی کی خصوصیت ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی کو اسلام سے مربوط رکھا ہے ۔

ہندوستان اور دوسرے ممالک کے تئیں یہ فرق کیوں ہے ؟ گذشتہ ایک صدی میں جو اسلامی تحریکات اُٹھی ہیں اور تحریکی شخصیتوں نے جنم لیا ہے ، زیادہ تر ان کا منبع و سرچشمہ ہندوستان ہی ہے ؛ اس لئے یہ اہم سوال ہے جو سوچنے والوں کو متوجہ کرتا ہے — اگر غور کیا جائے اور حقیقت پسندی کے ساتھ دیکھا جائے تو اس کا جواب ایک ہی ہے اور وہ ہے دینی مدارس کا نظام ! ہندوستان پر جوں ہی انگریزوں کو غلبہ حاصل ہوا اور اسلام کے خلاف سیاسی اورتبلیغی کوششیں شروع ہوئیں ، تخت و تاج سے بے نیاز اور حکومت و اقتدار کی حرص سے آزاد دردمند اور بلند نگاہ علماء کے دل میں یہ بات ڈالی گئی کہ صرف منفی کوششوں سے اس طوفان کا مقابلہ ممکن نہیں ، اب اسلام کی حفاظت و بقاء کے لئے مثبت تدبیر مطلوب ہے اور اس تدبیر کو انھوں نے سرکاری مداخلت سے آزاد ایسے دینی تعلیم کے نظام کی صورت میں دریافت کیا جو غریب سے غریب مسلمانوں کے گھر میں بھی علم کی شمع جلاسکے اورہر کچے پکے گھر میں دینی تعلیم کی شعاعیں پہنچ سکیں ۔

ہمارے بزرگوں نے مدارس کے اس نظام کو نہایت ہی معمولی اور سادہ حالت میں رکھا ، معمولی عمارتیں جو نگاہوں میں چبھتی نہیں تھیں، کم تنخواہیں پانے والے مدرسین و خدام جو سیدھی سادی زندگی بسر کرتے تھے ، فقیرانہ لباس میں ملبوس طلبہ جن کا سراپا ان کی سادگی اور درویشی پر گواہ ہوتا ہے ، یہ ادارے مستقل اور قابل بھروسہ مالی وسائل سے محروم تھے، عام مسلمانوں سے دو دو چار چار پیسے کی مدد ہی ان کا توشۂ سفرتھا ، مدارس کی یہ سادگی ایسی تھی کہ لوگ اس کی طرف مڑ کر دیکھتے بھی نہیں تھے اور سوچتے تھے کہ خس پوش جھونپڑیوں میں رہنے والے بوریہ نشیں اور دنیا کی لذتوں سے محروم اور نابلد لوگ کرہی کیا سکتے ہیں ؟ شعراء اور نئی روشنی کے لوگ تو ان کی تحقیر سے بھی نہیں چوکتے تھے اور ان کو ’’ تنگ نظر ملا ‘‘ اور ’’ دو رکعت کا امام ‘‘ جیسے الفاظ سے یاد کرتے تھے ۔

لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ ان ہی درویش مزاج ملاؤں نے اس ملک میں اسلام کے پودے کی حفاظت کی ہے ، انھوں نے عہد بہار سے کوئی صلہ نہیں کمایا ؛ لیکن عہد خزاں میں اپنے خونِ جگر سے سینچ کر اسلام کے شجر طوبیٰ کو بچایا ، اسلامی تہذیب و ثقافت کا تحفظ کیا اور مسلمانوں کا اپنے دین اور مذہب سے نہ صرف رشتہ باقی رکھا ؛ بلکہ اس رشتہ کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے میں کامیاب ہوئے ، یہی وجہ ہے کہ آج ہندوستان میں اسلام سے وابستگی کی جڑیں جتنی گہری ہیں اور لوگوں کے مزاج میں جتنی زیادہ مذہبیت ہے ، عالم اسلام میں بھی کم ہی اس کی مثالیں مل سکیں گی ، اس عجمی نژاد ملک میں علوم اسلامی کی جو خدمت ہوئی ہے ، اس کی مثال بہت سے عرب اور مسلم ممالک میںبھی نہیں مل پائے گی، حکومت ختم ہونے کے باوجود لوگوں کے دینی رجحان میں جو اضافہ ہوا ہے ، اس میں بنیادی کردار مدارس ہی کا ہے ، تقریباً گذشتہ ڈیڑھ صدی میں جو بھی تحریک یا جماعت اُٹھی ہے اور اسلام کی حفاظت یا اشاعت کا جو کچھ بھی کام ہواہے ، اس میں ان مدارس اور مدارس سے پیدا ہونے والی شخصیتوں کا بڑا حصہ ہے ، مدارس کی یہ اہمیت جو اس کی ظاہری خستہ سامانی اور سادگی کی وجہ سے محسوس نہیں کی جاتی تھی ، اب دوست اور دشمن سب اس کا احساس کرنے لگے ہیں ۔

ہندوستان میں گذشتہ پچاس سال سے فرقہ پرستوں کی کوشش ہے کہ مسلمان فکری اورتہذیبی اعتبار سے اکثریت کے ساتھ ضم ہوجائیں ، جس چیز کو آج ’’ ہندو توا ‘‘ کہا جاتا ہے ، اسی مقصد کے لئے ایک زمانہ میں ایسی سیاسی جماعتیں جو اپنے آپ کو سیکولر کہا کرتی تھیں ، بار بار مسلمانوں کو قومی دھارے میں شامل ہوجانے کی تلقین کیا کرتی تھیں اور بھارتیہ کرن کا نعرہ لگاتی تھیں ، اس دعوت کا مقصد بھی اصل میں یہی تھا کہ اب مسلمان اپنی مذہبی اور تہذیبی شناخت سے آزاد ہوجائیں اور دوسری قوموں کی طرح زیادہ سے زیادہ چند مذہبی رسوم کی ادائیگی پر اکتفاء کرلیں ، ان نامسعود کوششوں کی ناکامی کا سہرا دینی مدارس کے سر جاتا ہے ، اس حقیقت کو اربابِ اقتدار نے بھی محسوس کرلیا ہے؛ اس لئے دینی مدارس فرقہ پرست طاقتوں کا نشانہ ہیں ، کبھی ان مدارس کو آئی ایس آئی کا مرکز قرار دیا جاتا ہے اور کبھی ان پر دہشت گردی کا الزام لگایا جاتا ہے ، یہ محض اپنے اندرونی عناد کو چھپانے کے لئے ایک بہانہ ہے ، حقیقت کا اس سے کوئی تعلق نہیں ۔

کسی طبقہ میں دہشت گردی پیدا ہونے کے عام طورپر تین اسباب ہوتے ہیں ، ایک یہ کہ ان کو ایسی تعلیم دی جائے جو دوسروں سے نفرت پر اُبھارتی ہو ، دوسرے تعلیمی نصاب میں ایسی باتیں شامل نہ ہوں ؛ لیکن تربیت ان ہی خطوط پر کی جاتی ہو ، تیسرے تعلیم و تربیت کے نظام میں تو ایسے محرکات نہ ہوں ؛ لیکن آدمی جس ماحول میں رہتا ہو ان میں جرائم اور دہشت گردی کا ماحول پایا جاتا ہو ، جیساکہ آج کل آر ، ایس ، ایس کا حال ہے ، آر ، ایس ، ایس کے تعلیمی اداروں میں مسلمانوں ، عیسائیوں اور دلتوں کے تئیں نفرت انگیز مضامین پڑھائے جاتے ہیں ، ان کی تربیت بھی مار دھاڑ کے طریقے پر مشتمل ہوتی ہے اور ان کے شب و روز کا ماحول ہی دوسری اقلیت سے نفرت پر مبنی ہے ، دینی مدارس کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے ، یہاں جو مضامین پڑھائے جاتے ہیں وہ شروع سے اخیر تک انسانیت اور انسانی محبت پر مبنی ہیں ، ان کا چوبیس گھنٹے کا تربیتی نظام ایثار اور تواضع کی عملی تصویر ہے ، ان کے ماحول میں جرائم پیشہ عناصر کا گذر نہیں ؛ اس لئے مدارس پر عمومی انداز سے دہشت گردی کا الزام لگانا سفید جھوٹ سے کم نہیں ۔

