اجتہادکی اہمیت

سمیع اللہ ملک
ربِ کائنات کی طرف سے دینِ اسلام نہ صرف ایک ابدی وآخری مذہب بلکہ قیامت تک آنے والے مسائل کاحل اپنے وجودمیں لایا ہے۔ارشادخداوندی ہے:اِن الد ِین عِند اللہِ الاِسلام(آل عمران:19)اس دین کاامتیازجہاں ابدیت ودوام اورہرعہدمیں قیادت ورہبری کی صلاحیت ہے وہیں اس کا بڑاوصف جامعیت،مسائل زندگی میں تنوع کے باوجودرہنمائی اورتوازن واعتدال کے ساتھ ان کاحل بھی ہے،خلوت ہویاجلوت،ایوان سلطنت ہویافقیرومحتاج کاخانہ بے چراغ،حاکم ہویامحکوم،دیوان قضا کی میزان عدل ہویا ادب وسخن کی بزم ،حق وباطل کارزم ہویااللہ کی بندگی اوراس کے حضورآہ سحرگاہی ہو،حیات انسانی کاکو ن ساایساشعبہ ہے جس کواس نے اپنے نورہدایت سے محروم رکھاہے اورزندگی کاکونساعمل ہے جس کاسلیقہ اس دین نے نہیں سکھایالیکن منطقی طورپریہ سوال ذہن میں ابھرتاہے کہ زمانہ اوروقت توایک جگہ اورایک کیفیت پرٹھہرنے والی چیزنہیں ہے،اس میں مسلسل تغیررونماہوتارہتاہے،انسانی سوسائٹی تغیراورارتقاء کے مراحل سے پیہم گزررہی ہے اوردنیاکے احوال وظروف میں تبدیلیاں انسانی زندگی کالازمی حصہ ہیں، پھراس مسلسل اورپیہم تغیرپذیردنیااورسوسائٹی میں نئے احوال وظروف سے عہدہ برآہونے کیلئے انسانی معاشرہ کی راہ نمائی کانظام کیاہے؟اورسلسلہ وحی مکمل ہوجانے کے بعدقیامت تک آنے والے انسانوں کاآسمانی تعلیمات کے ساتھ رشتہ کیسے قائم رہے گا؟
مغرب نے تویہ کہہ کراس سارے قضیے سے پیچھاچھڑالیاہے کہ انسانی سوسائٹی اب بالغ ہوگئی ہے اوراپنابرابھلاخودسمجھنے لگی ہے اس لیے اسے آسمانی تعلیمات اوروحی الہٰی کی ڈکٹیشن کی سرے سے ضرورت ہی نہیں رہی،اب اس کے فیصلے خوداس کے ہاتھ میں ہیں۔انسانی سوسائٹی کی اکثریت جوچاہے اورانسان کی اجتماعی عقل وخردجوسمجھے،وہی حرف آخرہے اوراسے مزیدکسی نگرانی اورچیک کی حاجت نہیں ہے لیکن مسلمانوں کیلئے یہ بات کہنااوراسے قبول کرناممکن نہیں ہے کیونکہ وہ یہ ایمان رکھتے ہیں کہ انسانی سوسائٹی کسی مرحلہ میں بھی آسمانی تعلیمات سے بے نیازنہیں رہ سکتی اورانسانی معاشرہ کوشخصی،طبقاتی یااجتماعی طورپرکبھی بھی یہ مقام حاصل نہیں ہوسکتاکہ وہ وحی الہٰی سے لاتعلق ہوکراپنے فیصلوں میں غیر مشروط طورپرآزادہواس لیے قیامت تک انسانی سوسائٹی کی راہ نمائی کیلئے آسمانی تعلیمات کاتسلسل ضروری ہے۔
قرآن کریم اورخاتم الانبیاﷺکی سنت وتعلیمات دونوں تاریخ کے ریکارڈپرمحفوظ حالت میں موجودہیں اورانسانی زندگی کوقیامت تک پیش آنے والے حالات ومسائل اوربعد میں رونماہونے والے حالات وواقعات اورمشکلات ومسائل کے حوالہ سے انسانی معاشرہ کوقرآن وسنت کے دائرہ کاپابندرکھتے ہوئے جزئیات وفروعات میں حالات ومواقع کی مناسبت سے قرآن وسنت کی اصولی راہ نمائی کی روشنی میں عقل وقیاس کے ساتھ فیصلے کرنے کااختیاردے دیاہے اوراسی اختیارکوشریعت کی اصطلاح میںاجتہاد کہتے ہیں۔