آذربائیجان اورآرمینیاکے درمیان جنگ آخرمسئلہ کیاہے؟

عبدالرافع رسول
اتوار27ستمبر2020سے تادم تحریر مغربی ایشیائی ریاستوں آرمینیا اور آذربائیجان کی افواج کے مابین نگورنو کاراباخ کے سرحدی علاقے میں شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ اس مسلم علاقے پر مسیحی علیحدگی پسندوں کا قبضہ سابق سوویت یونین کے خاتمے کے بعد سامنے آنے والے اس علاقائی تنازعے کا باعث بنا۔ شدید جھڑپیں جاری ہیں۔ سابق سوویت یونین سے آزادشدہ یہ دونوں ریاستیں’’ممالک‘‘ ایک دوسرے پر مسلح تنازعہ شروع کرنے کے الزام لگا رہے ہیں۔
فریقین ایک دوسرے کو پہنچنے والے بھاری جانی اور مالی نقصانات کے دعوے کر رہے ہیں۔ روس نے تازہ جھڑپوں کے بعد دونوں ممالک پر فوری جنگ بندی کے لیے زور دیا ہے۔ ماسکو میں روسی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ فریقین کشیدگی میں کمی اور استحکام کے لیے حملے بند کریں اور بات چیت کے ذریعے مسائل حل کریں۔آرمینیا اور آذربائیجان سنہ 1922سے 1991تک سابق سویت یونین کا حصہ تھے۔ دونوں ممالک جنوب مشرقی یورپ میں ہیں جو دفاعی لحاظ سے اہم خطہ ہے اور جو قفقاز کہلاتا ہے۔ ان ممالک کی سرحدیں مغرب میں ترکی، جنوب میں ایران اور شمال میں جارجیا سے ملتی ہیں۔ جبکہ روس کی سرحد شمال میں آذربائیجان سے ملتی ہے۔آرمینیا میں آبادی کی اکثریت مسیحی ہے جبکہ تیل کی دولت سے مالا مال ملک آذربائیجان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔
سوال یہ ہے کہ آذربائیجان اورآرمینیاکے مابین آخرمسئلہ کیاہے جس پردونوںآمادہ جنگ ہیں۔ آرمینیا کے مسیحی علیحدگی پسندوں نے نگورنو کاراباخ پر سنہ 1990 کی دہائی کے آغاز پر قبضہ کر لیا تھاجبکہ نگورنو کاراباخ کو مسلم اکثریتی ملک آذربائیجان کا حصہ ہے جسے دنیاکے ممالک بھی اس علاقے کو آذربائیجان کا حصہ تسلیم کرتے ہیں لیکن نگورنو کاراباخ کا انتظام وانصرام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان اس علاقے کو حاصل کرنے کے لیے 80اور 90کی دہائی میں خونریز جنگیں ہو چکی ہیں جس کے دوران کے دوران لگ بھگ تیس ہزار جانیں ضائع ہو گئی تھیں۔آذربائیجانی آرمینیائی کے درمیان نگورنو کاراباخ تنازع سابق سوویت یونین کے خاتمے کے بعد پیدا ہونے والے بد ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک ہے۔ 1994میں روس کی کوششوں کے نتیجے میں ہونے والی جنگ بندی سے پہلے نگورناکاراباخ مکمل طور پر آرمینیائی افواج کے کنٹرول میں آ چکا تھا۔ اس معاہدے کے نتیجے میں یہ طے ہوا کہ نگورناکاراباخ آذربائیجان کا ہی حصہ رہے گا لیکن اس کا حکومتی انتظام آرمینیائی نسل کے لوگوں کے پاس ہو گا جنھیں آرمینیا کی حکومت کا تعاون حاصل ہے۔
دونوں ممالک کے مابین 1994میں طے پانے والے جنگ بندی معاہدے کے باوجود امن عمل عملی طور پر معطل رہا اور وقفے وقفے سے جھڑپیںہوتی رہی ہیں۔ماضی میں فرانس، روس اور امریکا ثالثی کی کوششیں کرتے آئے ہیں مگر کسی ممکنہ امن ڈیل کی امیدیں 2010میں مذاکرات کے خاتمے کے بعد دم توڑ گئی تھیں۔حالیہ جنگی صورتحال سے قبل 2016میں دونوں ملکوں کی افواج کے مابین باقاعدہ مسلح جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں مجموعی طور پر سینکڑوں افراد مارے گئے تھے۔جنگ اور دونوں جانب سے نسلی بنیادوں پر تشدد کے نتیجے میں دسیوں ہزار افراد ہلاک اور کم از کم دس لاکھ نقل مکانی پر مجبور ہوئے۔ رواں سال جولائی میں جھڑپوں کے نتیجے میں سترہ فوجیوں کی ہلاکت کے بعد سے سرحدی کشیدگی کی تازہ لہر جاری ہے۔
