اپنے بچوں کی دینی تعلیم اور ماحول کے ذریعے صحیح تربیت کریں ورنہ ۔۔۔۔ عمر فراھی

اپنے بچوں کی دینی تعلیم اور ماحول کے ذریعے صحیح تربیت کریں ورنہ ۔۔۔۔
عمر فراھی ۔۔۔
اگر کوئی کسان یوپی کی دومٹ اور سفید چکٹ مٹی میں ناریل کاجو اور انگور کا پودہ لگا دے تو ممکن ہے کہ کسان کی محنت اور جدو جہد سے یہ پودہ جوان ہو کر درخت میں تبدیل ہو جاۓ اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان درختوں میں اسی شکل کے پھول اور پھل بھی آجائیں ۔لیکن یہ بات سو فیصد ناممکن ہے کہ یہ پھل اپنے اصل ضائقے سے کسان کی مراد بھی پوری کریں ۔کسان کا بیٹا ہوں اور بچپن میں باغبانی میں دلچسپی بھی رہی ہے اس لئے سو فیصد یقین سے کہہ رہا ہوں کہ دنیا کے ہر قسم کی مخلوقات وہ چاہے چرند و پرند اور نباتات ہی کیوں نہ ہوں ان کی بہترین نشو نما کیلئے ماحولیات اور آب و ہوا کا بہت ہی نمایاں کردار ہوتا ہے ۔
سوال یہ ہے کہ جب دیگر مخلوقات کی بہترین نشو نما کیلئے آب و ہوا اور ماحولیات کا سو فیصد دخل ہے تو پھر بغیر کسی معاشرے اور ماحول کی تربیت اور اصلاح کے مسلمانوں کی بہترین نسل کیسے تیار ہو سکتی ہے ۔
بچہ مسلمان کا ہو اور اسے کسی یہودی عیسائی یا مشرک ماں کی گود میں پرورش کیلئے سونپ دیا جاۓ تو کیا وہ جوان ہو کر اپنے عقیدے پر قائم رہ پاۓ گا ۔یقینا اس کا جواب ہر شخص نفی میں دے گا ۔اور یہ اس لئے کہ وہ اپنی گود لی ہوئی ماں کی وہی تعلیم لے گا جو اس کی ماں کی زبان اور تعلیم ہے ۔
اسی طرح آج ہم اپنے جن معصوم بچوں کو سیکولر معاشرے کے تعلیمی اداروں میں تعلیم دلوا رہے ہیں یا ہمارے بچے بعد میں بھی اسی غالب لادینی معاشرے سے متاثر ہو رہے ہیں کہاں تک اپنے مکمل عقیدے پر قائم رہ پائیں گے ؟
چونکہ ہمارے یہ بچے اسکول ٹائم کے علاوہ کچھ وقت اپنے مسلمان ماں باپ کے گھر پر بھی گزارتے ہیں اس لئے اپنے عقیدے سے منحرف تو نہیں ہو پاتے لیکن غور کیجئے تو کیا ان بچوں کی کیفیت بھی یوپی میں لگاۓ گئے ناریل کے درخت کے پھل کی طرح نہیں ہے جو شکل سے تو ناریل ہے لیکن ضائقے کے اپنی خصوصیت کھو بیٹھا ہے ۔ذرا سوچئے کہ ہمارے آباؤاجداد تو خالص مسلمان تھے اور کسی حد تک ہم بھی کچھ کتابیں پڑھ کر کچھ اسلامی تعلیمات اور اس کی روح سے واقف ہیں لیکن یہ نسل جو صرف اپنے جسم سے مسلمان ہے روحانی طور پر ایمان سے خارج ہے ان کی اولادوں کا مستقبل کیا ہوگا ۔اگر یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا تو ایک دن جسمانی شکل و صورت سے بھی محروم ہو جائیں گے اور صرف سلمان اور شبیر نام ہی رہ جاۓگا۔شاید اب نام بھی اتنی اہمیت کا حامل نہیں رہا ۔آج کل مسلمانوں کے گھروں میں گوگل اور کمپیوٹر سے نام تلاشے جارہے ہیں جو مسلمانوں جیسے تو لگتے ہیں لیکن ان کے نام سے کوئی مفہوم بھی واضح نہیں ہوتا ۔یعنی یہ کس پیڑ کا درخت ہے اس کی شناخت کرنا بھی مشکل ہونے لگا ہے ۔
اب سوال یہ ہوتا ہے کہ معاشرے کی تربیت اور اصلاح کیسے ہو ۔ہمارے یہاں ہر شخص معاشرے کی اصلاح کیلئے اپنے بچوں کی بہتر تعلیم کی وکالت کر رہا ہے جو درست بھی ہے درست نہیں بھی ہے لیکن مکمل جدید سیکولر نصاب تعلیم کے ذریعے مسلمان بچوں کی جو نوے فیصد بھیڑ باہر نکل کر آرہی ہے کیا آپ ان میں کوئی شاہ ولی اللہ دہلوی تھانوی سرسید حالی شبلی ابوالکلام آزاد اقبال مودودی اور علی میاں ندوی تلاش کر پائیں گے ؟
