چھ سال غریب بد حال

ڈاکٹر مظفر حسین غزالی
پارلیمانی انتخاب 2019 میں تاریخی کامیابی کے بعد وزیراعظم نریندرمودی نے بی جے پی کارکنوں اور پارٹی ذمہ داران کو خطاب کرتے ہوئے جن عزائم کو دوہرایا تھا، ان میں غریبی دور کرنا، اقلیتوں خاص طور پر مسلمانوں کی حالت کو بہتر بنانا شامل تھا ۔ اسی تقریر میں "سب کا ساتھ، سب کا وکاس کے ساتھ سب کا وشواس” کو پارٹی کے سلوگن میں جوڑا گیا تھا ۔ غریبی دور کرنے کے لئے کام کرنے والوں کو سرکاری تعاون کی یقین دہانی کرائی گئی تھی ۔ اس وقت لگا تھا کہ اٹل بہاری واجپئی نے اقوام متحدہ میں غریبی دور کرنے کا جو عہد کیا تھا وہ اب پورا ہو جائے گا ۔ یہ بھی امید بندھی تھی کہ مسلمان جس مایوسی، محرومی میں زندگی گزار رہے ہیں وہ بھی دور ہو جائے گی ۔ لیکن گزشتہ ایک سال میں جو کچھ ہوا اور ہو رہا ہے وہ مودی سرکار کی پہلی میقات سے زیادہ افسوس ناک ہے ۔ رہی سہی کسر کورونا وائرس سے تحفظ کے لئے کی گئی ملک بندی نے پوری کر دی ۔
یونیسیف اور سیو دی چلڈرن کی تازہ رپورٹ بتاتی ہے کہ کورونا کی وجہ سے پیدا ہوئے بحران نے پندرہ کروڑ سے زیادہ بچوں کو غریبی کی دلدل میں دھکیل دیا ہے ۔ رپورٹ کے مطابق مکمل بندی سے کم اور متوسط آمدنی والے ممالک میں غریبی میں رہنے والے بچوں کی تعداد ایک ارب بیس کروڑ ہو گئی ہے ۔ صرف بھارت میں کورونا کال میں 1.98 کروڑ منظم زمرے کی نوکریاں چلی گئیں ۔ غیر منظم زمرے میں کتنے لوگوں کا روزگار چھنا اس کے اعداد وشمار دستیاب نہیں ہیں ۔ غریبی کو لے کر دنیا بھر میں جو ایک طرح کی بے حسی رہی ہے ۔ اس میں شاید پندرہ کروڑ اور بچوں کے غریب ہونے کو بھی بہت سنجیدگی سے نہ دیکھا جائے ۔ مگر یہ دھیان رکھنے کی ضرورت ہے کہ یہ نئی صورتحال انسانیت کے سامنے سنگین بحران کی وجہ بن سکتی ہے ۔
کورونا کی وبا سے پہلے نوٹ بندی، جی ایس ٹی (جسے غریبوں کے حق میں لیا گیا فیصلہ بتایا گیا تھا) کا سیدھا اثر غریبوں پر پڑا ۔ کتنوں کی روزی روٹی چھن گئی تو کتنوں کو نئے نوٹ نہ ملنے کی وجہ سے بھوکے رہنا پڑا ۔ نئے نوٹ نکالنے یا بنک سے نوٹ بدلنے کے لئے لائن میں کھڑے ہونے سے ڈیڑھ سو سے زیادہ لوگوں کی جان گئی وہ الگ ۔ ان حالات میں زندہ رہنے کے لئے غریب طبقات کے لوگوں کو جدوجہد کرنی پڑی ۔ حق اور عزت سے زندگی گزارنے جیسی باتیں ان کے لئے خواب کی طرح رہی ہیں ۔ وہ اسے مقدر سمجھ کر کسی طرح اپنے خاندان کی گاڑی چلا رہے تھے ۔ گنجائش نکال کر ان میں سے کئی اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں میں پڑھانے کی کوشش بھی کر رہے تھے ۔ لیکن مکمل بندی کے دوران جب یافت کے سارے ذرائع ختم ہو گئے تو ایسے میں بنیادی ضرورتوں کو پورا کرنا بھی ان کے لئے محال ہوگیا ۔ یونیسیف کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر کا ماننا ہے کہ جو خاندان غریبی سے نکلنے کے قریب تھے، انہیں واپس کھینچ لیا گیا ۔ لوگ ایسی تنگی اور پریشانیاں جھیل رہے ہیں جو انہوں نے کبھی نہیں دیکھیں ۔ ایسا لگتا ہے کہ صنعتوں کو سستے مزدور فراہم کرنے کے لئے شاید یہ قدم جان بوجھ کر اٹھایا گیا ہو ۔ یونیسیف اور سیو دی چلڈرن نے بچوں کے غریبی میں گہرے دھنسنے کی وجہ تعلیم، صحت، غذائیت، دیکھ بھال اور رہنے کی مناسب جگہ نہ ملنا بتایا ہے ۔
