علم اور عمل

(غیر منقوط تحریر)

محرر: عبد القوی ذکی حسامی
امام وخطیب مسجد لطف اللہ دھاتو نگر حیدرآباد
ہم ساروں کو اس امر کا کمال علم ہے کہ اللہ کل عوالم کا مالک ہے، اسکاہر حکم آدمی کے لئے کئی مصالح کو حاوی ہے،کوئی اسکا حکم ٹال دے محال ہے ،اللہ کا علم لاحدواحصاء ہے، کلام اللہ اسی کے علوم کا کھلامصدر ہے ،وہ سارے لوگوںکا ہادی ہے،ھدی للناس اس کلام کا اک اک سطر لاکھوں کروڑوں گہرلئے ہوئے ہے،اس سرگم علوم کا احصاء آدمی کے حد سے ماوراء ہے،علوم الہی کا حامل ہر گاہ عالی ہوگا ،اور اسکا عامل درہردو عالم کامگار ہوگا ،کلام اللہ کے سطور ِاول حصول علم کے داعی ہے ،اقراء باسم ربک الذی خلق (سورہ علق )رسول اکرم صلی اللہ علی رسولہ وسلم کو اس امر کی وحی ہوئی کہ ہر آدمی علم سے آگاہ رہے، اساسی علم سے ہی سہی کم سے کم مطلع رہے ، طلب العلم فریضۃعلی کل مسلم (مشکاۃ)مگر معلوم رہے کہ راہ علم راہ عسر ہے ، وہ مصمم ارادہ والے ہی ملے گا، علوم الہی کا حامل سارے عالَم کا عامِر ہے، سو اس علم کے لئے دلی ارادہ مصمم اور اللہ ہی کے واسطے ہو ۔علامہ آلوسی ؒ سے مروی ہے کہ علم کا حصول اللہ ہی کے لئے ہو اور عمل کا مصمم ارادہ ہو ، اک ہمدم رسول سلام اللہ علی روحہ سے مروی ہے کہ ہر کام کی اساس ہے اور اسلام کی اساس علم ہے،آگے لکھا ہے کہ علم اہل اسلام کا گم کردہ مال ہے،کہاں کہاں ملے وہاں وہاں سے لے لو ، علم عدو اللہ واعدائے اسلام کے لئے ڈھال ہے، دل ِامارہ کو علم سے مار گرادو،ہادی اکرم صلی اللہ علی رسولہ وسلم کا اک اہم کلام مطہر مسموع ہوا کہ راہ علم کا راہی در اصل راہ الہی کا راہی ہے، الا کہ وہ گھر لوٹ آئے ،من خرج فی طلب العلم کان فی سبیل اللہ حتیٰ یرجع( ترمذی۲۶۴۷)اک اوراہم کلام رسول اللہ صلی اللہ علی رسولہ وسلم سے مروی ہے کہ حصول علم کے راہی کے لئے اللہ دار السلام کی راہ سہل کر دے گا،من سلک طریقایلتمس فیہ علما سھل اللہ لہ طریقا الی الجنۃ ( ترمذی ۲۶۴۶) ہر کام کی اک حد ہے مگر علم کی حد کی لامحدود ہے ، اور علم سے وہی علم مراد ہے کہ آدمی اللہ سے آگاہ ہو ، علم ہو اور عمل سے کورہ رہے سو وہ گھاٹی ہے اس سے در ہر دو عالم رسوائی ہوگی ۔ علم اک لامعہ ہے اس سے دل کا کھوٹ دور ہوگا ، کھوٹ سے مراد حسد ، کسل ، حرص ِسو ،اور دوسرے ۔ اس لئے کہ علم کا حصول مع معاصی اک سعیئِ لاحاصل ہے ، رسول آدم ؑ کے آگے ملائکہ سر ٹکائے ۔۔۔علم کے حوالہ سے ، علم عمدہ ہمدم ہے ، دل کے اصلاح کا آلہ ہے ۔ مگر آگا ہ رہو ۔ آگاہ رہو ۔ علم اور عمل کا مادہ اک ہے ، اللہ اسی علم کا صلہ دے گا کہ آدمی اس علم سے عمل کرے ، علم ہو عمل معدوم رہے عمل ہو علم معدوم رہے در ہر دو امراللہ کے ہاں مردود ہوں گے ،اس لئے کہ عمل ہی سے آدمی ولی اللہ ہوگا ،اللہ کی مدد اسی کے ہمراہ ہوگی ،اور وہی کامگار ہوگا ،اک مرد صالح کاکلام مسموع ہے کہ علم اک حلوہ ہے اور عمل آلہ حصول ہے ،اک اورکلام مسطور ہے کہ عالِم کے لئے عمل سے محرومی اسکی دلی مردگی کے لئے دال ہے ۔ اور مردہ دل آں ہے کہ امور سرمدی کے اعمال سے کورہ رہے ،اور اعمال معاد سے اموال مادی حاصل کرے ،رسول اللہ صلی اللہ علی رسولہ وسلم سے مروی ہے کہ عالِم عامل ِکامل ہو سو وہ اللہ ملائکہ ،علماء وصلحاء کا اور سارے لوگوں کا دلدادہ ہوگا ، اگر آدمی عالِم ہوکر عملاًکاہلی کرے وہ اللہ کی لامحدودعطاؤں اور رسول اللہ صلی اللہ علی رسولہ وسلم کے وعدوں سے محروم ہوگا،اسی طرح در ہو دو عالَم رسوا ہوگا ،اعمال صالحہ سہ امور ہے ،اول اللہ کا حکم ہو ، دوم رسول اکرم صلی اللہ علی رسولہ وسلم کا اسوہ ہو، سوم دلی ارادہ اللہ ہی کے لئے ہو ۔ سطور مسطورہ سے ہم کو معلوم ہواکہ علم مع عمل ہی در ہر دو عالَم کامگاری وسرورِسرمدی کا مدارہے ۔ اللہ ہم ساروں کو عامل کامل کرے۔ والسلام ۔

Comments are closed.