ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور کورونا کی دوسری لہر: مسعود انور

ہیکل سلیمانی کی تعمیر اور کورونا کی دوسری لہر: مسعود انور
تمام تر خدشات درست ثابت ہوئے اور کورونا کی دوسری لہر کا تقریبا آغاز ہوچکا ہے ۔ جون میں جب کورونا پوری طرح زوروں پر تھا ، اسی وقت سے ان خدشات کا اظہار کیا جارہا تھا کہ خزاں کے ساتھ ہی جب فلو سر اٹھانے لگتا ہے ، کورونا کی دوسری لہر لائی جائے گی ۔ فلو اور کورونا کی علامات تقریبا ایک جیسی ہی ہیں اور ایک فرد سے دوسرے فرد میں منتقل ہونے کا طریقہ بھی مماثل ہے ۔ دونوں بیماریاں اتنی حد تک ایک دوسرے سے ملتی ہیں کہ کورونا کے مرض کے لیے کیا جانے والا ٹیسٹ پی سی آر فلو کے مریض کا بھی مثبت ہی آتا ہے ۔ کورونا کی دوسری لہر کے بارے میں جو خدشات ظاہر کیے جارہے تھے ، وہ اب آہستہ آہستہ درست ثابت ہورہے ہیں اور یورپ میں کورونا کے مریضوں کی تعداد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے ۔
بات محض اتنی ہی نہیں ہے کہ سردیوں کے آغاز کے ساتھ ہی کورونا کی دوسری لہر پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لے گی ۔ پوری دنیا نے جس طرح سے پہلی لہر کے مضمرات کو بھگتا ہے ، دوسری لہر کے مضمرات اس سے کہیں زیادہ شدید ہوں گے ۔ فلو سے ہر برس پوری دنیا میں ساڑھے چھ لاکھ سے زاید اموات ہوتی ہیں ۔ کورونا کے ساتھ مل کر اس کی ہلاکت خیزی میں اضافہ ہوجائے گا اور یوں دنیا بھر میں خوف و دہشت کی ایک نئی لہر پیدا ہوگی ۔ خوف و دہشت کی اس لہر کو مزید اثر انگیز بنانے کے لیے presstitute میڈیا اپنا کردار بھرپور طریقے سے ادا کرے گا ۔ کس طرح سے اچانک پوری دنیا کو بند کردینا ہے ، اس کا کامیاب مظاہرہ ہم کورونا کی پہلی لہر میں دیکھ چکے ہیں ۔ کورونا کی گزشتہ لہر میں ترقی یافتہ ممالک میں حکومتوں نے اور ترقی پذیر ممالک میں مخیر حضرات نے لاک ڈاون کے نتیجے میں ہونے والی معاشی مشکلات کے حل میں اہم کردار ادا کیا تھا تاہم اس مرتبہ نہ تو حکومتیں اور نہ ہی مخیر حضرات یہ کردار ادا کرسکیں گے کیوں کہ ابھی تک کوئی بھی گزشتہ معاشی دھچکے سے سنبھل نہیں سکا ہے ۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ممالک میں مخیر حضرات کی انفرادی کوششوں کے علاوہ سماجی تنظیموں نے متاثرہ افراد کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا ۔ ہر سماجی تنظیم نے اس مد میں اربوں روپے خرچ کیے ۔ اربوں روپے کا یہ بجٹ بھی سوالیہ نشان ہے کہ اس مد میں موصولہ رقم کی بڑی مد بیرون ملک سے موصول ہوئی ۔ بیرون ملک سے آنے والی یہ رقوم بھی جارج سوروس کی اوپن فاونڈیشن جیسی تنظیموں نے ہی کہیں پر براہ راست اور کہیں پر بالواسطہ فراہم کی ۔ اس مرتبہ ان سماجی تنظیموں کو یہ مشکوک امداد نہیں مل سکے گی اور افراد کے اپنے وسائل انتہائی محدود ہیں ۔
یہ معاشی ابتری ہی تھی کہ ہر شخص نے فوری طور پر اپنے آبائی علاقوں کا رخ کیا تاہم جس طرح سے اچانک لاک ڈاون کیا گیا اس سے جو شخص جہاں تھا ، وہیں پر محصور ہوکر رہ گیا ۔ بھارت میں لوگوں نے شہروں سے اپنے آبائی علاقوں میں جانے کے لیے ایک ہزار کلومیٹر تک پیدل سفر کیا ۔ اس سفر کے دوران سیکڑوں افراد بھوک ، پیاس اور بیماری کے سبب راستے میں ہی دم توڑ گئے ۔ اسی طرح راستے میں کئی ولادتیں بھی ہوئیں ۔ تاہم کسی بھی حکومت نے ان افراد کو ان کے علاقوں میں واپسی کے لیے کوئی سہولت فراہم نہیں کی ۔ کچھ ایسی ہی صورتحال فضائی ، بحری اور ریلوے کے ذرائع سفر کا تھا ۔ حکومتوں کا یہ رویہ آئندہ لہر میں مزید سخت ہوگا ۔
کورونا کے خوف کو پھیلانے کے بعد اس کا ایک ہی علاج بتایا گیا کہ جو مریض ہیں ، انہیں آئسولیٹ کردیا جائے اور جو مریض نہیں ہیں ، انہیں ویکسین لگائی جائے ۔ ویکسین کا اس طرح سے امیج بنایا گیا ہے کہ جیسے ہی ویکسین آئی ، ہر شخص اس بیماری سے مامون ہوجائے گا ۔ حالانکہ ایسا ہے نہیں ۔ مثال کے طور پر فلو ہی کی ویکسین موجود ہے جو ہر برس امریکا ، یورپ اور دیگر ممالک میں کروڑوں افراد کو لگائی جاتی ہے مگر پھر بھی اس سے ہر برس ساڑھے چھ لاکھ سے زاید افراد موت کا شکار ہوجاتے ہیں ۔ اس سے بھی زیادہ اہم ترین تاثر یہ پھیلایا گیا کہ کورونا کے مرض کو پھیلنے سے روکنے کے لیے ہر فرد کی مانیٹرنگ ضروری ہے ۔ اس کے لیے کہیں پر شہریوں کو monitoring tags لگائے گئے تو کہیں پر mobile app کو ڈاون لوڈ کرنا ضروری قرار دیا گیا ۔
