صبح کی بات فہیم اختر ندوی کے ساتھ

صبح کی بات
بقلم فہیم اختر ندوی
زبان انسان کا قیمتی تحفہ ہے۔ اس سے ہی وہ اظہار کرتا ہے۔۔ اور اسی کے بول اسے دوسروں سے جوڑتے ہیں۔ انسان کا امتیاز بھی زبان ہی ہے۔ اسی لئے اسے حیوان ناطق یعنی بولنے والا جانور کہاگیا ہے۔
لیکن کبھی وہ سچ مچ انسان نہ رہ جاتا ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہ ہوگا کہ جانور بن جاتا ہے۔۔ کہ جانور تو پیارے ہوتے ہیں۔۔ ہاں۔ جانور سے بد تر بن جاتا ہے۔۔۔ اور اسی زبان کے ذریعہ وہ اپنی ذلت کا ساماں کربیٹھتا ہے۔
آپ دیکھئے کہ۔۔ دنیا میں جتنے جھگڑے ہیں ان کا بڑا حصہ اسی زبان کی بدکاریاں ہی تو ہیں۔ دشنام الزام، طعن لعن، فحش، فضول، غیبت، لعنت سب اسی زبان کی بدگوئیاں ہیں۔۔۔ زبان ہی سے آخرت بھی تباہ ہوتی ہے۔۔ فسق، کفر اور تکذیب اسی زبان کے جرائم تو ہیں۔
تو زبان انسان کےلئے بہت بڑی آزمائش، بہت بڑے خطرے کا سامان، بہت بڑی تباہی کا ذریعہ ہے۔۔۔ یہ تعلقات کو بگاڑدیتی ہے۔۔ شخصیت کو داغدار اور ماحول کو خراب کردیتی ہے۔۔ دل میلے اور ذہن گندے ہوجاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ تو ایک زبان کے بول کیا کیا قیامت لاتے اور کیسی بربادیاں دکھاتے ہیں۔
ذرا سوچئے۔۔۔ زبان کی یہ عداوتیں تو آئے دن دیکھی جاسکتی ہیں۔۔۔ پھر کتاب مقدس میں اس زبان سے کیوں اتنا ڈرایا گیا ہے۔۔ کیوں اس کو سنبھالنے کی تاکید اور اس پر وعید سنائی ہے۔۔ اور کیوں بار بار ہوشیار بناکر شیریں گفتار رہنے کہا گیا ہے؟؟؟ ۔ قرآن نے تو دشمنوں کے ساتھ حسن کلام سکھایا ہے۔۔ اور خود قرآن تو شیریں کلامی اور ہمدرد بیانی کی اعلی زبانی ہے۔۔ کتنا رس بھرا ہے اس زبان کلام الہی میں۔۔ کہ پتھر دل موم، آنکھیں اشکبار اور ذہن کی دنیا بدل جاتی ہے۔
رسول مقبول ﷺ کی زبان تو کبھی بدگوئی سے آلودہ نہیں ہوئی۔۔ ان سے بھی زیادہ کسی ذات، بات، جذبات اور مذہب کو برا اور جھوٹا کہاگیا؟ ۔ لیکن وہ شیریں کلام تھے۔ شیریں کلام، شیریں جواب، اور شیریں بیان رہے۔۔ کہ یہی ان کے رب کا ان کےلئے صاف حکم تھا۔۔۔۔ تو پورا ماحول، پورا سماج اور پورا جہاں شیریں ہوگیا۔۔ آج وہی شیرینی تو ہمارا سرمایہ فخر اور ذخیرہ عزت ہے۔
تو کیا یہ شیریں کلامی ہم پر لازمی نہیں ہے؟ ۔۔ اور بد کلامی و بدزبانی ہمارے لئے پسند کرلی جائے گی؟؟ ۔۔ کیا رب کا حکم اس کے محبوب رسول ﷺ کےلئے ہے۔ ہمارے لئے نہیں؟ اور رسول محبوب ﷺ کا نمونہ ہم امتیوں کےلئے نہیں؟؟ ۔۔۔ اگر ہم اس رب اور رسولِ رب کے علم سے جڑے ہیں۔۔ تو بدزبانی دشمنوں کے ساتھ بھی قبول نہیں۔ اپنوں کے ساتھ کیا تصور؟
یاد رکھئے ۔۔ کہ اختلاف کے وقت ہی زبان کا امتحان ہے۔۔ جذبات کو ٹھیس لگنے اور غصہ آنے پر ہی شیریں گفتاری کی آزمائش ہے۔۔۔ خوشی اور دوستی میں تو آپ الفاظ کے ترانے گاتے ہی ہیں۔۔۔ تو پھر نقش کر لیجئے کہ دین کی تمام تر تعلیمات کا حاصل یہی زبان کے بول ہیں۔۔ نبی مکرم کی زبان میں یہی ‘حصائد السنتھم’ یعنی زبان کی کھیتیاں ہیں۔ جو شیریں اور اچھی ہیں تو جنت۔۔ گندی اور غلط ہیں تو جہنم۔۔۔۔ اور بدزبانی کبھی اچھی نہیں ہوسکتی۔۔ یہ فیصلہ تو رب کا ہے۔ اور حکم اسی کا چلے گا۔
تو کیا ہم عہد نہ کرلیں کہ۔۔۔۔ اِس سے وہی نکلے گا جس سے رب راضی ہو؟ اس ضمانت پر جنت کی ضمانت تو حدیث نے دے رکھی ہے۔۔۔ کتنا آسان ہے۔۔ اور کتنی بڑی آسانی ہے۔ سوچئے۔ اور آغاز کردیجئے۔
خدا حافظ
Comments are closed.