اصلاح قلب کی راہ میں پہلا قدم

ترتیب: عبدالعزیز
بہت سارے لوگ دین کی بنیاد ی باتوں سے واقف نہیں ہوتے بنیادی تعلیمات پر مستند کتابیں ہر زبان میں دستیاب ہیں صاحب علم وعمل کے مشورہ سے ایسی کتابیں حاصل کی جا سکتی ہیں ایسے لوگوں کی صحبتوں سے بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ اصلاح اور تربیت کا آغاز نماز سے ہونا چاہئے۔ علامہ حمید الدین فراہی اپنے ایک رسالہ ’ اصلاح الناس‘ میں لکھتے ہیں ’’ میں نے یہ جاننے کے لیے اصلاح قلب کی راہ میں پہلا قدم کیا ہے بارہا کتا ب و سنت پر غور کیا بعض مرتبہ مجھے خیال ہوا اس سوال کا جواب آیت ذیل سے مل سکتا ہے : ’’تو جس نے (راہ خدا میں) مال دیا اور ( خدا کی نافرمانی سے) پر ہیز کیا‘اوربھلائی کو سچ جانا اس کو ہم آسان راستے کی سہولت دیں گے‘‘( سورہ الیل4‘ 5‘6)۔اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کی توفیق کس طرح حاصل ہوتی ہے نیز یہ معلوم ہوتا ہے کہ اصلی حجاب مال و اولاد کی محبت ہے بخل اور بز دلی کی تمام برائیاں اسی سے پیدا ہوتی ہیں اور تمام اعمال صالحہ کی جڑ اور تمام معاصی سے روکنے والی چیز تقویٰ اور تصدیق حسنی سے آدمی پر آخرت کی تیاریوں کی راہیں کھلتی ہیں۔ اس کے بعد مجھ پر ایک اور اہم حقیقت آشکار ا ہوئی اور دلائیل نے اس کی تائید کی وہ کہ نماز پہلی اور آخری دوا ہے اس کے بعد علامہ نے نماز کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے۔
’’چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے نماز کا حکم دیا اور نماز کی حقیقت، ذکر اور تبتل بتائی، اور نماز کی جس قدر تاکید کی، ایمان کے بعد اس قدر تاکید کسی عمل صالح کی نہیں کی۔ پھر یہ نکتہ بھی پیش نظر رہنا چاہیے کہ ذکر ہی سے قلب میں کیفیت و حالت پیدا ہوتی ہے اور قرآن کی تلاوت ہی سے دل زندہ ہو سکتا ہے کیونکہ قرآن مجید ہی روشنی اور شفا ہے، اور قرآن مجیدکی تلاوت کا سب سے زیادہ موزوں وقت نماز ہے۔ کتاب و سنت سے اس کی تائید ہوتی ہے، پھر نماز کی اصلی روح خشوع ہے جو تقویٰ، شکر اور توحید و توکل کی جڑ ہے۔ نماز، ہدایت اور توفیق کی دعا ہے۔ نماز فواحش اور منکر سے روکنے والی ہے، بلکہ وہ جس قدر صحیح، باقاعدہ، زیادہ اور خالص ہوتی جائے گی، اسی قدر اس کی تاثیرات بڑھتی جائیں گی۔
ان باتوں نے مجھ پر یہ حقیقت کھول دی ہے کہ اصلاح کی راہ میں پہلا قدم نماز ہے۔ آیت تیسیر جو اوپر گزر چکی ہے، تصحیح نماز کی طرف رہبری کرتی ہے۔ نمازی پر جو کیفیات طاری ہونی چاہئیں، ان کا خلاصہ تین چیزیں ہیں: صدقہ، تقویٰ اور عاقبت حسنیٰ کا یقین۔ پس جو شخص اصلاح اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے ارادے سے اٹھے اس کے لیے ضروری ہے کہ اپنے نفس کو نماز اور خشوع کے ذریعہ جانچ کر درست کر لے، اور یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب تک کسی شخص کی نماز درست نہ ہو گی، اس وقت تک اس کے نفس کی اصلاح نہیں ہو سکتی۔
