آزاد بھارت اور بنیادی انسانی حقوق!؟
(چوتھی اور آخری قسط۔گذشتہ سے پیوستہ تحریر)

ڈاکٹر آصف لئیق ندوی، ارریاوی
حریت اور آزادی کے وسیع مفہوم سے قارئین کرام بخوبی واقف ہو گئے ہونگے اور اس کے متعلق سلسلہ وار تین قسطوں میں پیش کردہ ہمارے مضمون، تجزیے اور موجودہ حالات میں سیاسی شعبدہ بازوں، فرقہ پرستوں، گودی میڈیا اور شرپسند عناصر کے متضاد رویوں، دہرا معیار، ناپاک عزائم، غیر صالح مقاصد اور ان کے مذموم منصوبوں اور پروپیگنڈوں سے بھی مطلع ہو گئے ہونگے۔چوتھی اور آخری قسط میں ہم بنیادی انسانی حقوق کی اِن دنوں پامالیوں کا تلخ مشاہدہ اور اسکا عالمی وآفاقی حل پیش کررہے ہیں: ملک کے ارباب حل واقتدار اور ایوان پارلیمنٹ سے ہمارا یہ سوال ہے کہ کیا ہم انسانی حقوق کی پاسداری اور آزاد ہندوستان کی تعمیر و ترقی میں ان بنیادی اصول و قوانین کے پابند وکار بند ہیں؟ جن کے لئے ہمارے پرکھوں نے انگریزوں کی غلامی سے آزادی حاصل کرنے میں اپنی جان و مال کی بے شمار قربانیاں پیش کی تھیں اور دشمنوں کے غاصبانہ پنجوں سے ملک کو آزاد کرایا تھا پھر اسکے بعد سب کے اتحاد و اتفاق سے ملک میں منصفانہ نظام حیات کیلئے ایک مستحکم دستور اور جمہوری آئین وضع کیا گیا تھا تاکہ برادران وطن بشمول ملک کی بڑی اقلیت اپنی بے مثال قربانیوں کے بعداسکے سایے میں بنیادی انسانی حقوق، مساوی عدل و انصاف اور مکمل حریت و آزادی کی لذت وفرحت حاصل کر سکیں؟ گنگا جمنی تہذیب کے وسیع دائرے میں رہ کر پر سکون زندگی گزار سکیں؟ اپنے اپنے مذہب و مسلک پر آزادی کیساتھ عمل پیرا ہو سکیں؟ قوم وملک میں وسیع تر اتحاد و اتفاق، یکجہتی و یگانگت، اخوت و مودت کے فروغ و اشاعت کیساتھ ہم اور ہماری نسل اپنا علمی و ادبی، اخلاقی و روحانی، انسانی و اجتماعی، تعلیمی و تربیتی، سیاسی وسماجی اور تہذیبی و ثقافتی سفر ایک سازگار ماحول میں رہ کر اس طور پر جاری و ساری رکھ سکیں کہ ہمارے درمیان کوئی فرقہ پرست اپنے سیاسی مفادات کے حصول کی خاطر نفرت و عداوت، حقد و حقارت اور بھید بھاؤ کا کوئی بیج نہ بو سکے اور ملک کی تہذیب وتمدن کا کوئی تانا بانا بکھیر نہ سکے اور ہماری قومی ہم آہنگی اور تکثیریت کو کوئی فرقہ پرستی کی آگ میں نہ جھونک سکے بلکہ ہم سب ہندوستانی روایت وتہذیب کے سنگم میں رہتے ہوئے اخوت و محبت کا ہمیشہ ترانہ گاتے رہیں اور ملک و معیشت کو ترقی و خوشحالی کے اچھے دنوں سے ہمکنار کراتے رہیں۔ سچ کہا ہے علامہ اقبالؒ نے!