آذربائیجانی آرمینیائی تنازعے میں خطے کی دو بڑی قوتیںروس اور ترکی کے اس جنگ میںملوث ہو نے کے اندیشے بڑھ رہے ہیں۔ ترکی واضح طورپرحالیہ کچھ عرصے سے آذربائیجان کی حمایت میں بیانات دے رہاہے۔ انقرہ حکومت کی جانب سے نگورنو کاراباخ کے واپس آذربائیجان کے ساتھ الحاق کی حمایت میں کئی بیانات سامنے آ چکے ہیں۔اتوار 27ستمبرکو ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے اس نئے بحران میں آذربائیجان کی حمایت کا وعدہ کیا۔ترک صدر کاکہناتھا کہ آرمینیا علاقائی امن و امان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ واضح رہے کہ ترکی نے سنہ 1991میں آذربائیجان کو سب سے پہلے تسلیم کیا جب وہ سابق سویت یونین سے آزادہوگیاترکی کے اس تسلیم ورضا پرآذربائیجان کے سابق صدر حیدر علییف نے کہا تھا کہ ’’دراصل ہم اورترکی دو ریاستوں والی ایک قوم ہیں‘‘دوسری جانب آرمینیا کے روس کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ روس کا ایک فوجی بیس بھی آرمینیا میں ہے۔ اس کے علاوہ روس اور آرمینیا ایک فوجی اتحاد کا بھی حصہ ہیں جس کا نام کلیکٹیو سکیورٹی ٹریٹی آرگنائزیشن’’سی ایس ٹی او‘‘ ہے۔ روس آرمینیا کا اتحادی ہے اور اسے عسکری ساز و سامان فراہم کرتا آیا ہے۔ روایتی طور پر آرمینیا کے اتحادی کے طور پر دیکھے جانے والے روس نے فوری طور پر جنگ بندی اور صورتحال کو مستحکم کرنے کے لیے بات چیت کا مطالبہ کیاجبکہ فرانس نے، جہاں آرمینیائی باشندوں کی ایک بڑی کمیونٹی موجود ہے، فوری طور پر جنگ بندی اور بات چیت کا مطالبہ کیا جبکہ ایران نے امن مذاکرات کی پیشکش کی۔
سویت یونین کے خلاف جہاد افغانستان کے اختتام اورمجاہدین کے ہاتھوں سوویت یونین کوعبرتناک شکست ملنے کے ساتھ ہی یہ21دسمبر 1991کامحیرالقول واقعہ پیش آیاکہ جب روسی ٹی وی پر خبریں ایک ڈرامائی اعلان کے ساتھ شروع ہوئیں’’صبح بخیر سوویت یونین اب وجود نہیں رکھتا‘‘۔
25 دسمبر 1991کو میخائل گورباچوف نے سوویت یونین کے صدر کے طور استعفے کا اعلان کر دیااورکریملن میں آخری بار سوویت پرچم اتارا گیا۔اس سے کچھ دن قبل روس، بیلاروس اور یوکرین کی لیڈرشپ نے سوویت یونین کو تحلیل کرنے اور آزاد ریاستوں کے’’ کامن ویلتھ فورم ‘‘کے قیام کے لیے ملاقات کی تھی جبکہ مزید آٹھ سوویت ریاستوں جن میں پانچ مسلمان ریاستوں ازبکستان، ترکمانستان، تاجکستان ،کرغزستان ،قازقستان اورآزربائیجان نے بھی اس میں شمولیت کا فیصلہ کر لیا تھا۔ان تمام ریاستوںنے میخائل گورباچوف کے خلاف مزاحمت کرنے کااعلان کردیا۔
مجاہدین اسلام کے ہاتھوں تازہ تازہ پٹ جانے کے باعث سوویت یونین کے صدرمیخائل گورباچوف ان تمام ریاستوں کی اعلان مزاحمت کوبرداشت نہ کرسکے اورانہوں نے بغیرجنگ کے ان تمام ریاستوں کوآزادکردیااوریوںسوویت یونین کاخاتمہ ہوا۔جب میخائل گورباچوف سے پوچھاگیاکہ وہ یہ کیاکر گئے اورکیوں کرگئے توگورباچوف نے کہا کہ ہم سب خانہ جنگی کی جانب بڑھ رہے تھے اور میں اس سے اجتناب کرنا چاہتا تھا۔ان کاکہناتھاکہ معاشرے میں تقسیم اور ملک میں لڑائی سے، جیسا کہ ہمارے ملک میں تھی، ہتھیاروں، بشمول جوہری ہتھیاروں کی ریل پیل سے بہت سارے لوگ مر سکتے تھے اور بربادی ہو سکتی تھی۔ میں صرف اقتدار سے چپکے رہنے کے لیے ایسا نہیں کر سکتا تھا۔ مستعفی ہونا میری کامیابی تھی۔مغرب میں بہت سارے لوگ میخائل گورباچوف کو ایک ہیرو کے طور پر دیکھتے ہیں، ایک ایسا شخص جس نے مشرقی یورپ کو آزادی دی اور جرمنی کو دوبارہ متحد کیا۔ لیکن ان کے ملک میں بہت سارے لوگ گورباچوف کو ایک ایسا رہنما سمجھتے ہیں جنھوں نے ایک سلطنت کھو دی۔
Comments are closed.