۶۔ اس تمام بحث کا خلاصہ یہ ہوا کہ مصلح کے لیے عمل اصلاح کے آغاز سے پہلے اپنے نفس کی اصلاح ضروری ہے۔ اس کا راستہ یہ ہے کہ آدمی خدا کی راہ میں خرچ کرے، تقویٰ اختیار کرے، متّقین کے لیے اللہ تعالیٰ کا جو وعدہ ہے، اس کا یقین رکھے اور ایسی نماز پڑھے جو خشیت و شوق سے لبریز ہو۔ وہ صحیح نماز جس کا بیان سورہ مومنون میں ہے، اس میں وہ تمام باتیں بیان کر دی گئی ہیں جو نماز سے پہلے، نماز کے اندر، اور نماز کے بعد ضروری ہیں اور ایک سے زیادہ آیات میں اس چیز کی طرف بھی اشارہ کر دیا ہے جو نماز کی روح ہے یعنی ذکر و انابت، اور احادیث میں ذکر کے معنی بھی بتا دیے گئے ہیں کہ بندہ خدا کی اس طرح عبادت کرے گویا اس کو دیکھ رہا ہے۔
۷۔ تقویٰ ایک جامع لفظ ہے۔ یہ تمسّک بالکتاب کے ہم معنی ہے اور تمسّک بالکتاب، جیسا کہ قرآن مجید میں تصریح ہے، اتباع سنت کو شامل ہے۔ ان مقدمات کی توضیح دوسری جگہ ہو چکی ہے۔ پس میرے نزدیک مصلح کے لیے کتاب و سنت کا تمسّک اور نماز کی تصحیح ضروری ہے، اور نماز کی تصحیح اس کے شرائط کے بغیر ناممکن ہے۔
اس تفصیل کے بعد اللہ کے فرمان کے ذیعہ آپ بآسانی سمجھ سکتے ہو جو طریق اصلاح کی طرف رہبری کر رہی ہے:
’’جو کتاب کو مضبوطی سے پکڑتے ہیں، اور نماز قائم کرتے ہیں بے شک ہم مصلحین کا اجر ضائع نہیں کرتے۔ (الاعراف170)
نماز:
˜صلوٰۃ (نماز) کا اصل مفہوم ’اقبال الی الشیٔ ‘ ہے، یعنی کسی شے کی طرف بڑھنا اور لپکنا۔ یہی مفہوم رکوع، تعظیم اور دعا کا بھی ہے۔ یہ کلمہ نماز و عبادت کے لیے قدیم زمانہ سے مستعمل ہے۔ کلدانی میں دعا اور تضرع کے لیے اور عبرانی میں نماز اور رکوع کے لیے آیا ہے۔
˜نماز دین کے اولین احکام میں سے ہے بلکہ دین کی بنیاد کی نماز پر ہے ۔ اور نمازکی حقیقت اللہ کے نام کی یاد ہے ‘ جیسا کہ فرمایاہے : (ترجمہ) اور اپنے ر ب کے نام کویاد کیا سو نماز پڑھی (سورہ اعلیٰ15) دوسری جگہ ہے : (ترجمہ) اور یاد کراپنے رب کے نام کو اور اسی کی طرف یکسو ہو۔(سورہ مزمل 8)
’’اسی طرح یکسوہو‘‘ یعنی اس کی نماز پڑھ ‘ جیسا کہ سیاق سے واضح ہے ۔ کسی شے کانام اس کی یاد کا واسطہ ہواکرتا ہے ۔پس اللہ کے نام کی یاد ہی درحقیقت اللہ کی یاد ہے اور یہی چیز نماز کی روح ہے ۔اسی وجہ سے جب نماز کو اس کی کامل صورت کے ساتھ ادا کرنا ممکن نہ ہوتو کم از کم ذکر اللہ کو قائم رکھنے کاحکم ہوا اورا من و اطمینان کی حالت میں بھی اس کی تاکید فرمائی گئی تاکہ یہ حقیقت واضح رہے کہ نماز کی اساس یہی چیز ہے ‘ چنانچہ فرمایا:(ترجمہ) پھر اگر تم کو خطرہ لاحق ہوتو پیادہ یا سوار جس حالت میں بھی ہو پڑھ لیا کرو‘ اور جب تم اطمینان ہوجائے تو خدا کی یاد اس طرح کرو (یعنی نماز پڑھو) جس طرح تم کو سکھلایاہے جو کہ تم نہیںجانتے تھے (یعنی نماز کی کامل صورت ) (سورہ بقرۃ 239)
اسی طرح حضرت موسیٰ علیہ السلام کوشروع ہی میں اس حقیقت سے آگاہ کردیاگیاتھا : (ترجمہ) میںہی اللہ ہوں ‘نہیں ہے کوئی معبود مگر میں ۔ پس میری ہی عبادت کرو اور میری یادکیلئے نماز قائم کرو۔( سورہ طہٰ 14)
سورہ اعراف میں فرمایا: (ترجمہ) اور جو کتاب کو مضبوطی سے تھامتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔( 170)
˜نماز شریعت کا اولین حکم‘ توحید کامظہر اوراس کی گواہی ہے۔اللہ نے اپنی کتاب میںتوحید کی دعوت کے بعد نماز کا حکم دیا‘ فرمایا ہے: (ترجمہ) اور کہوشکر کا سزاوار اللہ ہے جس کے نہ کوئی اولاد اور نہ جس کی بادشاہی میں کوئی اس کا شریک اور نہ جس کی ذلت سے بچانے کے لئے کسی مدد گا ر کی حاجت ۔ بڑائی بیان کرو اس کی جیسا کہ اس کا حق ہے ۔(سورہ بنی اسرائیل 111)