مذہب نہیں سکھاتا آپس میں بیر رکھنا
ہندی ہے ہم وطن ہیں ہندوستاں ہمارا
مگر افسوس! مرور زمانہ کیساتھ بدخواہوں کو ہماری یکجہتی راس نہیں آئی اوربعض نام نہاد تنظیموں، شر پسند عناصر، ذرائع ابلاغ اور متشدد ارباب اقتدار کی ملی بھگت سے ملک اور اسکی رواداری کو نظر بد لگ گئی، پھر انہوں نے اپنی خطرناک پالیسیوں کا جال پھیلانا شروع کردیا، مسموم افکار و نظریات اور گندی سوچ وذہنیت کے ذریعے قومی اتحاد و اتفاق کا شیرازہ منتشر کرنا اپنے ناپاک عزائم کا منصوبہ بنالیا، ملکی رواداری میں فرقہ پرستی کا زہر گھول گھول کر، گنگا جمنی تہذیب اور ایکتا کی روح و مزاج کو نقصان پہنچانا اپنی کامیابی کا زینہ تصور کرلیا، ملکی معیشت کو فروغ وترقی سے ہمکنار کرانے کے بجائے بے روزگاری اور غربت و افلاس کا سامان مہیا کرانا اپنے ایجنڈے کی تکمیل کا مہلک ذریعہ سمجھ لیا، روزگاری کے مواقع پیدا کرنے کے اپنے انتخابی وعدے سے مکرتے ہوئے کروڑوں برسر روزگار افراد کو ان کی نوکریوں سے محروم کردینا اور انسانیت کو یوں ہی سسکتی بلکتی چھوڑدینا اپنی سازش وجال کا شکاری سمجھ لیا، معاشیات وترقیات کا ستیاناس ہوتا رہا اور بدخواہ اپنے ناپاک مقاصد کی حصولیابی میں لگا رہنا باعث فخر وانبساط سمجھتا رہا!! اور مسلسل یہی دیکھا جاتارہا!!
کورونا اور لاک ڈاؤن کی آڑ میں اورعوام کی مصیبت و پریشانی کے عالم میں بھی ہمدردی و غم خواری، خیر خواہی و رہنمائی، نیکی و بھلائی، محبت و الفت، اتحاد و اتفاق، عدل و انصاف، تعلیم و تربیت، تہذیب و ثقافت اور حریت و آزادی کے جذبات و احساسات کی ترویج و اشاعت کے بجائے اپنی اوچھی سیاستوں اورملک مخالف پالیسیوں کو پروان چڑھانا ان کے ناپاک منصوبے کی تعمیل کا حصہ بن گیا، بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں اڑانا ان کے مفادات کے فروغ کا زینہ بن گیا، حق تلفی، ظلم و ستم اور بھید بھاؤ کا بازار گرم کرنا ان کا وطیرہ بن گیا۔ ہندو ومسلم تفرقہ پیدا کرنا انکے منصوبے کے حصول کا ذریعہ بن گیا بلکہ اگر یہ کہا جائے تو مبالغہ نہ ہوگا کہ انہی مقاصد کے حصول کے لیے ملک میں مختلف ڈرامے کیے گئے اور نفرت آمیز مسلم مخالف قانون وضع کیا گیا اور آج بھی دستور و آئین کے خلاف جو پروپیگنڈے کیے جارہے ہیں، غیر انسانی سلوک و برتاؤ کا جونظارہ دیکھنے کو مل رہا ہے، مسلمانوں کے خلاف جو شکوک و شبہات اور بدگمانیاں پھیلائی جارہی ہیں اوراقلیتوں کی مصلحتوں کو بالائے طاق رکھ کر ان کے خلاف جو سازشیں رچی جارہی ہیں۔ وہ سب انہی خطے اور منصوبے کی تمہید ہے۔حال تو یہ ہے نہ ملک کی سرحدمحفوظ ہے،نہ معیشت مضبوط ہے اور نہ اسکی عوام وکسان حکومت وقت کی پالیسی سے خوش ہے۔نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔۔۔نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے۔