اب دوسری لہر کے بعد کی صورتحال کو دیکھتے ہیں ۔ پریسٹی ٹیوٹ میڈیا کے ذریعے خوف و ہراس کا خوفناک ماحول پیدا کردیا جائے گا اور اس کا ایک ہی حل سامنے آئے گا کہ افراد کی بھرپور مانیٹرنگ ۔ ابتدائی مانیٹرنگ کے لیے تو موبائل ایپ ہی پوری دنیا میں لازمی کردیا جائے گا تاہم اسے بتدریج RFID سے تبدیل کردیا جائے گا ۔ جس شخص کو RFID نہیں لگی ہوگی ، اسے سفر کی اجازت نہیں ہوگی ، اسے ڈرائیونگ لائسنس نہیں جاری کیا جائے گا ، وہ اپنے بینک اکاونٹ کو آپریٹ نہیں کرسکے گا ، اسے تعلیمی اداروں میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی ۔ اس طرح سے پوری دنیا کی اکثریت آئندہ پانچ برسوں میں سپر کمپیوٹرز کے ذریعے قابو میں آچکی ہوگی ۔ اب یہ نادیدہ قوتوں کے ہاتھ میں ہوگا کہ کس فرد کے ساتھ کیا برتاوکیا جائے ، کسے زندہ رہنے کا حق ہے اور کسے نہیں ۔ کسے کیا کرنا ہے اور کیا کرنے سے روکنا ہے ۔
اب دوبارہ سے third temple کی تعمیر کے معاملے کو دیکھتے ہیں ۔ شیطان کے غلبے کو مکمل کرنے کی سازش کرنے والوں کے نزدیک ہیکل سلیمانی کی تعمیر انتہائی اہم شرط ہے کہ اسی طرح وہ تابوت سکینہ کو پاسکیں گے ۔ ہیکل سلیمانی کی تعمیر کے لیے بیت المقدس کی شہادت لازمی امر ہے اور بیت المقدس کی شہادت کے ردعمل کو روکنے کے لیے دنیا کو کسی اور اسموک اسکرین میں الجھانے کی ضرورت ہے ۔
بہت کم انسان ایسے ہوتے ہیں جو اپنی جان سے زیادہ دوسروں کی فکر کرتے ہوں ۔ کورونا کی پہلی لہر میں ہی ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح سے عالمی ادارہ صحت کی ایک ایک بات پر آمنا و صدقنا کہا گیا ۔ کہا گیا کہ گلے نہ ملو ، نہ صرف اسے مان لیا بلکہ کہا کہ اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ کہا گیا کہ مصافحہ بھی نہ کرو ، یہ بات بھی مان لی گئی ، کہا گیا کہ ماسک لازمی ہے اور جو ماسک نہ لگائے ، اسے قریب تو کیا دور بھی مت آنے دو ، یہ بھی مان لیا اور بلا ماسک کے افراد کا ہر دفتر ، پارک یا عوامی جگہ میں داخلہ ممنوع قرار پایا ، لوگوں نے انہیں اچھوت قرار دینا شروع کردیا ، پولیس نے ایسی گاڑیوں کا چالان شروع کردیا جس میں کسی فرد نے ماسک نہ لگایا ہو۔ کہا گیا کہ مسجدیں بند کردو ، بلا کراہت اس پر بھی عمل کردیا گیا ، مساجد کے ساتھ ساتھ حرمین پر بھی تالا ڈال دیا گیا ۔ جب مجبوری میں نماز کی اجازت دی گئی تو کہا گیا کہ صفیں توڑ دو، اس پر بھی سب بلا کسی احتجاج کے نہ صرف ایمان لے آئے بلکہ جنہیں اس کی مخالفت کرنا تھی ، ان کی طرف سے اس کی حمایت میں تاویلیں اور فتاویٰ بھی آگئے ۔ حالانکہ جب مساجد پر تالا ڈال دیا گیا تھا ،اس وقت پورے ملک کی سبزی منڈیاں ، اجناس کی مارکیٹیں اور ادویہ کی مارکیٹیں پورے آب و تاب کے ساتھ کھلی ہوئی تھیں اور کہیں پر کوئی نام نہاد SOP پر عملدرآمد کرتا نظر نہیں آرہا تھا ۔ کورونا کے مرض میں مبتلا افراد کے ساتھ وہ سلوک کیا گیا جو کوڑھ کے مریض کے ساتھ بھی نہیں کیا جاتا ۔
اب دوبارہ سے ایک نئے کھیل کے لیے تیار ہوجائیے جس میں ذہنی طور پر مفلوج کرنے کا سارا سامان موجود ہوگا ۔ جو اس بارے میں سوال کرے گا ، وہ خواص تو خواص عوام کے نزدیک بھی معتوب ٹھیرے گا ۔ ہر شخص موت کے خوف میں مبتلا ہو کر ہر املا پر دل و جان سے عمل کررہا ہوگا ۔ یہی اس کھیل کا اصل مقصد ہے ۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کے قیام کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہیے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھیے ۔ ہشیار باش ۔
Comments are closed.