زنا میں ہجومی قتل اور اسلامی سزا – محمد صابر حسین ندوی

زنا میں ہجومی قتل اور اسلامی سزا –
محمد صابر حسین ندوی
7987972043
۳/دسمبر ۲۰۱۹ کو راجیہ سبھا میں جیا بچن نے تقریر کرتے ہوئے کہا تھا؛ کہ عصمت دری کے واقعات کو روکنے کیلئے ضروری ہے کہ زانیوں کو سر عام سزا دی جائے، انہیں عوام کے ہاتھوں پیٹ پیٹ کر مار دیا جائے، جس طرح بعض ممالک میں ہوتا ہے، اس سے مراد سعودی عربیہ اور ایران جیسے ممالک ہیں جہاں پر اسلامی قانون کے مطابق رجم کیا جاتا ہے، محترمہ نے اپنے بیان میں لنچنگ لفظ کا بھی استعمال کیا تھا، یہی نہیں ان جیسی متعدد خواتین اور درجنوں سیاست داں اس کا مطالبہ کر چکے ہیں، جیابچن نے ایک طرف جہاں اسلامی تعلیمات سے متاثر ہو کر اسے غیر صحیح نہج پر پیش کیا تو وہیں لنچنگ کی کہیں نہ کہیں حوصلہ افزائی کی، گویا ان کے نزدیک عوامی فیصلے درست ہوتے ہیں، پہلو خاں، اخلاق، تبریز اور جنید جیسے سینکڑوں معصوموں کی جان قربان کردی دی گئی، انہیں ہجومی تشدد کا نشانہ بنایا گیا، گائے کشی یا چوری کے جھوٹے الزام پر انسانی جمگھٹے نے قانون و انصاف کی چولیں ہلاتے ہوئے خود کو فیصل بنا لیا، پس پردہ مسلمانوں کی خون ریزی کو سپورٹ کرنے والے اور کوئی نہیں اعلی عہدوں پر براجمان ہیں، قانون دان ہیں اور قانون ساز بھی ہیں، وہ لوگوں کی خیر خواہی اور عوام کی فلاح و بہبودی؛ نیز جمہوریت کے تحفظات کی یقین دہانی کروانے والے ہیں، لیکن یہ تو خود ہاتھوں چھرا لئے بے گناہوں کو قتل کرنے کی بات کر رہے ہیں، محض پولس کے گرفتار کر لینے سے ہی جرم کو ثابت سمجھنے والے یہ جاہل ہیں، جو ملک کی آئین ساز کمیٹی میں دخیل ہیں، اگر ایسا کردیا جائے تو نہ جانے کتنے لوگ جنہیں عدالت باعزت بری کردیتی ہے اور جرم عائد نہیں ہوپاتا یے وہ سب کے سب مارے جائیں گے، کچھ سال قبل دہلی میں ایک اسکول کے بچے کے ساتھ جنسی استحصال ہوا اور قتل بھی کردیا گیا، مجرم کے طور پر بس ڈرائیور کو پکڑا گیا، اسے لنچ کرنے کی کوشش کی اور کورٹ سے قبل ہی اسے سخت ترین مجرم بتلایا گیا؛ لیکن جب تحقیق ہوئی تو عدالت نے یہ پایا کہ مجرم اسی کے کلاس کا ایک لڑکا تھا اور وہ ڈرائیور بے قصور تھا۔
یہ اگر پرانی بات ہے تو تازہ خبر کے مطابق کچھ دنوں قبل ایک دلت بچی کی عصمت دری کے بعد جس لڑکے کو بھیڑ نے ماریا، آج اس کی فورنسک رپورٹ میں یہ پایا گیا ہے کہ اس کے کوئی منی کا قطرہ نہیں تھا، گویا ریپ ہوا ہی نہیں، ممکن ہے کہ یہ سیاست ہو؛ لیکن اس سے انکار نہیں کہ ملک میں یہ رویے جنگل راج کے موافق ہے. دراصل ملک میں قانون و ضابطہ نام کی کوئی چیز نہین رہ گئی ہے، اسی لئے عوام کو شتر بے مہار کردینے کی باتیں ہوتی ہیں، جس میں حوالہ اسلامی قانون کا دیا جاتا ہے؛ حالانکہ یہ محض کم علمی اور نادانی کی بات ہے، اسلام میں زنا یا زنا بالجبر کی سزا رجم کردینا ہے؛ لیکن اس کیلئے متعدد شرطیں ہیں، پورا عدالتی نظام ہے، ایک پروسیس کی طرح تمام چھوٹی اور بڑی باتوں پر بحث کی جاتی ہے، تب کہیں جا کر اسے عمل میں لایا جاتا ہے، بنیادی طور پر اس قانون کے نفاذ کیلئے امیر المومنین کا ہونا اور اسلامی عدالت کا ہونا شرط ہے، ساتھ ہی رجم کیلئے شادہ شدہ ہونا لازمی ہے، یہ بھی ضروری یے کہ اس شخص کے خلاف چار گواہان گواہی دیں اور وہ بھی گواہی ایسی ہو کہ کسی قسم کا شبہ نہ رہ جائے، اگر ان چار میں سے کسی نے معمولی شبہ کا بھی اظہار کیا یا پھر قاضی کو شبہ ہوجائے اور دلائل کو کافی نہ سمجھے تو رجم کی گنجائش نہیں ہے، البتہ کوڑے مارے جا سکتے ہیں یا دوسری تعزیری سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں، مگر یہ بھی جان لینا چاہئے کہ اگر مجرم کی خطرناکی کا یقین ہو اور جرم کی سنگینی کا بھی علم ہو تب بھی یہ اختیار ہے کہ قاضی تعزیرا رجم کا حکم دیدے_ غرض اس کی شرائط اس قدر سخت ہیں کہ عموماً اس کی نوبت نہیں آتی_ اس کی بڑی وجہ ہے کہ اسلامی مملکت میں جسموں کے بجائے دلوں پر محنت کی جاتی ہے، زنا کے اسباب سے بھی بچنے کی تلقین ہوتی ہے، روحانیت کو مضبوط کرنے اور مادیت کو شکست دینے کی تدبیریں پائی جاتی ہیں_ ہمارا حال یہ ہے کہ تعلیم کا نصاب ہیجان کن، سینیما بینی ہیجان کن، معاشرے کی دیگر طرز رہائش و بود وباش ہیجان کن ہیں؛ یہاں تک کہ قانونی گرفت اور عدالتی نظام وینٹیلیٹر پر ہے اور باتیں انصاف کی ہوتی ہیں، نطام کی ہوتی ہیں، جرم کو ختم کردینے اور امن و امان قائم کردینے کی ہوتی ہیں۔
01/10/2020
Comments are closed.