اسی طرح دستور مخالف قانون وضع کر کے مسلمانوں کو برآنگیختہ کرنااورملک میں زبردست مظاہرے کی راہ ہموار کرناہندوومسلم اتحاد کو توڑنے کا حکومت کی سوچی سمجھی پالیسی کا حصہ ہے پھرصدائے حق واحتجاج سے سیاسی فائدہ اٹھاتے ہوئے مسلمانوں کے ساتھ زیادتی کرنا مثلا بغض و عناد، حقد و تعصب اورانکے اندر خوف ودہشت کا ماحول پیدا کرکے انکو خاموش کرنا اظہار رائے کی آزادی کے بالکل مغائر ہے، غیر انسانی سلوک وبرتاؤ کی اسوقت انتہا ہوگئی جب مختلف جامعات کے طلبا و طالبات کے ساتھ ناروا سلوک اختیار کیا گیا، ان کے ساتھ تشدد کا رویہ اپنایا گیا، خون خرابے کا ماحول پیدا کیا گیا، اور اب بھی مسلمانوں پر بیجا الزامات کا دروازہ کھولا جارہا ہے اور ایسے موقع سے گودی میڈیا اپنے غلط کردار سے آگ میں پٹرول ڈالنے کا کام کرتا ہے اور مسلمانوں کے خلاف یکطرفہ فرقہ پرستی کی کیسٹ چلاتا ہے، بعض فرقہ پرست لیڈروں نے بھی سیاسی مفاد کی خاطر منفی سوچ وفکر کوپھیلا کر اور من گھڑت اور بے بنیاد نعروں اور قابل گرفت بیانات دے کر ملک کا ماحول خراب کرنے میں نمایاں کردار ادا کیاہے، جن کے نتیجے میں دہلی جیسا مسلم کش فساد برپا ہوا اورافسوس کہ الٹا ہی مسلمانوں پر سارا الزام ڈال کر ان کو مختلف مقدمات میں ڈال دیا گیا، متعدد مسلمان مرد و عورت اور مسلم نوجوانوں کو ٹارگٹ بنایا گیا، انکی بے جا گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں اور تادم تحریر بھی گرفتاری عمل میں لائی جارہی ہیں، اب سلاخوں کے پیچھے بھی ان کے ساتھ نفرت و تعصب کا رویہ اپنایا جارہا ہے، تشدد کا سلسلہ قائم کیا جارہا ہے، سخت ترین دفعات میں مسلم نوجوانوں کو قصداً پھنسایا جارہا ہے، مہینوں انکو ذھنی اور جسمانی اذیت پہنچائی جارہی ہے، کورونا وبا پھیلانے کی تہمت بھی قصدا مسلمانوں پر لگائی گئی اور بے بنیاد الزام بھی ان کے سر تھوپا گیا، ہر طرح سے مسلمانوں کو ہی بلی کا بکرا بنانے کی ناپاک کوششیں ہوئیں اورہورہی ہیں، مگراپنا غم سناؤں تو کس کو سناؤں! ہمارے وزیر اعظم اور وزیر داخلہ بھی چھپی سادھے ان کا تماشہ دیکھتے رہے اور مسلمانوں پر ظلم وستم کا سلسلہ جاری رہا، چن چن کر مسلمانوں سے بھید بھاؤ کیا گیا، سبزی فروشوں کے ساتھ بھی بے رحمی اور بے دردی کا معاملہ برتا گیا۔بالآخر بہتوں کو انکی بے بنیاد اور بے گناہی کے سبب عدالت نے انہیں بری کردیا ہے۔ ان پر لگائے گئے تمام فرضی دفعات کو کالعدم قرار دیدیا گیا ہے۔ جس سے حکومت کی ناپاک پالیسیوں اور شرپسند عناصر کے رویوں کا چہرہ بے نقاب ہوتا ہے اورمسلم دشمنی کے ناپاک منصوبوں کا پردہ فاش ہوتا ہے۔