اس کے ذریعہ بدلے ہوئے حالات وادوارمیں شریعت کے اصل منشاومقصدکوسامنے رکھ کرنوپیداورتغیرپذیرجزئیات ومسائل اورذرائع ووسائل کی بابت رہنمائی کافریضہ انجام دیاجاتاہے، اجتہاداس کانام نہیں ہے کہ شارع کے نصوص کومحدودکردیا جائیاوراپنی رائے وخواہش کے دائرہ کووسیع کیاجائے بلکہ اجتہادکے ذریعہ درحقیقت نصوص اورشارع کی ہدایات و تعلیمات کے اطلاق کووسیع کیاجاتاہے اوران صورتوں کوبھی آیات وروایات کے ذیل میں لایاجاتاہے جن کانصوص میں صراحت کیساتھ ذکرنہ آیا ہو،مثلاًحدیث میں ہے کہ:ایک شخص نے روزہ کی حالت میں بیوی سے جماع کرلیاتواس کوکفارہ اداکرنے کاحکم دیاگیا۔ (بخاری، باب اذاجامع فی رمضان،حدیث نمبر:1800)اس حدیث سے صراحتاًروزہ میں صرف جماع ہی کی وجہ سے کفارہ واجب ہونامعلوم ہوتاہے لیکن فقہانے اپنے اجتہادکے ذریعہ اس حکم کے دائرہ کوان لوگوں تک بھی وسیع کیاہے جوقصداًخوردونوش کے ذریعہ روزہ توڑدیں،اجتہادکی روح اوراس کی اصل اسپرٹ یہی ہے کہ اس کے ذریعہ نصوص کی صریح واضح ہدایات کے دائرہ عمل کوان مسائل تک بڑھایاجائے جن کی بابت صریح احکام موجودنہیں ہیں۔
اجتہادکے لغوی معنی کسی کام کی تکمیل میں اپنی تمام ترقوت صرف کرنے کے ہیں:(الاحکام فی اصول الاحکام:4/169)فقہااور اصولیین کے نزدیک اجتہادنام ہے غیرمنصوص مسائل اورواقعات کے شرعی احکام معلوم کرنے کیلئے اس درجہ انتہائی کوشش صرف کرنے کاکہ اس کے بعدمزیدتحقیق وجستجوکاامکان باقی نہ رہے(الاحکام فی اصول الاحکام: 169 /4)چنانچہ شرعااجتہاداس کوشش کوکہتے ہیں جوکوئی مجتہدسطح کاعالم دین کسی ایسے دینی مسئلہ کاحکم معلوم کر نے کیلئے کرتا ہے جس میں قرآن وسنت کاکوئی واضح حکم موجودنہ ہو۔ خود جناب نبی اکرمؓﷺبھی اجتہادفرمایاکرتے تھے کہ اگرکسی مسئلہ میں وحی نازل نہیں ہوتی تھی اورفیصلہ کرناضروری ہوجاتاتواپنی صوابدیدپرفیصلہ فرمادیاکر تے تھے لیکن چونکہ وحی جاری تھی اور بعض فیصلوں پررب العزت کی طرف سے گرفت بھی ہوجاتی تھی جن میں سے کچھ کاذکرقرآن کریم میں موجودہے،اس لیے رسول اللہؓﷺکے کسی اجتہادی فیصلہ کے بعداس کیخلاف وحی نازل نہ ہونے کی صورت میں بارگاہ ایزدی سے اس کی توثیق و تصدیق ہوجاتی تھی اوراس خاموش توثیق کیساتھ حضورﷺکے فیصلوں کووحی کی حیثیت حاصل ہو جاتی تھی اوراسی وجہ سے حدیث وسنت کووحی حکمی شمارکیاجاتاہے۔
حضرات صحابہ کرام کامعمول یہ تھاکہ قرآن کریم اورسنت نبویؓ میں کوئی فیصلہ واضح نہ ہوتاتووہ قرآن وسنت کی روشنی میں اجتہادکرتے تھے۔چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے ’’حجۃ اللہ البالغہ ‘‘میں خلیفہ اول حضرت ابوبکرصدیقؓ کے بار ے میں لکھا ہے کہ جب ان کے سامنے کوئی مسئلہ پیش ہوتاتووہ کتاب اللہ میں اس کاحکم تلاش کرتے تھے اوراس کے مطابق فیصلہ کردیتے تھے۔ اگرکتاب اللہ میں حکم نہ ملتاتورسول اللہؓ کی سنت میں حکم معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے۔اگرانہیں خودکوئی ایسی سنت یادنہ ہوتی توصحابہ کرام سے دریافت کرتے تھے کہ انہیں اس کے بارے میں رسول اللہؓ کاکوئی ارشادمعلوم ہوتوبتائیں اوراس طرح کوشش کے بعدبھی اگررسول اکرمؓ کاکوئی فیصلہ نہ ملتاتوپھرسرکردہ اورصالح افرادکوجمع کرکے مشورہ کرتے تھے اوراس کی روشنی میں فیصلہ فرمادیتے تھے۔