˜نماز اس عہد کی یاددہانی ہے جو ہم نے خدا سے خالص اسی کی عبادت کیلئے کر رکھا ہے ۔ تخَیق کی اصل یہی ہے کہ خالق کی عباد ت کی جائے ۔اسی لئے خدا کی تمام مخلوقات اس کی عبادت میں مصروف ہیں۔ نماز اسی عبادت کا مغز ہے اوراس کی تعبیر تسبیح کے لفظ سے کی جاتی ہے ۔ قرآن مجید سے معلومہوتا ہے کہ پوری کائنات تسبیح میں مصرو ف ہے ۔ یعنی اپنی اپنی نماز کی ادائیگی کرتی ہے ‘ چنانچہ فرمایا:(ترجمہ) ساتوں آسمان اور زمین اور جوا ن میں ہیںسب اس کی تسبیح کرتے ہیں اور کوئی شے ایسی نہیںجو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو ۔(سورہ بنی اسرائیل 44) اور دوسری جگہ فرمایا (ترجمہ) نہیں دیکھتے کہ جوآسمان اور زمین میں ہیں سب اللہ کی تسبیح پڑھتے ہیں اور چڑیاقطاردرقطار ‘ ہر ایک نے اپنی نماز اور تسبیح سیکھ رکھی ہے ۔ (سورہ نور41)
اس سے معلوم ہوا کہ نماز تمام مخلوقات الہیٰ کی فطرت ہے ۔
˜نماز کا حکم خدا کے ساتھ ہمارے اس عہد کا بھی ایک تقاضا ہے جس کے تحت ہمیں اس کے ذکر میںرہنے کا حکم دیاگیا ہے۔ اس عہد کا ذکر قرآن مجید میںیوںہوا ہے : (ترجمہ ) سوتم مجھے یاد رکھو ‘ میں تمہیں یادرکھوں گا (سورہ بقرہ152)
اے ایمان والو! اللہ کو بہت زیادہ یاد کیاکرو اوراس کی تسبیح کروصبح و شام ۔ وہی ہے جوتم پرا پنی رحمت بھیجتا ہے اوراس کے فرشتے بھی‘ تاکہ وہ تم کوتاریکیوں سے نکال کرروشنی کی طرف لے آئے اور وہ مومنوں پر نہایت مہربان ہے (سورہ احزاب 41-43)
یعنی جس طرح تم اس کی یاد کرتے ہو اوراس کی تسبیح پڑھتے ہو اسی طرح وہ اس کے ملائکہ تم پر رحمت بھیجتے ہیں جس سے تمہار ی روشنی بڑھتی ہے ۔
اس امت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا عہد نماز کے ذریعہ سے قائم ہے ۔ جب تک ہم نماز پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں گے اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہمارا رشتہ مضبوط رہے گا ۔اس وقت تک ہم اپنے دشمنوں پر غلبہ پائیں گے اوراس دشمن ازلی(شیطان) سے بھی مامون رہیں گے جو ہمارے اپنے پہلو میںموجود ہے جیسا کہ قرآن مجید میں اجمالاً وتصریحاً اس کا وعدہ کیا گیا ہے : (ترجمہ) ’’ نماز بے حیائی اور برائی سے روک دیتی ہے ‘‘ -( سورہ عنکبوت 45)
اور ترک نماز کی وجہ سے بعض ملتوں کی گمراہی کا ذکر ان لفظوں میں ہوا ہے : (ترجمہ) ان کے بعد ان کے ایسے جانشیں آئے جنہوںنے نماز ضائع کردی اور شہوتوں کے پیچھے لگ گئے ‘ وہ بہت جلد اپنی گمراہی سے دوچار ہوں گے ۔(سورہ مریم56)
یہ آیت انبیائے کرام اورا ن کی انعام یافتہ جماعت کے ذکر کے بعد آئی ہے جس کے صاف معنی یہ ہوئے کہ نماز کا ترک اللہ تعالیٰ کی منعم علیہم جماعت سے نکل جانے کے مترادف ہے ۔
˜نماز رب کا واحد شکر ہے ۔بندہ اپنی دعا میں اگرخدا کے ساتھ کسی اور کوشریک کرے تو یہ کفر ہے۔ اسی طرح نمازترک کردی جائے اورخدا کے ذکر سے منہ موڑ لیاجائے تو یہ بھی کفر ہے ۔ بعض جگہ قرآن مجید میں نماز کی تعبیر ہی شکر کے لفظ سے کی گئی ہے ۔ مثلاً: (ترجمہ) سو تم مجھے یادرکھو میںتمہیں یادرکھوں گا ۔ میری شکر گزاری کرتے رہنا ‘ ناشکری نہ کرنا ( سورہ بقرہ152)‘‘

()()()

E-mail:[email protected]
Mob:9831439068

 

Comments are closed.