فکر غامدی ، تفردات اور علمی سرقہ

تحریر: محمد فھد حارث
=========
اہل علم کے مابین اب یہ بات ڈھکی چھپی نہیں رہی کہ محترم غامدی صاحب کی بنیادی فکر دراصل ان کے نادر خیالات اور تفقہ فی الدین کا نتیجہ نہیں، بلکہ ماضی بعید و قریب کے چند علماءو فقہاء کی تحقیقات کا سرقہ ہے۔ راقم کو اس بابت پہلا احساس اس وقت ہوا جب جناب غامدی صاحب کی کتاب "میزان” پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ اس کتاب کی بنیادی فکر، استدلال اور یہاں تک کہ مثالیں بھی مولانا عمر احمد عثمانی صاحب کی کتاب "فقہ القرآن” سے ماخوذ ہیں۔ لیکن مقام حیرت یہ ہے کہ پوری کتاب میں کسی ایک جگہ بھی اس بات کا تاثر نہیں دیا جاتا کہ یہ فکر و مثالیں مولانا عمر احمد عثمانی کی علمی کاوشوں سے ماخوذ ہیں۔ بلکہ کتاب پڑھ کر قاری کو یہی تاثر ملتا ہے کہ گویا یہ تحقیقات خالص جناب غامدی صاحب کے علمی تفکر اور مساعی کا نتیجہ ہیں۔
غامدی صاحب کی بیشتر تحقیقات دوسرے علماء کی کاوشوں کا نتیجہ رہی ہیں، جیسے کہ مولانا وحید الدین خان صاحب کے نظریہ سیاست و خلافت کو غامدی صاحب نے من و عن اپنے الفاظ میں ادا کردیا ہے، بالکل اسی طرح شادی شدہ زانی کے لئے رجم کی سزا بھی دراصل ان کے استاد محترم امین احسن اصلاحی اور مولانا عمر احمد عثمانی کی علمی تحقیقات سے ماخوذ ہے۔ عمر عائشہ رضی اللہ عنہا پر غامدی صاحب نے سارا کا سارا مواد حکیم نیاز احمد کی کتاب سے لیا ہے جبکہ موسیقی کو مباحات فطرت قرار دینے کے دلائل بھی غامدی صاحب نے مولانا ابوالکلام آزاد اور جعفرشاہ پھلواری سے اخذ کئے ہیں۔ بعینہ جمع القرآن کی روایات کے غیر درست ہونے کا نظریہ بھی غامدی صاحب نے مولانا ابو الکلام آزاد سے ہی لیا ہے۔ سنت قانونِ اسلامی کا "مستقل” ماخذ نہیں ہوسکتی، اس سلسلے میں بھی غامدی صاحب پر مولانا آزاد کے افکار کا ہی اثر ہے۔ اسی طرح آج کل سورۃ النجم کے پہلی قرآنی وحی ہونے اور غارِ حرا میں فرشتے کے آنے کی نفی پر مبنی غامدی صاحب کی وائرل ویڈیو کا بیانیہ بھی دراصل غامدی صاحب کی خود کی تحقیق نہیں بلکہ علامہ تمنا عمادی سے مستعار لی گئی ہے جو کہ عمادی صاحب نے اپنی کتب اعجاز القرآن اور اختلافِ قراءت وغیرہ میں بڑے طمطمراق سے پیش کی تھی۔ اور یہ جو غامدی صاحب سورۃ النجم سے متعلق اس جزم سے اپنی تفسیر پڑھنے کا مشور دے رہے ہیں کہ گویا یہ باور کروارہے ہوں کہ سورۃ النجم کا پہلی وحی ہونے کے نکتے کے پہلے حقیقت شناس وہی ہیں تو یہ بھی مبالغہ دہی ہے۔ سورۃ النجم کے پہلی وحی ہونے کا دعویٰ بھی تمنا عمادی کی کتاب "اعجاز القرآن” سے مستعار لیا گیا ہے۔ اسی طرح نزولِ عیسیٰ کے عقیدے کی نفی سے متعلق بھی غامدی صاحب کا نظریہ علامہ تمنا عمادی کی تحقیقات اور مولانا ابو الکلام آزاد کے افکار سے ماخوذ ہے۔ بعینہٖ نامحرم خواتین سے ہاتھ ملانے کی بابت بھی غامدی صاحب کے تمام دلائل فتاویٰ یوسف القرضاوی سے مستعار ہیں۔ یہی نہیں بلکہ غامدی صاحب کے ہاں مروج جزیہ کی موقوفی کا نظریہ بھی انہیں یوسف القرضاوی کی فکری مساعی کا نتیجہ ہے۔ مشت زنی یعنی جلق مباح ہے۔ غامدی صاحب نے یہ معاملہ امام احمد بن حنبل سے مستعار لیا ہے جبکہ متاخرین حنابلہ اس کی حرمت کے قائل ہیں اور اسکو احمد بن حنبل کا متروک تفرد مانتے ہیں۔