آخر ان بے قصور اور بے گناہ مسلم افراد کی جان ومال کی ضیاع کا حقیقی ذمہ دار کون ہے؟ کیا اس پر کنٹرول حکومت وقت کی ذمہ داری نہیں بنتی ہے؟ آج بھی حکومت کی نااہلی کے سبب آئے دن ایسے دردناک واقعات رونما ہورہے ہیں اور نہ جانے کتنے کمزور ومظلوم مسلمانوں کو معمولی شک و شبہ کی بنیاد پر ہجومی ٹولیوں نے اپنے عتاب و دشمنی کا شکار بنایاہے!! اورکتنے مسلمان کواب تک قتل کردیا گیا ہے، مگر اس پرنہ تو ابتک کوئی سخت قانون پاس کیا جا سکا ہے اور نہ ظالموں کو عبرتناک سزا دی گئی ہے؟بہت افسوس اور تعجب کی بات ہے کہ کتنی مسلم عورتیں ہیں جو نفرت کی فضا کیوجہ سے اب تک بیوہ ہوگئی ہیں، کتنے بچے ہیں جو یتیم ومسکین بنا دیے گئے، کتنے ایسے ہیں جن کے کاروبار وتجارت اور قیمتی اثاثہ کو خاکستر کر دیا گیا ہے، کتنے بے قصور اور معصوم مسلمان ہیں جنکو مسلم دشمنی کے ماحول کیوجہ سے جیلوں کی سلاخوں کے پیچھے بھی نفرت و تعصب کا شکار بنایا جا رہا ہے اور کتنے ظلم و ستم اور سزا کی تاب نہ لاکر اپنا دم ہی توڑ دے رہے ہیں!؟مسلمان ہی ہیں جو اب تک صبر و استقامت کا زبردست مظاہرہ پیش کررہے ہیں۔
ظاہر ہے یہ وہ غیر انسانی سلوک و برتاؤ ہے جو جمہوریت ودستور ہند کے اصول وقوانین سے متصادم ہے اور حریت و آزادی کی صریح خلاف ورزی ہے، اس سلسلے میں ہمارے پرکھوں کے ارمانوں کی توہین بھی ہورہی ہے، ہندو مسلم تفرقہ، عناد و دشمنی اور بھید بھاؤ کی لہرکو آزاد بھارت میں پھیلانا قوم و ملک اور اسکے دستور وآئین سے بڑی غداری ہے، جوکسی مخفی ایجنڈے کی تکمیل اور ناپاک منصوبے کی حصولیابی کے لیے ایسا کرنا وطن عزیز کیساتھ بڑا دھوکہ ہے اور برادران وطن کے اعتماد وبھروسہ کومتزلزل کرنے کے مترادف ہے اور اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے بنیادی حقوق کی بے جا پامالی ہے اور اقوام متحدہ کے رہنمایانہ خطوط و قوانین کی بھی اہانت و خلاف ورزی ہے،جسکے مطابق تمام شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق اور ہرمذہب و تہذیب کا تحفظ تمام ریاستوں کے لیے لازمی قرار دیا گیا ہے،مگر بہت افسوس کی بات ہے کہ بعض ممالک و ریاستیں اپنے یہاں قانون سازی کے ذریعہ اپنے ہی شہریوں کے حقوق چھین لیتی ہیں۔مسلم کمیونٹی کو ڈرا دھمکا کر خاموش رکھنا مفاد پرستوں کی ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے جس میں ملک کا سیکولر طبقہ کبھی نہیں پھنس سکتا!! ملک میں بڑی تبدیلی اور نئے ایجنڈے اور ناپاک منصوبے کے نفاذ سے قبل ملک کی بڑی اقلیت یعنی مسلم آبادی کو اس طرح ٹارگٹ کرنا، مصائب و مشکلات اور غربت و افلاس میں انہیں الجھا کر رکھ دینا، تعلیم و تربیت میں انہیں بالکل پیچھے دھکیل دینا کہ وہ دوبارہ سر اٹھانے کے لائق بھی نہ رہ سکیں یہ انسانیت کی تذلیل ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی ہے۔ مسلم قوم سے بڑی ناانصافی ہے۔ جسکے حقیقی ذمہ دار حکومت وقت اور ارباب اقتدار ہیں!!
