آہ!مولاناڈاکٹرعبدالقادر شمس:میرا یار مجھ سے بچھڑگیا

مولانا رضوان احمد ندوی
امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
نوجوان عالم دین، روزنامہ راشٹریہ سہارا دہلی کے کالم نویس، ادیب و صحافی اور ہمارے دیرینہ مخلص رفیق، برادر محترم مولاناڈاکٹر عبدالقادر شمس قاسمی ۲۵؍اگست کو دہلی کے مجیدیہ اسپتال میں علاج کے دوران رحلت کر گئے،انا للہ وانا الیہ راجعون ۔وہ گزشتہ کئی دنوں سے کرونا وائرس سے نبرد آزما تھے ممکن حد تک دوا و علاج جاری تھا واٹس اپ پر علالت کی خبریں ملتی رہیں، میں نے فون پر تسلی کے چند کلمات بھی کہے، مگرموت کو کوئی نہ کوئی بہانہ چاہئے، وہ جانبر نہ ہو سکے اور رب کائنات سے جا ملے ۔
مولانا موضع ڈوبا ضلع ارریہ (بہار) کے باشندہ تھے،1972ء میں پیدا ہوئے، 1989ء میں دارالعلوم دیوبند سے فضیلت کی سند حاصل کی،طالب علمی کے زمانے ہی سے وہ اپنی ذہانت اور علمی وادبی شغف کی بدولت ممتازترین طلبہ میں شمار ہونے لگے،پھر قاضی مجاہد الاسلام قاسمیؒ کے سایہ شفقت میں اپنی تحریری و تحریکی سرگرمیوں کا آغاز کیا اور اپنی صلاحیت و صالحیت سے بہت جلد ترقی کی منزلیں طے کیں،پٹنہ میں ملی کارواں کے نام سے ایک ماہنامہ مجلہ نکالنا شروع کیا جس سے ان کی علمی و ادبی حلقوں میں ایک شناخت بن گئی، قاضی صاحب نے اپنی فراست سے پہچان لیا کہ اس نوجوان عالم سے ملت کا بڑا کام لیا جا سکتا ہے، اس لیے انہوں نے آل انڈیا ملی کونسل کے ترجمان ملی اتحاد کی ادارت سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی، جس میں وہ سب ایڈیٹر کی حیثیت سے مولانا محمد اسرارالحق قاسمیؒ کی معاونت کرتے رہے، اسی درمیان وہ جامعہ ملیہ اسلامیہ سے پی جی اور islamic studiesمیں ڈاکٹریٹ کی ڈگری بھی حاصل کرلی،ساتھ ہی ساتھ صحافت کا کورس بھی مکمل کرلیا، اس کے بعد راشٹریہ سہارا اور عالمی سہارا سے وابستہ ہو گئے جس میں انہوں نے بین الاقوامی مسائل اور ملکی حالات پر خوب لکھا اور جم کر لکھا، اند از بیاں سلجھا ہوا ہوتا،ایسا محسوس ہوتا کہ ان کا قلم پھول برسا رہا ہے،میں نے ان کے متعدد سیاسی وسماجی مضامین امارت شرعیہ کے ترجمان ہفتہ وار نقیب پھلواری شریف میں چھاپے جن کو ارباب فضل وکمال نے پسند کیا،ان کی نگارشات صحافتی برادری میں ایک الگ پہچان بن گئی تھی،میرا ان سے1993ء سے تعلق تھا جب وہ پٹنہ میں قیام پذیر تھے تو دن میںدو چار مرتبہ ضرور ملاقات ہو جاتی،ان کو امارت شرعیہ بہار، اڈیشہ وجھارکھنڈ سے قلبی مناسبت تھی ، یہاں کے بزرگوں کے سایہ عاطفت سے بھر پور استفادہ کرتے اور اس مقصد کے لئے اکثر دفتر امارت شرعیہ آیا کرتے تھے، پھر جب وہ دہلی چلے گئے توبھی امارت شرعیہ سے راہ ورسم کو بر قرار رکھا جب کبھی بہار کا سفر ہوتا تو امارت شرعیہ میں اپنی حاضری کو سعادت سمجھتے تھے اس طرح امارت شرعیہ کی نسبت سے اس حقیر سے بھی راہ رسم کی ڈور اور بھی مضبوط ہوگئی،جب کبھی دہلی جانا ہوتا تو ہم لوگوں