الغرض کوئی ایسا مسئلہ ڈھونڈنا مشکل ہوگا جس کی بابت کہا جاسکے کہ یہ مسئلہ تنہا غامدی صاحب کی دقت نظری کا نتیجہ ہے۔ تاہم یہ بات ضرور ہے کہ ان تمام مسائل میں غامدی صاحب سبیل المومنین سے الگ تھلگ نظر آتے ہیں جبکہ غامدی صاحب کے متبعین یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ کہ غامدی صاحب کے تفردات کی تعداد۴،۵ سے زیادہ نہیں ہے۔ اور ان تفردات میں بھی وہ اکیلے نہیں بلکہ فقہاء ان کے ساتھ ہیں ۔ اس مبحث کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ سمجھ لینا چاہیئے کہ تفرد کہتے کسے ہیں۔ تفرد اسے نہیں کہتے کہ سلف سے خلف تک کسی نے وہ موقف اختیا ر نہ کیا ہو ۔ تفرد وہ بھی ہوتا ہے جس کے قائلین خواہ(سلف تا خلف ) متعدد پائے جائیں لیکن اپنے زمانے میں تنہا ہی رہے ہوں۔
آسان زبان میں تفرد کسی بھی فقیہہ یا عالم کی اس رائے کو کہتے ہیں جس میں وہ جمہور امت سے منفرد ہو اور امت اور اسکے علماء کی اکثریت نے اس رائے کو قبول عام نہ بخشا ہو۔ اس طر ح کے تفردات ہمیں تقریباً ہر فقیہہ کے ہاں مل جاتے ہیں لیکن عموماً تمام قدیم و جدید فقہاء کے تفردات کی تعداد ان کی بقیہ آراء کے مقابلہ میں آٹے میں نمک کے برابر ہوتی ہے۔ یا یوں کہہ لیں کہ کسی عالم یا فقیہہ نے اگر ۱۰۰۰ مسائل کا استنباط کیا ہے تو اس میں سے ۵ یا ۶ ہی میں تفرد کا شکار ہوا ہوگا۔ لیکن غامدی صاحب کی تو ماشاءاللہ سے پوری کی پوری ’’فقہ‘‘ ہی تفردات کا مجموعہ ہے۔ اور اپنے استاذ گرامی کے دفاع میں غامدی صاحب کے متبعین عموماً یہ مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ استاذ محترم اس تفرد میں اکیلے نہیں بلکہ فلاں دور کے فلاں عالم بھی ان کے ہمنوا ہیں اور دراصل یہ بات ہوتی بھی بالکل درست ہے لیکن مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جو چیزیں مختلف فقہاء کے ہاں انفرادی طور پر ملتی ہیں غامدی صاحب نے انکو وہاں سے چن چن کر اپنی پوری فقہ بنا ڈالی ہے یعنی ہر فقیہ کا متروک یا شاذ اجتہاد غامدی صاحب کے ’’مقبول ‘‘ اجتہاد کی لسٹ میں آجاتا ہے۔ گویا ایسا نظر آتا ہے کہ غامدی صاحب ان فقہ کی کتابوں میں سے اپنے لیے کبھی محرمات کا جواز ڈھونڈ رہے ہوتے ہیں تو کہیں واجبات کی نفی میں ان کا دن رات ایک ہو رہا ہوتا ہے ۔تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے اکثر زعمائے سوء نے جب بھی امت کو جادہء حق سے منحرف کرنے کا کام سر انجام دیا ہے تو فقہ کی کتابوں کا ہی سہارا لیا ہے اور اس اصل سے اعراض برتا ہے جسکی بنیاد پر فقہ رکھی گئی ہے یعنی قرآن و سنت۔ یہی روش ممدوح غامدی صاحب نے بھی اختیار کی ہوئی ہے۔
Comments are closed.