Baseerat Online News Portal

ترس آتا ہے ایسی عقل و خرد پر نوراللہ نور

ترس آتا ہے ایسی عقل و خرد پر

نوراللہ نور

ہم ہندوستانی بھولے ہیں یا پھر بیوقوف ( معذرت کے ساتھ ) پتہ نہیں ؟ کیوں کہ ہمیں علم ہی نہیں کہ ہم اپنے حق کا استعمال کر رہے ہیں یا پھر ہمارا ہی استعمال ہو رہا ہے سیاسی گھرانے والے جو ہمیں امید و بیم کے سنہرے خواب دکھاتے ہیں اور جو حقیقت ہے اس میں ہم امتیاز ہی نہیں کر پارہے ہیں یہی وجہ ہے کہ نفرت و کدورت اپنے شباب پر ہے وہ ہمیں مندر و مسجد کے ذریعہ دست وگریباں کرانے کے حیلے تلاش کرتے ہیں اور ہم بھی ان کے اس سیاسی شعبدے میں الجھے ہوئے ہیں اور ایک دوسرے کے قتل پر آمادہ ہیں .
ہم کو صدیوں سے مخاصمت میں الجھا کر یہ لوگ اپنی سیاسی روٹیاں سینکتے رہے ہیں ہمیں مسجد و مندر کے ذریعہ ایک دوسرے سے متنفر کر دیا ہے اور ہم بھی ان کے جھانسے میں آکر اپنے گھر پریوار کی بھینٹ چڑھاتے رہے ہیں وہ ہمیں یہ باور کراتے رہے کہ دھرم خطرے میں مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کی کرسی خطرے میں تھی اور ہم نے مذہب کے بجائے ان کو سیاسی تقویت پہنچائی ہے اور ہماری غفلت ہنوز جاری ہے ہر مذہب کا محافظ و نگہبان خدا و بھگوان ہوتا ہے تو اس کو ایک حقیر انسان سے کیسے ضرب پہنچ سکتی ہے ؟ یہ بات ہمارے سمجھ میں نہیں آی فسادات میں اقلیت کو تو ضرب زیادہ پہنچتی ہی ہے مگر برادران وطن بھی اس کے زخم سے محفوظ نہیں ہے اگر ہمارے سو مرتے ہیں تو دس ان کے بھی زد میں آتے ہیں لیکن اتنے خسارے کے بعد ہم ابھی بھی اسی سیاسی شعبدے میں الجھے ہیں .

ہم اگر غور کریں تو ہمیں ہماری اس غفلت سے جتنا نقصان ہوا ہے اس کی تلافی ناممکن ہے ہم مندر و مسجد اور مذہب کے نام پر لڑتے رہے اور وہ ہماری لاشوں پر اپنے محلات تعمیر کرتے رہے مذہب کے تحفظ کے نام پر ہمارے نوجوانوں کی ایسی ذہن سازی کی گئی کہ وہ اپنے سود و زیاں سے غافل ان کے خدع و فریب میں پڑگیے اور ان کے معصوم ذہن کو متشدد اور نفرت سے غلیظ کر دیا اور اس قدر اندھے ہوئے کہ ان کو خود اپنا اور اپنوں کا خیال نہیں آتا ہے اور جن ہاتھوں میں قلم کتاب ہونی چاہیے ان ننھے ہاتھوں میں کارتوس پستول اور اسلحہ نظر آتے ہیں اس میں ان کا جتنا قصور ہے اتنا ہی ان کے والدین کا بھی قصور ہے کہ وہ اندھ بھگتی میں اپنی ننھی جانوں کو ایسے کام کے لئے آمادہ کرتے ہیں اور ان کو متشدد تنظیموں کے حوالے کرتے ہیں افسوس ہے ایسی عقل و خرد پر اور ماتم کرنا چاہیے ایسی سوچ و فکر پر .
ہمارے بچوں کے ہاتھ میں بم بارود ؛ بندوق تھمادیا اور ہم سمجھتے رہے کہ ہمارے بچے دھرم رکھشک ہے جب کہ اس سوچ سے فائدہ کے بجائے صرف نقصان ہوا ہے جب کہ وہ نیتا جن کی اشتعال انگیزی ؛ خدع و فریب سے ہم دوسرے سے متنفر متعصب ہیں ان کے بچے بڑی بڑی کمپنی کے مالک اور برانڈ ایمبیسڈر بنے ہوئے ہیں اور کروڑوں کی لگژری گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں ؛ اربوں کی سرمایہ کاری کر رہے ہیں مگر آپ نے دھیان دیا کہ آپ کے بچے کیا کر رہے ہیں اور ان کا مستقبل تاریک ہے یا روشن ؟
غور کریں ! آج آپ کے اور ہمارے بچے کس مقام پر ہیں جن نیتاوں کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جان خطرے میں ڈال کر احمقانہ کام انجام دیتے ہیں وہ ان کو نوکری بھی نہیں دے پا رہے ہیں ان کے بچے جن کو برابر کھیلنا بھی نہیں آتا وہ چیر مین‌ کی کرسی پر بیٹھا ہے اور آپ کے معصوم اور چشم و چراغ بے روزگار بھجیا پکوڑا تل رہے ہیں .
امیت شاہ کا بیٹا کر کٹ بورڈ کا چیر مین ہے ؛ ادھو ٹھاکرے کا بیٹا وزیر بنا ہوا ہے لالو کے دونوں فرزند جن کو سیاست کی سین سے بھی واقفیت نہیں وہ ایوان میں پہنچ گیے چراغ پاسوان دلتوں کے ووٹ سے اپنی دکان چمکا رہا ہے اور راہل گاندھی مسلسل ناکامیوں کے باوجود پارٹی کا صدر بنے ہوئے ہیں لیکن آپ کے بچے جن کو مصنوعی دھرم رکھشک بنایا گیا تھا ؛ جن کو لڑنے کے لئے تیار کیا گیا تھا ان کا مستقبل کتنا تاریک ہوگیا کچھ خبر ہے وہ روزگار کے مواقع کی تلاش میں ہیں لیکن ان کو روزگار نہیں مل رہا ہے اپنی ڈگری لے کر آفس کے چکر لگا رہے ہیں مگر ذریعہ معاش کی کوی سبیل نہیں ہے مگر ہم پھر بھی مندر و مسجد کے جھگڑے میں الجھے ہیں ؛ ذات پات کی بندش میں بندھے ہوئے ہیں اور ہم سوچ رہے ہیں کہ ہم اور ہماری اولاد کار خیر کر رہی ہے اس سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اس سوچ و فکر سے باہر نکلنے کی کوشش بھی نہیں کرتے افسوس ہے ایسی فکر پر اور ماتم کرنے کا مقام ہے اس بے حسی پر

اگر ہم‌ اب بھی اسی فکرو خیال میں رہے تو نہ ہمارا وکاس ہوگا نہ ہماری اولاد ترقی کرے گی بس یہ سیاسی لوگ اپنی صنعت کو فروغ دیں گے اور ان کے بچے ہی سارے پر قابض رہیں گے اور ہمارے اور آپ کے بچے کے ہاتھوں میں کاسہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا

Comments are closed.