کی مجلسیں سجتیں، سیاسی تبصرے اور تجزیے بھی ہوتے، خوش گپیاں بھی ہوتیں، پر تکلف دعوت بھی دیتے پھر دعائیہ کلمات کے ساتھ مجلس برخاست ہو جاتی، ان میں چند خوبیاں ایسی تھیں جن سے کوئی بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا ان میں پہلی خوبی یہ تھی کہ انھیں بیشتر اکابر علما و مشائخ سے عقیدت مندانہ تعلق تھا وہ بزرگوں کی مجلسوں میں نیاز مندانہ طریقے سے حاضر ہوتے اور ان کے اقوال کو صحیفۂ قلب پر ثبت کرتے اور اس کی روشنی میں زندگی کی راہیں طے کرتے، دوسری بڑی خوبی یہ تھی کہ ان کے چہرے پر ہمیشہ مسکراہٹ رقص کرتی،لوگ جانتے ہیں کہ وہ غم و اندوہ کے انگنت مراحل سے گزرے، حادثات سے دوچار ہوئے،مگر اللہ کے اس بندے نے ان حادثات کو کبھی منزل کی رکاوٹ نہیں سمجھا، عزیمت و استقامت کے ساتھ رواں دواں رہے اور اپنی سرگرمیوں میں ہمہ تن مشغول رہے، وسائل و ذرائع کی پروا کیے بغیر کبھی خدمت خلق کے لئے سرگرداں رہتے،تو کبھی تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی فکر کرتے اور کبھی قوم و ملت کی فلاح کے لیے اسپتال بنوا تے نظر آتے، اس راہ کی مشکلات کو خندہ روئی سے برداشت کرتے رہے، پیچھے مڑ کر نہ دیکھتے تھے اور نہ حوصلہ شکن ہوتے تھے۔ منزل ان کی متعین تھی اور مقصد بھی واضح تھا۔ وہ ایک فیاض انسان بھی تھے۔مجھے یاد پڑتاہے کہ 1997کا سال تھااور رمضان کا مبارک مہینہ تھا، تراویح کی نماز سے فراغت کے بعدمیں سحری کے لئے دودھ کی تلاش میں نکلا کہ اچانک مولانا عبد القادر شمس کو پھلواری شریف کے ٹم ٹم پڑاؤ پر گشت کرتے ہوئے دیکھا،وہ بے ساختہ مجھ سے لپٹ گئے اور کہا کہ یار میں تم کو ڈھونڈنے نکلا تھا، اللہ نے بر وقت ملاقات کروادی پھر میری کلائی کو تھامتے ہوئے کہا چلو مٹھائیاں کھاتے ہیں،پھر ہم لوگوں نے شکم سیر ہوکر مٹھائیاں کھائیں، اس طرح وہ دوستوں اور عزیزوں پر خرچ کرکے خوشی محسوس کرتے تھے، وہ کشادہ دست، کشادہ دل تھے اور قناعت پسند بھی،مالدار بننے اور روپیہ پیسہ جوڑنے کی انہیں ہوس نہیں تھی، وہ سرکاری اعزاز وایوارڈ سے بھی نوازے گئے، مگر ان کی صحت پر اس کا کوئی اثر نہیں تھا،بس یہ چاہتے تھے کہ اوسط درجہ کی شریفانہ زندگی بسر ہو جائے،ان کے مزاج میں سادگی کے ساتھ وضعداری بھی تھی،جس سے جیسے تعلقات قائم ہو جاتے انہیں نبھاتے اور برقرار رکھنے کی کوشش کرتے،ایسے مخلص بلند حوصلہ نوجوان نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہوتے جا رہے ہیں اللہ ان کی مغفرت فرمائے، یقین مانیے کہ ان کی جدائی سے دل ملول ہے۔
دعا ہے کہ ا للہ تعالی ان کے نیک اعمال کو شرف قبولیت بخشے اور قبر سے لیکر یوم آخرت تک کی ہر منزل کو ان کے لیے آسان فرما دے اور اہل خانہ کو صبر وثبات کی توفیق بخشے،میںان کے برادر عزیز مولانا عبدالواحد رحمانی کے غم میں برابر کا شریک ہوں اور ان کے لئے بھی دعا کرتا ہوں۔ربنا تقبل منا انک انت السمیع العلیم!
Comments are closed.