یہ بات قابل توجہ ہے کہ ملک وقوم کو جب جب بھی لہو کی ضرورت پڑی تو مسلمانوں نے اپنا بے مثال کردار نبھایا ہے اور آج بھی اگرکوئی بدنگاہی اور غداری کا رویہ اپناتا ہے تو کوئی قوم ساتھ دے یا نہ دے! مسلمان قوم سب سے پہلے سینہ سپر ہونگے اورملک کی سالمیت کی بقا وتحفظ کے واسطے مقابلے کے لیے میدان میں اتر جائیں گے اور سب بڑی سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر ثابت ہونگے، غدار وطن انگریزوں سے مسلمانوں نے بہت بڑا سبق سیکھا ہے، اسکا ایمان وضمیر انگریزوں سے لڑتے وقت بھی زندہ تھا اور انکا چھکا چھڑا کر رکھ دیا تھا اور آج بھی نت نئے تمام فتنوں سے مقابلے کی قوت وطاقت اور بلند عزم و حوصلہ رکھنے والی قوم کا نام قوم مسلم ہے جو آج بھی زندہ ہے اور ملک میں سیاسی شعبدہ بازوں کا سارا تماشہ دیکھ رہی ہے، اسلئے دشمنان اسلام بیدار مغز اور غیور قوم کو ہر طرح سے توڑ کر رکھ دینا چاہتے ہیں کیونکہ آج بھی ملک و قوم کو اگر کسی بھی قربانی اور بلیدان کی ضرورت پڑ جائے تو یہی مسلم قوم سب سے آگے اور پیش پیش رہے گی، پوری دنیاکے اسلام دشمنوں کو اسی زندہ دل مسلم قوم سے خطرہ لاحق ہے، اسی لیے قیادت و سیادت اور تعلیم و تربیت کے میدان انہیں پس پشت کرنے کی ہر ممکن کوشش ہورہی ہے اور منظم طریقے سے مسلمانوں کو بدنام کر کے رکھ دینے کی عالمی صہیونی سازش کا وہ حصہ ہے، جس کی اتباع و پیروی ہمارے ملک عزیز کی بعض نام نہاد تنظیمیں کرتی نظر آرہی ہیں اور اس خطرناک ایجنڈے اور ناپاک منصوبے کو ارباب حل و اقتدار بھی آگے بڑھا رہے ہیں، کیونکہ انکو بھی خوف لاحق ہے کہیں یہ اقلیت قوم اکثریت پر حاوی نہ ہو جائے اور اوراپنے خواب غفلت سے بیدار نہ ہو جائے اورپھر دشمنوں کی ساری سازشوں پر پانی نہ پھر جائے!!
اس میں کوئی شک نہیں کہ مسلمان قوم ایک غیور و باغیرت اور زندہ ضمیر قوم ہے اور اس کی تہذیب سب سے دلکش اور دلربا تہذیب ہے، مگر اس وقت وہ اپنی حیثیت و وقعت سے بے پرواہ ہے اور اپنی خدائی قیمت سے بہت حد تک غافل ہے اور اپنے اخلاق و کردار اور تعلیم و تربیت کے میدان میں سب سے پیچھے ہو کر رہ گئی ہے اور اسی بات کا ہمیں غم اور رونا ہے!جس دن یہ قوم بیدار ہوگئی اور اسکا شعور و احساس زندہ ہوگیا اور دین اسلام کی وہ صحیح حامل بن گئی تو پھر اس کا مذاق اڑانے والے اور دشمنی میں حد سے گزر جانے والے کس غار اور سرنگ میں چھپ جائیں گے، یہ وقت ہی بتائے گا اور دشمنان اسلام ظلمت و کھائی کی کس اتھاہ گہرائیوں میں جا کر گریں گے، وہ اللہ ہی کو معلوم ہے۔
