شوہر بیوی سے حسن سلوک کرے! عبد الواحد قاسمی

اسلام میں شوہروں کو حکم ہے کہ وہ اپنی بیوی کے ساتھ حسن معاشرت اختیار کریں، حسن ِ معاشرت کا بنیادی پہلو یہ ہے کہ شوہر اپنی شریک حیات پر ذہنی و جسمانی تشدد سے مکمل اجتناب کرے لیکن سماج میں ایسے کئی ناہنجار، جاہل اور ظالم مرد ہیں جو اپنی کمزور ناتواں بیوی کو جانوروں کی طرح سے مارتے پیٹتے ہیں اور اس کو اپنا حق سمجھتے ہیں ۔ یہ بات کس طرح مناسب ہوسکتی ہے کہ مرد ایک طرف تو اپنی بیوی سےذہنی سکون و جسمانی لذت حاصل کرے، پرُکیف لمحات گزارے اور دوسری طرف اس کے ساتھ اس قدر وحشیانہ بے دردانہ سلوک کرے؟ یہ ایک انتہائی غیر انسانی اور غیر مہذب حرکت ہے،
آپ ﷺ نے فرمایا کہ : يظل أحدكم يضرب امرأته ضرب العبد ثم يظل يعانقها ولا يستحي؟
(تمہارا چہرہ سیاہ ہو تم اپنی بیوی کو باندی کی طرح مارتے ہو پھر اس کے ساتھ بوس و کنار کرتے ہو کیا تمہیں اس بات پر شرم نہیں آتی؟)
یعنی ایک وقت میں تم اسے اتنا قریب کر رہے ہو اور دوسرے وقت میں اسے باندی کی طرح مار رہے ہو۔ یہ الفاظ ہمیں پیغام دے رہے ہیں کہ بیوی گھر کی نوکرانی نہیں بلکہ شریک حیات ہے۔
بیوی اور باندی میں فرق ہوتا ہے عقل مند کو اس فرق کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ بیوی کو بندہ نکاح کے ذریعہ خرید نہیں لیتا، بلکہ وہ نکاح کے ذریعہ مرد کے عقد میں آتی ہے تاکہ اس کے ساتھ شریک حیات بن کر زندگی گزارے، وہ باندی نہیں بن جاتی۔ شریعت نے میاں بیوی کے تعلق کو آقا اور باندی کا تعلق نہیں بتایا، بلکہ دو اچھے دوستوں کا تعلق بتایا ہے۔
میاں بیوی دو محبت کرنے والے دوستوں کی طرح زندگی گزاریں! تاہم ان میں سے شریعت نے فضیلت مرد کو دے دی کہ جب کبھی دونوں میں اختلاف رائے ہوجائے تو عورت خاوند کی رائے کو اپنی رائے بنا لے تاکہ اختلاف ختم ہوجائے۔
تاہم اچھے لوگ ہمیشہ بیویوں کے ساتھ مشورے سے اپنا گھر کے امور کو انجام دیتے ہیں۔
عبدالواحد القاسمی مظفرنگری
Comments are closed.