گمراہی کو واضح کرنا غلط ہے؟؟ محمد اجمل قاسمی

گمراہی کو واضح کرنا غلط ہے؟؟
محمد اجمل قاسمی
کسی فرد یا جماعت کے باطل و گمراہ کن عقائد و نظریات کی بنیاد پر کسی عالم یا ادارہ کی جانب سے جب اس کے گمراہ بدعتی یا کافر ہونے کا فتوی دیا جاتا ہے تو ایک شور سا برپا ہوتا ہے کافر گری اور امت میں انتشار برپا کرنے کا الزام دیا جاتا ہے حالانکہ کوئی شخص گمراہ بدعتی یا کافر خود اپنے عقائد وافکار کی بنیاد پر ہوتا ہے مفتی یا عالم یہ کرتا ہے کہ گمراہ بدعتی اور کافر شخص کا گمراہ بدعتی اور کافر ہونا واضح کردیتا ہے ٹھیک اسی طرح جیسے ایک ڈاکٹر یا طبیب مریض کے حالات سن کر مریض کو اس کا مرض بتا دیتا ہے یہاں کوئی نہیں کہتا ڈاکٹر نے فلاں کو مریض بنادیا اور نہ ہی مرض بتانے کی وجہ سے ڈاکٹر سے نفرت کی جاتی ہے۔
مگر جب بات شریعت کی آتی ہے تو پڑھے لکھے لوگ بھی مفتیان کرام کو کافر اور گمراہ بنانے کا الزام دیتے ہیں۔
حضرت تھانوی کو وقت کے ایک دیدہ ور عالم و ادیب نے اپنے ایک مکتوب میں کچھ اسی طرح کی بات لکھی:
تو حضرت نے جواب میں فرمایا: کہ *” ہم کافر کو کافر بتاتے ہیں کافر بناتے نہیں "* یعنی آدمی کفریہ عقائد کو اختیار کرکے کافر خود بنتا ہے لیکن عام آدمی کو اس کا کافر ہونا معلوم نہیں ہوتا تو ایسے شخص کے عقائد و افکار کو دیکھ کر اس کافر کے بارے میں بتا دیتا ہے کہ یہ کافر ہے تاکہ عوام اس سے ہوشیار ہوجائیں۔
علماء کے اس طرح کے اقدام کو بہت سے لوگ اس لیے بھی ناپسند کرتے ہیں کہ اس سے مسلمانوں میں انتشار پیدا ہوگا گروہی نفرت بڑھے گی اس لیے ایسے فتاوی امت مسلمہ کے اجتماعی مصالح کے خلاف ہونے کی وجہ سے قابل ترک ہیں۔
ایسا خیال رکھنے والے امت مسلمہ کے مخلص ہیں مگر ان کا یہ نظریہ غلط ہے فاسد عنصر کو جسم سے جدا کرنے کو کوئی بھی جسم کی بربادی نہیں کہتا پھر فاسد عناصر کو ملت کے جسم سے جدا کرنا ملت کی بربادی کیوں کر ہوسکتی ہے؟؟
اور اگر تسلیم بھی کرلیا جائے کہ واقعتا یہ فتاوی مسلمانوں کے اجتماعی مصالح کے خلاف ہیں تب بھی گمراہ شخص کے گمراہ کن عقائد و تعلیمات کی تردید اور اس کا ابطال ضروری ہے اس لیے اگر ایسا نہ کیا گیا تو اسلام اور اسلامی تعلیمات کو خطرہ لاحق ہوجایائے گا غلط خیالات امت میں عام ہوں گے اور لوگ انہیں بدعات و خرافات کو اسلام سمجھنے لگیں گے
بلاشبہ اسلام کا تحفظ مسلمانوں کے کچھ افراد اور گروہوں کے تحفظ سے اہم ہے اس لیے کی اسلام کی حفظ و بقا ہی مسلمانوں کی حفظ بقا کی ضامن ہے
لوگوں کے لحاظ میں ان کے غلط خیالات پر سکوت اختیار کرنا در حقیقت دین کی تحریف پر راضی ہونا اور اللہ اور اس کے رسول کو ناراض کرنا ہے آج دوران مطالعہ فن حدیث کے حافظ و ناقد امام یحیی بن سعید قطان کا ایک ارشاد نظر سے گذرا امام ھمام کا ارشاد پڑھ کر آپ کی دینی غیرت سے طبیعت جھوم اٹھی آپ سے کہا گیا: *”آپ جن لوگوں پر جرح کرکے ان کی روایات کو ترک کر دیتے ہیں کیا آپ کو ڈر نہیں کہ قیامت میں اللہ کے حضور یہ تمھارے خلاف کھڑے ہوجائیں؟ آپ نے فرمایا: یہ لوگ میرے خلاف کھڑے ہوں مجھے پسند ہے بنسبت اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے خلاف کھڑے ہوں اور فرمائیں کہ تم نے میری احادیث سے جھوٹی باتوں کو دور کیوں نہیں کیا؟؟ ” قیل لیحیی بن سعید القطان اما تخشى ان يكون هؤلاء الذين تركت حديثهم خصمائك عند الله يوم القيامة؟ فقال: لان يكون هؤلاء خصمي أحب الي من أن يكون خصمي رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: لم لم تذب الكذب عن حديثي "*(السنة ومكانتها للسباعي ص ١١٠)
کسی گمراہ شخص کی گمراہی کو واضح کرنا علماء و مفتیان کے لئے کوئی خوشگوار عمل نہیں مگر دین کے تحفظ کی خاطر دل پر جبر کر کے انھیں اس ناخوشگوار مگر ضروری فریضہ کو انجام دینا پڑتا ہے تاکہ اللہ کے حضور جواب دہ نہ ہونا پڑے ۔
یہ درحقیقت ان کی شرعی ذمہ داری ہے حدیث پاک میں ہے
قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:
*يحملُ هذا العلم من كل خٓلف عُدولُه؛ ينفون عنه تحريف الغالين، وانتحال المبطلين، وتأويل الجاهلين.*
"رواه البيهقي وصحّحه الإمام أحمد وأخرجه التبريزي في (مشكاة المصابيح) 1/53 ".
"اِس عِلم کے حامل ہوتے رہیں گے ہر نئی نسل میں سے اُس کے معتدل ترین لوگ جو اس (علمِ دین) سے دفع کریں گے:
غلوپسندوں کی تحریف کو،
باطل پرستوں کی من گھڑت کو، اور جاہلوں کی تاویل (اسے نئے معانی پہنانے) کو۔”
اللہ ہمیں فہم سلیم عطافرمائے آمین
Comments are closed.