ہندوستان میں دہشت گردی کے ایک سے ایک واقعات پیش آچکے ہیں ، گاندھی جی کا قتل ناحق ہوچکا ہے ، پھر محترمہ اندراگاندھی کا قتل ہوا ، راجیوگاندھی قتل کئے گئے ، بابری مسجد کی شہادت کا اندوہ ناک واقعہ پیش آیا جس کو موجودہ صدر آر کے نارائنن نے گاندھی جی کے قتل کے بعد سب سے تکلیف دہ واقعہ قرار دیا ، میرٹھ ، بھاگلپور اور مختلف علاقوں میں خود محافظ دستہ کے ہاتھوں مسلمانوں کے قتل عام کے واقعات پیش آئے ، ۱۹۸۴ء میں علانیہ سکھوں کا قتل عام ہوا اور سینکڑوں سکھ لڑکیاں تک غائب کردی گئیں ، سورت میں بے شرمی کا ایسا کھیل کھیلا گیا کہ جس کے تصور سے بھی جبین حیا عرق آلود ہوتی ہے ، یہی تو دہشت گردی کے واقعات ہیں ، یہ واقعات کن لوگوں کے ہاتھوں پیش آئے ، دینی مدارس کے اساتذہ اور طلباء کے ہاتھوں ؟ یامسلمانوں کے ہاتھوں ؟؟ — یہ محض مسلمانوں کو مرعوب کرنے ، دینی مدارس کے تئیں غلط فہمیاں پھیلانے کا ایک حربہ اور بالواسطہ طریقہ پر مسلمانوں کو ان کی شناخت سے محروم کرنے کے طویل المدت پروگرام کا ایک حصہ ہے ، ضرورت ہے کہ مسلمان پورے شعور سے کام لیں ، اس پروپیگنڈہ کا مقابلہ کریں اور اپنی ان دینی قلعوں کی حفاظت میں پہلے سے بڑھ کر فعال کردار ادا کریں ۔

اس وقت پھر مدارس پر فرقہ پرست طاقتوں کی یلغار جاری ہے، اس بار شر پسند عناصر کی بیان بازی کے ساتھ ساتھ میڈیا کی طاقت اور حکومت کا اشارہ بھی شامل ہے، اور سرکاری بورڈ سے ملحق مدارس ہی نہیں، آزادمدارس اور چھوٹے سے لے کر بڑے تمام ادارے اس کی زد میں ہیں، یہ ملت اسلامیہ کی شہ رگ پر حملہ ہے، اور ناقابل برداشت ہے، اِن حالات میں مدارس کو مل جل کر مشترکہ وسائل کے ذریعہ قانونی پیروی کرنی چاہئے، عام مسلمانوں کو بھی اس میں تعاون کرنا چاہئے اور اپنے نظام میں اگر کہیں کوئی خامی ہے تو اس کو بھی دور کرنا چاہئے، اگر خدانخواستہ ہم مدارس کو بچانے میں کامیاب نہیں ہو سکے تو ہم اپنی اگلی نسلوں کے ایمان کو بھی نہیں بچا سکیں گے، اللہ نہ کرے کہ ایسا وقت آئے۔

۰ ۰ ۰

Comments are closed.