صحابہ کرام چونکہ براہ راست چشمہ نبوت سے فیض یاب تھے اورجناب نبی اکرم ﷺکے مزاج اورسنت کواچھی طرح سمجھتے تھے اس لیے اجتہادکے حوالہ سے کسی واضح درجہ بندی، اصول وضوابط اوردائرہ کارکے تعین کی زیادہ ضرورت محسوس نہیں کی گئی البتہ صحابہ کرام نے اس بارے میں اپنے طرزعمل کے ساتھ ایسے اصول قائم کردیے تھے جوبعدمیں مجتہدین کیلئے راہ نما بن گئے چنانچہ امام بیہقی نے السنن الکبریٰ میں بیان کیاہے کہ امیرالمومنین حضرت عمرکامعمول یہ تھاکہ کسی معاملہ میں فیصلہ کرتے وقت اگرقرآن وسنت سے کوئی حکم نہ ملتا توحضرت ابوبکرکاکوئی فیصلہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے تھے اوراگران کا بھی متعلقہ مسئلہ میں کوئی فیصلہ نہ ملتاتوپھرخودفیصلہ صادرکرتے تھے اورامام بیہقی نے ہی حضرت ابو موسیٰ اشعری کے نام حضرت عمربن الخطاب کایہ خط بھی نقل کیاہے جوانہوں نے امیرالمومنین کی حیثیت سے تحریرفرمایاتھاکہ:جس معاملہ میں قرآن وسنت کاکوئی فیصلہ نہ ملے اوردل میں خلجان ہوتواچھی طرح سوچ سمجھ سے کام لواوراس جیسے فیصلے تلاش کرکے ان پرقیاس کرواوراللہ تعالی کی رضااورصحیح بات تک پہنچنے کاعزم رکھو۔اسی طرح امام بیہقی نے حضرت عبداللہ بن مسعودکے ایک خطبہ کابھی حوالہ دیاہے جس میں انہوں نے فرمایاکہ تمہارے پاس جومعاملہ درپیش ہواوراس میں قرآن اورسنت نبویؓ کاکوئی فیصلہ نہ ملے تویہ دیکھوکہ اس سے پہلے نیک بندوں نے اس کے بار ے میں کیافیصلہ کیاہے؟اورفیصلہ نہ ملے توپھراپنی رائے سے اجتہاد کرو۔
صحابہ کرام کے بعدتابعین کادورآیاتواجتہادکیلئے باقاعدہ اصول وضوابط وضع کرنے کی ضرورت پیش آئی ۔اجتہادکے اس عمل کوہرکس وناکس کی جولانگاہ بننے سے بچانے کیلئے یہ ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کے اصول وقوانین طے کیے جائیں،دائرہ کارکی وضاحت کی جائے،درجہ بندی اورترجیحات کاتعین کیاجائے اوراہلیت وصلاحیت کامعیاربھی طے کر لیا جائے تاکہ قرآن وسنت کی تعبیروتشریح اورنئے پیش آمدہ مسائل کے شرعی حل کایہ مقدس عمل بازیچہ اطفال بننے کی بجائے صحیح رخ پرمنظم ہواور امت کی فکری وعملی راہ نمائی کامؤثرذریعہ ثابت ہواورمذکورہ راہنمااصولوںکی روشنی میں بیسیوں مجتہدین نے قواعد و ضوابط مرتب کرکے ان کے مطابق اجتہادی کاوشوں کاآغازکیاچنانچہ بیسیوں مجتہدین اور ائمہ کرام نے اس کیلئے انفرادی واجتماعی محنت کی اورکم وبیش تین سوبرس تک عالم اسلام کے مختلف حصوں اورامت کے مختلف گروہوں میں جاری رہنے والے متنوع علمی مباحث کے
نتیجے میں کئی منظم فقہی مکاتب فکروجودمیں آئے۔تابعین میں سے حضرت امام ابوحنیفہ،تبع تابعین میں سے حضرت امام مالک اوران کے بعدحضرت امام شافعی اورحضرت امام احمد بن حنبل کے وضع کردہ اصولوں کوامت میں قبولیت عامہ حاصل ہوئی اوران کی بنیادپرفقہی مکاتب فکرتشکیل پائے۔ان مجتہدین نے صحابہ کرام کے حوالہ سے مذکورہ بالاراہنماء اصولوں کے ساتھ ایک اوراہم اصول کااضافہ کیاجواس عمل کافطری اورمنطقی تقاضاتھاکہ اجتہادکاحق ہرشخص کوحاصل نہیں ہے۔ بلکہ وہی شخص یہ حق استعمال کرسکے گاجس کوقرآن کریم پر،سنت رسولؓ پر،عربی زبان پراورماضی کے اجتہادات پرمکمل عبورحاصل ہوکیونکہ اس کے بغیراجتہادکے دائرے کوملحوظ رکھنااس کیلئے ممکن نہیں ہوگا۔
