مسیحائی کے بھیس میں جلاد !

شہاب مرزا، 9595024421
‏بیک وقت ڈاکٹر مسیحا بھی ہے اور جلاد بھی جب ایک ڈاکٹر موت کے منہ سے مریض کو چھین کر زندگی کے حوالے کر دے تو مسیحا اور جب دجالی صفت کے ساتھ پیسہ کمانے والی مشین بن جائے اور بے حسی کی چادر اوڑھ لے تو جلاد !
‏کیونکہ ڈاکٹر جب جلادی صفت اپناتا ہے تو پھر اسے مریض میں گراہک نظر آتا ہے جتنی انسانیت اسپتالوں میں ذلیل و شرمسار ہوتی ہے شائد اتنی کہی اور ہوتی ہوگی ‏اگر ملک میں علاج معالجہ اور طبی سہولیات کا جائزہ لیا جائے تو بڑے بڑے شہروں سے لیکر چھوٹے دیہاتوں تک بد ترین اور شرمندہ کردینے والی صورتحال ہے جب تک بھارت میں موجود ڈاکٹر اور ہسپتال چلانے والے مافیاؤں پر کوئی قانونی شکنجہ کسا نہیں جاتا تب تک اس ملک کا پاک ہونا ناممکن ہے۔
چند سال قبل بیڑ ضلع کے ڈاکٹر منڈے نے دختر کشی کی لعنت میں ملوث ہوکر ہزاروں بچوں کو مادر رحم ختم میں کرتے ہوئے کروڑوں روپیہ سمیٹا اس پر آج بھی کسی قسم کا فرد جرم عائد کرنے کی ہمت حکومت وقت میں نہیں یہ ڈاکٹر تو محض ایک مثال ہے اس چیز کی جو اس ملک کے مافیاوں کو فروطی خصوصی دینے میں ناکام ہونے کے سبب ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت گرفتار کیا گیا تھا لیکن ایسے بے شمار ڈاکٹرس مسیحائی کے بھیس میں بازار میں انسانوں کی جانوں کا بے بہا سودا کرتے ہے اور پورے ملک کو بڑی بے رحمی کے ساتھ لوٹ رہے ہیں حق تو یہ ہے کہ ان پر ہنوز کارروائی کی کسی میں ہمت اس لئے نہیں ہوتی کیونکہ وہ اس ملک کی عوام کی خدمت کر رہے ہیں ۔
ملک بھر میں قانوناً ہر قسم کے کام کا معاوضہ طئے کیا جاتا ہے دستکاری سے لے کر بڑے بڑے مصنوعات تک اور مزدوری سے لے کر بڑے بڑے خدماتی چیزوں پر ہر چیز کا معاوضہ قانون اور حکومت طے کرتی ہے ان میں سے کسی بھی کاروباری پر قانونی دفعات عائد کرنے کی کم سے کم گنجائش ضرور ہے لیکن اس بنیادی اور اہم قانون سے بھی ڈاکٹروں اور میڈیسن مافیاؤں کو پوری طرح سے چھوٹ دی گئی ہے تاکہ وہ بے خوف ہوکر اور قانونی دفعات کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے عدل و انصاف کی دھجیاں اڑائے جسے چاہے کاٹے، جسے چاہے بھونکے، اور جسے چاہیے پھاڑ دے، افسوس تو اس بات کا ہے کہ حکیم لقمان کی مسیحائی اور قربانیوں کی تاریخ کو فراموش کرتے ہوئے اسی کو مافیا گیری کا ذریعہ بنایا گیا ہے اس ملک میں مہنگی تعلیم کے ادارے بڑے زور و شور سے جاری ہیں تاہم بڑے بڑے مافیا، سیاستدان، فلمی ستارے، صنعت کار کوشش میں لگے رہتے ھیکہ کسی طرح ایک عدد میڈیکل کالج کی اجازت مل جائے لیکن قسم ہے ان معصوم تڑپ تڑپ کر مرنے والوں کی جن کے پاس ڈاکٹر کی فیس دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں اور قسم ہے ان معصوم بیٹیوں کی جنھیں ظالم ڈاکٹروں نے محض پیسوں کے لیے انکی ماؤں کے رحم میں قتل کر دیا یہ قتل یہ لوٹ مار کی اہم وجہ اسپتالوں کی کمی ہے لیکن خبردار! سب کچھ مانگ لو، شراب کی کمپنیاں مانگ لو، جوئے کے اڈے کا پرمیشن مانگ لو، بڑے بڑے فائیو اسٹار قحبہ خانوں کے لائسنس مانگ لو لیکن میڈیکل کالج نہ مانگو کیونکہ ان میڈیکل کالجز کے قلیل ترین تعداد ہی وہ چیز ہے جن کے ذریعہ تمام انسانوں کو بلیک میل کیا جا سکتا ہے اور تمام انسانوں کی دولت کو بے رحمی سے لوٹا جا سکتا اور اس کے ذریعے پوری دولت کی چند مٹھی بھر مافیاؤں کی تجوری میں جمع ہوتی ہے دیگر اسباب کے ساتھ ساتھ یہ بھی ایک بڑا سبب ہے کہ اس ملک کے تمام جائیداد کا 67 فیصد حصہ ایک فیصد مافیاؤں کے ہاتھ میں ہے اور باقی ماندہ 99 فیصد آبادی صرف اور صرف 33 فیصد املاک اور دولت پر تڑپ تڑپ کر جی رہی ہیں۔