وزیراعظم نریندر مودی نے 9 ستمبر 2020 کو پردھان منتری سوندھی یوجنا کا ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعہ افتتاح کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کوئی وبا کوئی بحران آتا ہے اس سے غریب سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔ ملک میں کورونا بحران کے دوران بھی ایسا ہی ہوا ۔ انہوں نے مدھیہ پردیش کے ایک لاکھ سے زیادہ سڑک کنارے ٹھیلا لگا کر یا فٹ پاتھ پر کام کرنے والوں (اسٹریٹ وینڈرس) سے خطاب کیا ۔ انہوں نے غریبوں اور محروم افراد کے مفاد میں کام کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں پچھلے چھ برسوں میں غریبوں کے مفاد میں جتنے منظم طور پر کام ہوئے وہ پہلے کبھی نہیں ہوئے ۔ نریندرمودی نے کہا کہ مرکزی حکومت نے تمام اسکیمیں اس طرح ایک دوسرے کو جوڑ کر بنائی ہیں کہ غریبوں، مظلوموں، استحصال کے شکار محروموں، دلتوں اور قبائلیوں کو اس کا فائدہ پہنچ سکے ۔ انہوں نے سوندھی یوجنا سے ایک لاکھ سے زیادہ اسٹریٹ وینڈرس کے مستفید ہونے کی بات کہی ۔ اس موقع پر وہ اجولا، جن دھن، آیوشمان بھارت اور ڈیجیٹل لین دین کا ذکر کرنا نہیں بھولے ۔ انہوں نے کہا کہ اگر دوسری اسکیموں کا فائدہ نہیں مل رہا ہے تو اسے یقینی بنایا جائے گا ۔ گزشتہ چھ سالوں میں اسکیمیں انتخابات کے مدنظر لانچ ہوئیں ان کا ڈھنڈورا بھی خوب پیٹا گیا لیکن کامیابی نہیں ملی ۔ کیوں کہ ان کے عمل درآمد منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔ مثلاً جنہیں مفت میں گیس سلنڈر دیا گیا ۔ وہ بعد میں پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اسے ریفل نہیں کرا سکے ۔ اسی طرح آیوشمان بھارت اسکیم تمام ریاستوں میں لاگو نہیں ہو سکی ۔
مدھیہ پردیش میں ضمنی انتخابات ہونے ہیں لہذا وہاں ایک اسکیم کا اعلان کر دیا گیا ۔ اب بی جے پی کے کارکنان پوری ریاست میں اس کی ڈگڈگی بجائیں گے ۔ اسی طرح بہار الیکشن کے پیش نظر میں غریب کلیان روزگار یوجنا کا آغاز ضلع کھگڑیا کے بیلدور بلاک سے کیا گیا ۔ یہ اسکیم من ریگا کے ساتھ جوڑ کر تیار کی گئی ہے ۔ من ریگا میں حکومت نے جو رقم دینے کا فیصلہ کیا ہے وہ نہیں دی جا سکی ہے ۔ ایسی صورت میں جن کا من ریگا کے تحت رجسٹریشن ہے انہیں بھی سال میں سو دن کا کام ملنے کی امید کم ہے ۔ اقتصادی طور پر ملک انتہائی خراب حالات سے گزر رہا ہے لیکن ملک کے سربراہ کی رئیسی میں کوئی کمی نہیں ہے ۔ وہ قریب سترہ ایکڑ کے مکان میں رہتے ہیں ۔ اس مکان کی دیکھ بھال وغیرہ پر دو ہزار افراد معمور ہیں ۔ آنے جانے کے لئے بی ایم ڈبلیو کی کئی گاڑیوں کا قافلہ ہے ۔ جس میں سے ہر گاڑی کی قیمت کروڑوں میں ہے ۔ ملک سے باہر جانے کے لئے امریکہ سے تمام سہولیات سے لیس اپنے اور صدر جمہوریہ کے لئے دو جہاز خریدے گئے ہیں ۔ ایک جہاز کی قیمت 320 ملین ڈالر ہے ۔ لوٹین زون کو اور خوبصورت بنانے، پارلیمنٹ کی نئی عمارت تعمیر کرنے پر بھی اربوں روپے خرچ کئے جانے والے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ملک معاشی بحران کا شکار ہے تو اس منصوبے کو کچھ وقت کے لئے ملتوی کیوں نہیں کیا جا سکتا ۔
رہی سب کا بھروسہ حاصل کرنے کی بات تو مسلمانوں کے تعلق سے حکومت اور برسراقتدار جماعت کے رویہ میں کوئی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی ۔ بلکہ ایسے فیصلے لئے جا رہے ہیں جس سے مسلمانوں کی دل آزاری ہو اور اکثریت نوازی کی فکر پروان چڑھے ۔ بہر حال کورونا کی مار ویسے تو سبھی شعبوں پر پڑی ہے لیکن سب سے زیادہ غریب اور محروم طبقات(مسلمان بھی) متاثر ہوئے ہیں ۔ بیماری کے ڈر سے کروڑوں مہاجر مزدور شہروں سے اپنے گاؤں لوٹ گئے ۔ اب روزی روٹی کی تلاش میں پھر سے بڑے شہروں کا رخ کر رہے ہیں ۔ انہیں نہیں معلوم کہ شہر میں وہ کیا کریں گے، کیا کھائیں گے اور کہاں ٹھہریں گے ۔ حکومت کے پاس مزدوروں کی رہنمائی کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ۔ یہ صورتحال شہروں میں ایک بار پھر بحرانی کیفیت پیدا کر سکتی ہے ۔ کیوں کہ یہ ضروری نہیں ہے کہ جہاں وہ پہلے کام کرتے تھے وہاں انہیں دوبارہ کام مل جائے ۔
کورونا بحران میں خاندان کی آمدنی رک جانے سے بنیادی غذائیت سے محرومی اور بیمار ہونے کا امکان پیدا ہوا ۔ مکمل بندی میں اسکول بند ہونے کی صورت میں آن لائن پڑھائی کا حل پیش کیا گیا ۔ ذرائع کی کمی نے غریب طبقات کو ہی پڑھائی کے دائرے سے باہر کر دیا ۔ اس کا سیدھا اثر غریبی میں زندگی گزارنے والے بچوں کی حالت اور خراب ہونے کی شکل میں سامنے آئے گا ۔ جب بیماری غریبی کو وسعت دیتی یا بڑھاتی ہے تو ایک بیماری کے ساتھ کتنی اور بیماریاں کسی ملک یا سماج کو مسائل کی گہری کھائی میں دھکیل سکتی ہیں ۔ اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ بھک مری اور بیماری کے ڈر سے کتنے ہی غریب خودکشی کر چکے ہیں ۔ گلوبل ہنگر انڈیکس میں شامل 117 ممالک میں بھارت 102 ویں مقام ہے ۔ بھک مری سے بچانے کے لئے کورونا کے دور میں اسی کروڑ غریبوں کو پانچ کلو اناج دینے کا اعلان کیا ۔ اس سے غریبوں کی بدحالی کا اندازہ با خوبی لگایا جا سکتا ہے ۔ جبکہ ضرورت اس بات کی تھی کہ اناج دینے کے بجائے انہیں غریبی و محرومی سے اوپر اٹھانے کی منصوبہ سازی کی جاتی ۔ اس سے نہ صرف وہ خود کفیل بنتے بلکہ ملک کی مجموعی پیداوار بڑھانے میں بھی معاون ثابت ہوتے ۔
Comments are closed.