اجتہادکی تعریف بلکہ اس کے نام ہی سے واضح ہے کہ یہ ایک بڑانازک اوراہم کام ہے جس میں شرعی مآخذ کی روشنی میں غیرمنصوص مسائل کااستنباط کرنا پڑتاہے،اس لیے فطری بات ہے کہ اس کیلئے تقویٰ،خداترسی اورعدل وثقاہت کے ساتھ ساتھ غیرمعمولی علمی تبحراورانتہائی فہم وفراست درکارہوتی ہے ، اس لیے اصولیین اوراسلامی قانون کے ماہرین نے کارِاجتہادانجام دینے والوں کیلئے چند شرطوں اورصلاحیتوں کوضروری قراردیاہے جن کے بغیر انہیں اس راہ میں ایک قدم رکھنابھی جائزنہیں۔ان میں سب سیاہم اوربنیادی شرط تقوی اورخداترسی ہیکہ اس کے بغیرمسائل کی صحیح تخریج تقریباناممکن ہے،اس جوہرکے بغیرجوبھی اس راہ میں قدم رکھے گاخوفِ خدااورعنداللہ جواب دہی کااحساس نہ ہونے کی وجہ سے کوشش کرے گاکہ احکام شرع کا بوجھ سرسے اتاراجائے اورشریعت کواپنی ہوس اورخواہش کاتابع بنایاجائے،یہی وجہ ہے کہ تمام ائمہ مجتہدین علمی تبحراورفہم وفراست کے ساتھ عدل وخداترسی میں بھی مشہور زمانہ تھے۔(اصول الفقہ لابی زہرہ:365)۔
چنانچہ ان اکابرصحابہ کے ارشادات اورفیصلوں کی روشنی میں اجتہادکے راہنما اصول یہ ہیں:
٭قرآن وحدیث کی عربی زبان ہے،اصلی الفاظ اوردینی اصطلاحات سے مکمل واقفیت، علوم، لغت، صرف ، نحواوراصولِ بلاغت پردسترس انتہائی ضروری ہے۔
٭قرآن وحدیث کی تعلیمات اورمضامین کااجمالی لیکن جامع اورمحیط خاکہ مجتہد کومستحضر رہناچاہئے،خصوصیت کے ساتھ ان آیات واحادیث پرگہری نگاہِ کامل دسترس اورمکمل بصیرت ہونی چاہئے جن کاتعلق احکام ومسائل سے ہو۔
٭ مجتہد کیلئے اختلافی مسائل کی شناخت لازمی ہے تاکہ کسی مسئلہ میں ایسا فیصلہ اور فتوی نہ دے بیٹھے جو خارقِ اجماع ہو۔
٭ فقہ اسلامی کی کتابوں سے واقفیت اورفہم کتاب وسنت اورخصوصا خصوصاعلم اصول فقہ میں کامل بصیرت ہونی چاہئے اس کے بغیر ایک قدم بھی آگے نہیں چلا جاسکتا۔
٭ مجتہد کیلئے ضروری شرط یہ ہے کہ وہ شریعت کے مقاصد،اس کے مزاج ومذاق اوراس کی روح سے واقف ہواورپھراحوالِ ناس کے تغیراور عرف وعادت کی تبدیلیوں سے پیدا شدہ نئے مسائل ومشکلات کااسلامی حل پیش کرے۔
٭قرآن کریم یاسنت رسولؓ کاحکم جس مسئلہ میں واضح ہے اس میں اجتہادکی گنجائش نہیں۔
٭قرآن وسنت میں واضح حکم نہ ملے توسابقہ مجتہدین اورصالحین کے فیصلوں کی پیروی کی جائے۔
٭سابقہ مجتہدین اورصالحین کابھی کوئی فیصلہ نہ ملے تواپنی رائے سے اجتہادکیاجائے۔
٭اپنی رائے سے اجتہادکامعنی یہ نہیں کہ جیسے چاہے رائے قائم کرلی جائے بلکہ قرآن کریم،سنت نبویؓ،اورماضی کے مجتہدین کے فیصلوں میں زیربحث مسئلہ سے ملتے جلتے مسائل ومعاملات تلاش کیے جائیں اوران پرقیاس کرکے نئے مسائل میں فیصلے کیے جائیں ۔

Comments are closed.