درحقیقت اللہ نے اس روئے زمین کی تخلیق فرما کر اسے زندوں کا مسکن بنایا ہے، غیور وباغیرت مؤمن قوم کو اپنا خلیفہ اور زمین کا نائب مقرر کیا ہے، پیغمبروں کی آمد اور زندگی گزارنے کے اصول و ضوابط سے پوری انسانیت کو سرفراز فرمایا ہے اور زمین میں ایسی ایسی چیزیں پیدا فرمادی ہیں، جو ان کی بودوباش اور رہن سہن کے لیے ممد و معاون ہیں، لہذا تمام انسانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اللہ کی زمین میں فساد نہ پھیلائیں بلکہ اس کی اصلاح کر کے اسے آباد و شاداب کریں اور مزید خدائی اسباب و ذرائع کی تلاش میں لگے رہیں اور اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری بجا لائیں، ارشاد خداوندی ہے ”وماخلقت الجن و الانس الا لیعبدون” ترجمہ: اور میں نے جن و انس کو اسی واسطے پیدا کیا ہے کہ وہ میری عبادت کیا کریں۔ (سورہ ذاریات آیت نمبر 56)
بے شک اسلام ہی اس کرہ ارض کا وہ واحد اور آخری آسمانی مذہب ہے، جو قرآن کریم اور نبی آخر الزماں کی تعلیم و تربیت اور تزکیہ اخلاق و کردار کے ذریعے تمام انسانوں کی دنیاوی و اخروی کامیابی و کامرانی کی ضمانت پیش کرتا ہے، ان کی ہدایات و ارشادات میں عدل و انصاف، رواداری و آزادی انسانیت نوازی اور بنیادی انسانی حقوق مضمر و مندرج ہیں، جن کے دامن میں آکر ہر شہری، ہر انسان اور ہر ذی روح وہ کے بنیادی حقوق برابری کی بنیاد پر محفوظ ہیں حتی کہ ”کسی عربی کو عجمی پر گورے کو کالے پر بغیر ایمان و تقوی کے کوئی فضیلت و فوقیت نہیں ” شوہر کے اپنی بیوی پر اور بیوی کو اپنے شوہر پر حقوق ہیں جنکو آصف تقریبا پندرہ سو برس پہلے پہلے پیغمبر اسلام نے نے جس تھا بیان فرما دیا ہے اور اسی پر اپنا آخری خطاب بھی پیش فرما کر دین اسلام کو مکمل فرما دیا ہے۔
بلا شبہ دنیا کا کوئی بھی مذہب انسانی حقوق کی ویسی ضمانت و پاسداری کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے جیسا کہ دین اسلام اور قرآن کریم دنیائے انسانیت کیلئے پیش کرتا ہے، یہی وہ لاثانی مذہب ہے جو بغیر حق کے ایک معمولی انسان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیتا ہے، آقا و غلام کو مساوی حقوق فراہم کرتا ہے، انسانوں کو بندوں کی غلامی سے ایک اللہ کی پرستش کیطرف نکالتا ہے اور دنیا کی تنگی سے عالم کی کشادگی کیطرف اور تمام ادیان کے جھگڑوں سے اسلام کے وسیع عدل وانصاف کے نظام کیطرف بلاتا ہے، یہی وہ لازوال دین ہے جودوسروں کے جذبات کو مجروح کرنے سے ہمیں روکتاہے، امیر و غریب کے فرق وامتیاز کو مٹاتا ہے، ظالم و مظلوم کے درمیان فیصلے کی وہ نظیر پیش کرتا ہے جس کی مثال دنیا کا کوئی بھی مذہب بشمول سناتن دھرم اور دیگر ادیان پیش کرنے سے عاجز ہے، کیونکہ اسلام کے نزدیک ہر شخص آزاد پیدا ہوا ہے، رب کریم نے قرآن کریم میں فرما دیا ہے کہ تمام بچے فطرت پر پیدا ہوتے ہیں، جس طرح فطرت آزاد ہے اسی طرح تمام بچے آزاد پیدا ہوتے ہیں، مگر آج کل ہر بچہ زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے، انکے والدین اسے یا تویہودی یا عیسائی یا مجوسی بنا ڈالتے ہیں۔
Comments are closed.