یہ شخصیات پیدا ہوں یا نہ ہوں اگر آپ اپنے بچوں کا ایمان سلامت دیکھنا چاہتے ہیں تو کم سے کم پرائمری تک ایسے مکتب اور مدرسوں کی بنیاد رکھی جائے جہاں بچہ اپنی بنیادی اسلامی تعلیم سے واقف ہو ۔یہ نا ممکن بھی نہیں ہے ۔ہماری عمر کے جو لوگ یو پی اور اعظم گڑھ سے تعلق رکھتے ہیں وہ اسی مدرسے اور مکتب سے فارغ ہوکر چھٹی کلاس میں عام اسکولوں میں داخلہ لیا میں نے دیکھا ہے کہ ان مدرسوں سے فارغ بچے سرکاری مدرسوں سے پڑھ کر آنے والے بچوں سے کہیں زیادہ ذہین رہے ہیں ۔بعد میں مسلمانوں کے یہ بچے بڑی تعداد میں علی گڑھ وغیرہ سے فارغ ہوئے جس میں ایک مشہور نام امریکہ کے ایک مشہور تاجر فرینک ایف اسلام کا بھی ہے ۔آپ کہہ سکتے ہیں کہ فرینک ایف اسلام نے ایک عیسائی یا یہودی عورت سے نکاح کر لیا لیکن انہیں اپنے مذہب اور وطن سے محبت کرنے کا جو درس مکتب سے ملا تھا اسی جذبے کے تحت وہ ابھی تک بہت سے مسلم اداروں کو ہزاروں کروڑ کا عطیہ دے چکے ہیں ۔اس کے برعکس جدید مکتب اور ماحول کے تعلیم یافتہ ایم جے اکبر عارف محمد خان یا فلم انڈسٹری کے سارے خانوں نے بھی کیا اپنی قوم اور قومی اداروں کیلئے کوئی عطیہ دیا ہے ۔سچ تو یہ ہے کہ انہوں نے کھل کر کبھی اپنے مسلمان ہونے کا بھی اعتراف نہیں کیا ۔ہندوستان میں جب کبھی بھی کوئی فرقہ وارانہ مسئلہ پیدا ہوتا ہے تو ہم میں سے کچھ لوگ یہ راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں کہ ہم نے غیر مسلموں میں اسلام کی دعوت نہیں پہنچائی اس لئے ایسا ہو رہا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ جو فیس بک یا سوشل میڈیا پر ایک فیصد مسلمان متحرک ہیں انہیں دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ ہماری قوم میں کچھ لوگ قوم کیلئے فکر مند ہونے والے ہیں ۔ہماری آبادی کا نوے فیصد طبقہ ہندو فرقہ پرستی اور ملک کے حالات سے خوفزدہ ضرور ہے لیکن اسے ٹھیک سے اپنے مسلمان ہونے کا مفہوم بھی نہیں پتہ ۔یقین نہ آئے تو عام شادی بیاہ اور تجارت وغیرہ کے معاملات میں دیکھ لیں مسلمانوں کی ایک بڑی آبادی کو قوم سے کچھ لینا دینا نہیں ہے اور وہ بے فکری کی زندگی بسر کر رہی ہے ۔اس وقت غیر مسلموں میں دعوت سے کہیں زیادہ مسلمان بچوں کی ان کی بنیادی دینی تعلیم سے ہی تربیت کی ضرورت ہے تاکہ جب یہ نسل اپنے دین اور اسلام کے ساتھ بالغ ہو تو غیروں میں اپنی دینی غیرت و حمیت اور اخلاق سے اپنی انفرادی پہچان بنا سکے ۔اور یقیناً یہی پہچان ہی غیروں میں اسلام کی دعوت کا سبب بن سکتی ہے ورنہ صرف زبان و کلام سے تو ابوالکلام بھی اپنے ساتھیوں میں سے کسی ایک ہندو ساتھی کو اسلام کی صحیح دعوت نہیں پیش کر سکے اور نہ ہی میری معلومات میں سے کسی ایک سیاسی شخصیت نے ان سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا ہو ۔ہماری اور آپ کی تو خیر کوئی اوقات ہی نہیں ہے ۔اور ماشاءاللہ جس طرح اچھے علماء تیزی کے ساتھ اٹھائے جارہے ہیں شاید مستقبل میں اچھی باتیں کرنے والے علماء بھی موجود نہ رہیں ۔
Comments are closed.