پرائیویٹ میڈیکل کالج میں ایڈمیشن حاصل کرنے کی غرض سے آج کم از کم ڈیڑھ کروڑ روپے کا فارم برائے داخلہ خریدنا پڑتا ہے اس کے بعد ایم بی بی ایس کے پانچ سال کروڑوں کا خرچ اٹھانا پڑتا ہے بس پھر کیا جو نہی کوئی شخص اپنے باپ کی حرام کی دولت (کیونکہ اب حلال کی دولت پر کسی کا ڈاکٹر بننا تو ممکن نہیں ہے ) پر ایم ڈی یا ایم ایس کی ڈگری لے کر مارکیٹ میں آتا ہے تو سب سے پہلے بڑے بڑے میٹرو پولیٹن سٹی میں رہائش کا انتظام کرتا ہے اور جب ڈگری ہاتھ لگتی ہے تو بڑی بڑی نیشنل، انٹر نیشنل بینک کے مینیجر بذات خود قرض دینے کے لیے خوشامد، برآمد، حجامت کرتے ہوئے ان کے دروازوں پر گھنٹوں انتظار کرتےھیکہ کتنا قرض چاہیے؟ نیا ڈگری یافتہ ڈاکٹر کم از کم 20 کروڑ سے لے کر 100 کروڑ تک بیٹھے بٹھائے قرض لیتا ہے ایک بڑا اسپتال کھول کر اپنی مافیا گیری کا آغاز اپنے اسپتال کے نیچے میڈیکل اسٹور شروع کر کے کرتا ہے اس عمارت کی تعمیر کے آغاز سے پہلے بڑے بڑے میڈیسن کمپنی ڈاکٹر کے پاس قطار لگاتی ہے اور معاہدہ کرتی ہے کہ مارکیٹ میں فروخت ہونے والی دوائیاں جن کی قیمت 10 روپیہ ہے وہی دوائی آپ کو 100 روپے سے 200 روپے تک فروخت کرنے کی غرض سے پرنٹیڈ لیبل لگا کر دی جائے گی آپ مشاہدہ کریں جب آپ کسی بڑے دواخانے میں بتاتے ہے تو وہ دوائیاں اس اسپتال کے میڈیکل کے علاوہ کہی نہیں ملتی ۔
علاوہ ازیں دیہاتوں کے چھوٹے چھوٹے ڈاکٹرس کو اپنے اسپتالوں سے مریض روانہ کرنے پر 20 سے 35 فیصد تک کمیشن مقرر کیا جاتا ہے اس طرح بینک سے لئے ہوئے 50 کروڑ کو 200 کروڑ روپے میں تبدیل کرنے کا زبردست ہتھیار ڈاکٹرس کے ہاتھ آجا تا ہے ۔
ہمارے ملک میں علاج و معالج جیسی بنیادی ضرورت آج بھی تصور سے باہر ہو چکی ہے بغیر پیسوں کے کسی کو بھی علاج کرنے کا قانونی حق حاصل نہیں ہے سرکاری اسپتال، ماہرین امراض سے خالی پڑے ہوئے ہے اور لوگوں کو لامحالہ اپنی زندگی بچانے کی خاطر اپنا گھر، زمین، جائیداد اور وقت پڑنے پر اپنی عزت بھی نیلام کرنی پڑتی ہے اور جن کے پاس یہ سب کچھ نہ ہو انہیں بے موت مرنا پڑتا ہے یہی سبب ہے کہ اس ملک میں ضرورت کے مطابق میڈیکل کالجس کھولنے کی اجازت نہیں دی جاتی تاکہ ڈاکٹرز کی تعداد کم سے کم رہے لوگوں کی جان ومال کم سے کم لوگوں کی گرفت میں رہے، مافیا گیری چلتی رہے اور غلامی کا کھیل چلتا رہے ۔
‏دنیا میں معزز پیشے بہت ہیں لیکن ملک میں ڈاکٹروں کو عوام عزت دیتے ہیں کیونکہ وہ ایک مسیحا ہے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ پیشہ کاروبار بنتا گیا، اب لوگ ڈاکٹرز پر تنقید کرتے ہیں تو کچھ ڈاکٹر بھائی جو احساس برتری کا شکار ہیں کو لگتا ہے کہ یہ وہ لوگ تنقید کررہے جو ڈاکٹرز نہیں بن سکے ایسا نہیں ہے ‏تعلیم ہمیں موقع دیتی ہے اپنے آپ کو بہتر اور قابل بنانے کا، اپنے آج اور کل کو سنوارنے کا، اپنے آپ کو سدھارنے کا اور اگر تعلیم حاصل کر کے بھی ہم بے بنیاد سوچوں اور نظریات سے نہ نکلنا چاہیں تو پھر اتنی تعلیم حاصل کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ‏ڈاکٹری ایک مقدس پیشہ ہے اور ڈاکٹرمعاشرے اور انسانیت کا مسیحا ہوتا ہیں اور اس کا نصب العین عوام الناس کی خدمت کرنا ہوتا ہے۔عبادت سے جنت مل جاتی ہیں لیکن خدمت کرنے والے کو اللہ تعالیٰ ملتا ہیں۔اب کس کو کیا چاہیئے اس کا فیصلہ انہیں خود کرنا چاہیے ۔

Comments are closed.